سرینگر/10 مارچ:
نجی اداروں میں کام کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ خاص کر وادی کشمیر میں نجی اداروں میں کام کرنے والوں افراد کو ہر طرح کی مرعات سے محروم رکھا جارہا ہے اور ماہانہ اْجرتیں بھی برائے نام دیئے جارہے ہیں۔
سی این آئی کے مطابق بیرون ریاست نجی اداروں میں کام کرنے والوں کے تمام مراعات سے نوازا جارہا ہے جبکہ ماہانہ تنخواہیں بھی سرکاری ملازمین سے کئی گنا زیادہ دیا جارہا ہے۔تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ شہر سرینگر او ر وادی کے دوسرے بڑے بڑے قصبوں میں قائم شوروموں ، شاپنگ مالو ں ، دکانوں و دوسرے تجارتی اداروں میں کام کررہے سیلزمینوں کو ان اداروں کے مالکان زبردست استحصال کررہے ہیں۔
ان سیلز مینوں کی ماہانہ تنخواہیں کم قلیل ہوتی ہیں مگر ریکاڑوں میں ان کی تنخواہیں ہزارں میں دکھائی جاتی ہے۔ اس صورتحال پر ان دکانوں و دوسرے تجارتی اداروں پر کام کررہے ان سیلز مینوں نے زبردست تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سراسر لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی ہے اور اس پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے۔
تعلیم یافتہ بے روزگار لڑکے لڑکیوں اور غریب ومتوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ان لڑکے لڑکیوں کو جہاں اپنا روزگار حاصل کرنے کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑرہی ہیں وہیں پرائیویٹ اداروں میں بھی کام کرنے کے باوجود بھی ان کا زبردست استحصال کیا جارہا ہے اور سخت محنت و مشقت کرنے کے باوجود ان کو انتہائی کم قلیل تنخواہیں دی جارہی ہیں۔شہر سرینگر اور وادی کے دوسرے بڑے بڑے قصبوں میں قائم شوروموں ، شاپنگ مالوں ، بڑی بری دکانوں اور دوسرے تجارتی اداروں میں کام کررہے بطور سیلز مین جن میں سیلز بائے اور سیلز گرلز شامل ہیں کا ان اداروں کے مالکان زبردست استحصال کررہے ہیں اور یہ سلسہ گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔
شہر سرینگر کے ان بڑے بڑے کاروباری اداروں میں کام کررہے ان سیلز بائے اور سیلز گرلز کی حالت زار کچھ اس طرح سے ہے کہ 14سے 16گھنٹے تک ان سے کام لیا جاتا ہے اور اتنی سخت محنت کے باوجود ان کو 4 ہزار سے 5 ہزار کی ماہوار تنخواہیں دی جارہی ہیں جو سراسر لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔ ان سیلز مینوں کو جہاں اتنی کم تنخواہیں دی جارہی ہیں وہی ان اداروں کے مالکان اپنے ریکارڈمیںان سیلزمینوں کی تنخواہوں کو ہزاروں میں درج کرتے ہیں تاکہ اس طرح سے دھوکہ دہی کر کے سیلز ٹیکس ادا کرنے سے بچ جائیں۔ اس صورتحال سے یہی بات سامنے آرہی ہے کہ اس طرح کی حرکات سراسر لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی ہے اور ان سیلز مینوں کے تجارتی اداروں کے مالکان زبردست استحصال کررہے ہیں۔ شہر سرینگر کے بازاروں میں ان شو روموں ، شاپنگ مالوں و دوسری بڑی دکانوں میں شہر سرینگر اور وادی کے دوسرے علاقوں سے سینکڑوں لڑکے بطور سیلز مین کا م کررہے ہیں جبکہ شہر کے کئی علاقوںکی دکانوں جن میں کاسمیٹکس دکانیں شامل ہیں میں سیلز گرلز یہ کام انجام دے رہی ہیں اور صبح سے شام تک وہ محنت سے کام وکاج کررہے ہیں مگر بدلے میں ان کی تنخواہیں اتنی کم ہوتی ہیں جو اسراسرنا انصافی ہے۔
لالچوک کے ایک بڑے دکان میں کام کررہے ایک سیلز بائے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ ان بڑے بڑے دکانوں کے مالک جہاں ایک طرف اچھا خاصا منافع کماتے ہیں اور کاروبار بھی اچھا کرتے ہیں وہی 12سے 16گھنٹے تک کام کرنے کے باوجود سیلز مینوں کو کافی کم تنخواہیں دی جارہی ہیں۔ اس سیلز مین کا کہنا تھا کہ حکومت کو لیبر ایکٹ کا نفاز پرائیویٹ روزگار کیلئے بھی رکھنا چاہیے تاکہ پرائیویٹ طور روزگار حاصل کرنے والے افراد کا استحصال نہ ہوسکے۔
