سرینگر /09دسمبر:
شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے سالہاسال پہلے کہا تھا کہ اقتدار ہماری منزل نہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اور اقتدار آ ج بھی ہماری منزل نہیں ہے، ہم حکومت بنانے کیلئے نہیں لڑ رہے ہیں، ہم اپنے عوام کے حقوق کیلئے لڑ رہے ہیں، ہمیں وہ اقتدار نہیں چاہئے جس کیلئے ہمیں سودا بازی کرنی پڑے، ہمیں وہ کرسی نہیں چاہئے جس کیلئے ہمیں جموںوکشمیر کے عوام کی عزت کا سودا کرنا ہو، 5اگست2019کو ہمارے ساتھ جو دھوکہ ہوا اور ہم سے چھینا گیا ہم اُس کو درست کرنے کیلئے برسرجہد ہیں۔
ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس نائب صدر عمر عبداللہ نے پارٹی سے وابستہ تمام افراد پر زور دیا کہ ’’میں آپ سب ساتھیوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ 11دسمبر کا فیصلہ جو ہوگا سو ہوگا، ہماری لڑائی رُکے گی نہیں، ہم اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہم تب تک لڑتے رہیں گے جب تک ہم اپنی منزل تک پہنچیں گے‘‘۔انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا دور نہیں دیکھاجس میں حکومت کی مشینری اُس سیاسی پارٹیوں کیخلاف استعمال کی جارہی ہے جس کا یہ مؤقف ہے کہ ہم جو حاصل کریں گے ملک کے آئین کے دائرے میں رہ کر کریںگے۔ نیشنل کانفرنس نے ہمیشہ جموں وکشمیر میں امن و جمہوریت اور یہاں کے عوام کے عزت و وقار کیلئے بیش بہا قربانیاں پیش کیں۔ لیکن آج ایک عجیب سی صورتحال جب دیکھو حکومت ہماری آواز بند کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے،جب دیکھو ہماری زبان پر تالہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے، جیسے کہ ہم ملک مخالف باتیں کرتے ہیں اور کسی دوسرے ملک کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔ ہم جب آواز بلند کرتے ہیں تو اپنے عوام کا حق مانگتے ہیں، ہم جب بات کرتے ہیں تو جمہوریت کی بات کرتے ہیں، انتخابات کی بات کرتے ہیں اور لوگوں کو درپیش مسائل و مشکلات کی بات کرتے ہیں، تاکہ حکومت تک عام لوگوں کی آواز پہنچ سکے۔ لیکن یہاں ہمیں خاموش کرنے کیلئے بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں، 11دسمبر کو سپریم کورٹ میں فیصلہ آنے والا ہے اور کل ہی ہمیں آج کا پروگرام منسوخ کرنے کیلئے کہا جارہا تھا۔ 11تاریخ کو ہمارا سنگرامہ میں پروگرام تھا، حکومت کا فرمان آگیا کہ آپ اس دن پروگرام نہیں کرسکتے ہیں۔ فیصلہ11کو اور ہماری زبان 9تاریخ سے ہی بند کرنے کی کوشش۔
’’ابھی تو فیصلہ آیا ہی نہیں،آپ کو کیا پتہ اُس فیصلے میں کیا ہوگا، ممکن ہے آپ کی زبان بند ہوگی، لیکن آپ پہلے سے ہی ہمیں بند کرنے کی بات کرتے ہو۔ اتنا ہی نہیں بلکہ میرے ساتھیوں کو ابھی سے کہا جارہاہے کہ آپ کو 11تاریخ کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔کم از کم پہلے فیصلہ تو آنے دیجئے،اگر فیصلے میں ایسی کوئی بات ہوگی جس سے ماحول بگڑنے کا اندیشہ ہوگا، پھر ہم دیکھیں گے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ آئین کا ساتھ دیا اور ہمارا یہی مؤقف رہا ہے کہ ہماری جو لڑائی رہے گی وہ پُرامن طریقے سے رہے گی۔
زیادہ سے زیادہ ہم کیا کریں گے، اگر اُس فیصلے میں ایسی کوئی بات ہوئی جو ہمیں پسند نہیں ہوگی ہم اس کیخلاف بات کریںگے اور کیا کریں گے۔کیا ہم اتنا بھی حق نہیں رکھتے؟اگر بی جے پی والے کسی بھی فیصلے کیخلاف بول سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں بول سکتے؟ آپ ہمیں لوگوں کی بات کرنے اور لوگوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرنے سے کیوں روک رہے ہیں؟نئی دلی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ دنیا بھر پور کہا گیا کہ جموں و کشمیر کے لوگ5اگست2019کے فیصلوں پر بہت خوش ہیں،لیکن جب ہم لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ 5اگست کے بعد آپ کو کیا ملا، تو جواب آتا ہے کچھ نہیں، اور یہ حال صرف کشمیر کا نہیں ہے بلکہ جموں کی بھی یہی صورتحال ہے اور لداخ کی بھی، کرگل کے لوگوں کا فیصلہ تو پچھلے مہینے آپ کے سامنے آگیا،بی جے پی کو مشکل سے 2سیٹیں ملیں ، باقیوں پر ان کی ضمانت ضبط ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ 5اگست2019کو کہا گیا تھا کہ دفعہ370ہی تعمیر وترقی، روزگار، بجلی اور بندوق کے خاتمے میں رکاوٹ ہے لیکن آج اس دفعہ کو گئے ساڑھے4سال ہوگئے ہیں۔کہاں پر تعمیر و ترقی ہوئی؟ بجلی کا نظام کہاں بہتر ہوا؟ کس نوجوان کو روزگار ملا؟ بندوق کا اثر کہاں ختم ہوا؟ اُلٹا آج اُن جگہوں پر حملے ہورہے ہیںجہاں سالہاسال سے ملی ٹنسی ختم ہوگئی تھی۔ کوکرناگ اور راجوری کے حملے ہمارے سامنے ہیں۔کل ہی سرینگر میں ایک نوجوانوں پولیس افسران کو اپنے رشتہ داروں، دوست و اقارب نے دفن کیا، کرکٹ کھیلتے کھیلتے اُسے گولی مار دی گئی تھی۔ اب تو دفعہ370بھی نہیں پھر یہ سب کیسے ہورہا ہے؟کہیںنہ کہیں آپ کے کہنے اور کرنے میں فرق ہے، آپ جموں وکشمیر کو پوری طرح سمجھ نہیںپاتے ہیں اور اسی لئے آپ ہمیں بند کرنے کی بات کرتے ہیں۔
