سرینگر،13فروری:
اپنی پارٹی کے قائد سید محمد الطاف بخاری نے کہا ہے کہ نئی دہلی بھی ماضی میں جموں و کشمیر میں خاندانی سیاست کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے جبکہ سیاسی خاندانوں نے اقتدار کے حصول اور اسے دوام بخشنے کےلئے یہاں عوام کو ہمیشہ لوگوں کو ناقابل حصول مقاصد اور جذباتی نعروں میں مصروف رکھا۔
سید محمد الطاف بخاری نے یہ باتیں وسطی ضلع گاندربل کے قمریہ میدان میں پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہیں۔ اس موقعے پر عوام اور پارٹی کارکنان نے اُن کا والہانہ استقبال کیا۔موصولہ بیان کے مطابق سید محمد الطاف بخاری نے روایتی سیاسی جماعتوں پر الزام لگایا کہ انہوں نے جموں و کشمیر میں لوگوں کے لیے ناقابل حصول اہداف طے کرکے یہاں تباہی مچادی ہے۔
انہوں نے کہا، ’’گزشتہ 70 سال سے زائد عرصے کے دوران یہاں سالہاسال تک اقتدار پر قابض رہنے والے سیاسی خاندانوں کی جماعتیں ہمیشہ لوگوں کے جذبات سے کھیلتی رہی ہیں۔ یہ موقعہ پرست سیاستدان اپنے مفادات کے حصول کےلئے اس عرصے کے دوران بار بار اپنا سیاسی بیانیہ بدلتے رہے ہیں۔ شروع میں انہوں نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک خود ساختہ ’محاذِ رائے شماری‘ کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا اور بعد میں 1975 میں اقتدار کی خاطر اسی تحریک کو دفن بھی کر دیا۔ اسکے بعد لوگوں کو ’اٹانومی‘ اور ’سیلف رول‘ جیسے پُر فریب نعروں سے بہلانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد ان سیاسی لیڈروں اور جماعتون نے یہ کہنا شروع کردیا کہ وہ دفعہ 370 اور 35 اے کی حفاظت کریں گے۔ اب جبکہ یہ آئینی دفعات ختم ہوچکی ہیں، اب یہی سیاسی جماعتیں عوام کو یہ کہہ کر بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ وہ ان دفعات کو واپس دلوائیں گے۔‘‘
سید محمد الطاف بخاری نے پوچھا، ’’اگر یہ جماعتیں واقعی مخلص تھیں تو پھر اقتدار کےلئے ’محاذ رائے شماری‘ کو دفن کیوں کیا، اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوجانے کے بعد بھی اٹانومی کے حصول کےلئے کوئی موثر اقدام کیوں نہیں کیا، پارلیمنٹ میں تین نششتوں پر بیٹھنے کے باوجود پانچ اگست 2019 کے واقعات کو روکنے کےلئے کوئی کوشش کیوں نہیں کی، اور نام نہاد اتحاد ’گپکار الائنس‘ قائم کرنے کے باوجود گزشتہ تین سال کے دوران دفعہ 370 کو واپس کیوں نہیں لا سکیں؟‘‘
اپنی پارٹی کے بیانیے کو دہراتے ہوئے، سید محمد الطاف بخاری نے کہا، "روایتی سیاست دانوں کی طرح ہم منافقانہ سیاست میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ہم سرینگر میں ایک بات، جموں میں دوسری اور دلی میں تیسری بات نہیں کرتے ہیں۔ ہمارا موقف اور ہمارے نظریات بدلتے نہیں ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ 1947 میں اُس وقت کی لیڈرشپ نے یہ طے کرلیا ہے کہ جموں کشمیر کی تقدیر بھارت کے ساتھ جڑی رہے گی اور ہم اس پر قائم ہیں۔‘‘
اس موقع پر پارٹی کے سینئر نائب صدر غلام حسن میر نے روایتی سیاسی جماعتوں کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ان جماعتوں نے ناقابل حصول اہداف اور جذباتی نعروں کے نام پر معصوم لوگوں کو سالہا سال تک قربانیاں دینے پر مجبور کیا اور بالآخر ان قربانیوں کو اپنے لئے اقتدار حاصل کرنے اور اقتدار کو قائم و دائم رکھنے کےلئے استعمال کیا۔ ‘‘
انہوں نے کہا کہ روایتی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کی گمراہ کن سیاست کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو یا تو جیلوں کی نذر ہوگئے یا پھر قبرستانوں میں دفن ہوگئے۔لوگوں سے آئندہ انتخابات میں اپنے ووٹ کا دانشمندی سے استعمال کرنے کی تلقین کرتے ہوئے غلام حسن میر نے کہا کہ آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ جو لوگ آپ کو برسوں اور دہائیوں سے دھوکہ دے رہے ہیں وہ آپ کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ آپ کو ان نمائندوں کو منتخب کرنا چاہیے جو آپ کے بیچ کے ہوں۔
انہوں نے لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ نہ کریں جیسا کہ وہ ماضی میں کرتے تھے۔ انہوں نے کہا، "بائیکاٹ کی سیاست نے ہمیشہ عوامی مفاد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔‘‘تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے صوبائی صدر کشمیر محمد اشرف میر نے زور دے کر کہا کہ اپنی پارٹی جموں و کشمیر کے بہتر مستقبل کے بارے میں ایک واضح وژن رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا، ’’اپنی پارٹی کے پاس جموں و کشمیر کے لوگوں کو سیاسی اور اقتصادی بااختیار بنانے کےلئے ایک واضح وژن اور روڈ میپ ہے۔ جب ہمیں یہاں حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہوگا، تو ہم اس وژن کو عملانے کا کام شروع کریں گے۔ جموں کشمیر کے لوگوں کی خوشحالی اور نوجوانوں کےلئے ایک باوقار مستقبل کا حصول ہمارے ایجنڈے کا ایک کلیدی حصہ ہے۔‘‘ اس موقع پر پارٹی کے جو سرکردہ لیڈران موجود تھے، اُن میں پارٹی کی خواتین ونگ کی صوبائی صدر دلشادہ شاہین، ضلع صدر گاندربل جاوید احمد میر، بی ڈی سی شبیر احمد، فاروق احمد، بلاک صدر گلزار احمد، حلقہ انچارج گاندربل شیخ جاوید، حلقہ انچارج کنگن نذیر احمد، اشفاق احمد وگے، ارشد حسین، فیاض احمد، محمد امین، شیخ سکینہ، الطاف احمد صوفی، شیخ فرہاد، رفیقہ جی، توصیف احمد شیخ، اور دیگر اشخاص موجود تھے۔
