سرینگر 30 دسمبر:
جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بفلیاز میں مارے گئے تین عام شہریوں کے اہل خانہ سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں ڈھیرہ کی گلی کے مقام پر سیکورٹی فورسز نے روکا۔ پولیس نے متعدد پی ڈی پی کارکنوں کو حراست میں لیا تاہم محبوبہ مفتی وہی پر بطور احتجاج بیٹھ گئیں۔
ہفتے کے روز پی ڈی پی صدر اپنے کارکنوں کے ہمراہ سرنکوٹ پونچھ پہنچی اور سیدھے بفلیاز کی طرف رخ کیا جہاں پر تین عام شہریوں کا قتل کیا گیا۔ معلوم ہوا ہے کہ گر چہ پولیس نے محبوبہ مفتی کو راستے میں کئی جگہ پر روکا تاہم محبوبہ مفتی نے سات کلومیٹر پہاڑی سفر پیدل ہی طے کیا اور ڈھیرہ کی گلی تک پہنچی جہاںپر مشتبہ ملی ٹینٹوں نے فوجی گاڑیوں پر حملہ کیا تھا۔ نمائندے نے بتایا کہ پولیس کے سینئر آفیسران اور ایس ڈی ایم بھی جائے موقع پر پہنچے اور محبوبہ مفتی کو واپس جانے پر زور دیا تاہم اس نے ایک نہ سنی جس کے بعد پولیس نے متعدد پی ڈی پی کارکنوں اور لیڈروں کو حراست میں لیا۔
محبوبہ مفتی ڈھیری کی گلی پر ہی دھرنے پر بیٹھی اور پولیس آفیسروں سے تاکید کی کہ جب تک کہ وہ انہیں حراستی وارنٹ نہیں دکھاتے وہ یہاں سے نہیں جائے گی۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کو منانے کی خاطر پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے سینئر آفیسران جائے موقع پر پہنچے ۔ ا س سے قبل محبوبہ مفتی نے نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کہاکہ بھاجپا صدررویندر رینا کو جمعے کے روز متاثرین سے ملنے کی اجازت دی گئی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس لیڈران بھی وہاں پر گئے تاہم پی ڈی پی کو وہاں جانے سے روکا گیا۔
انہوں نے کہاکہ کچھ تو ہے جس کی ضلعی انتظامیہ پردہ داری کر رہی ہیں۔ محبوبہ مفتی نے کہاکہ جب تک نہ اسے متاثرین سے ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی وہ ڈھیرہ کی گلی پر ہی خیمہ زن رہے گی۔
