تحریرشاہ تاج خان
ایک مخصوص انداز میں سلام کر کے اپنے ناظرین کو ذائقوں سے متعارف کرانے والے خواجہ معین الدین نے باقاعدہ کھانا پکانے کی کوئی ٹریننگ نہیں لی ہے۔پیشے سے صحافی ہیں مگر جب سے انہوں نے اسکرین پر مرچ مصالحوں کے ساتھ کھانے میں خاص ذائقہ شامل کرنے کی کوشش کی تو قلم کی جگہ چھری،چمچ،کرچھی اور پتیلوں نے سنبھال لی۔ اب تک ایناڈو گروپ میں ایک صحافی کی حیثیت سے کام کرنے والے خواجہ معین الدین نے اپنے بہترین باورچی ہونے کی صلاحیت اور قابلیت کا مظاہرہ سب سے پہلے اپنی بیوی کے سامنے ہی کیا تھا۔ آواز دی وائس سے فون پر ہونے والی گفتگو میں وہ ہنس کر بتاتے ہیں کہ‘‘میں نے سب سے پہلے اپنی بیوی کو بریانی پکا کر کھلائی تھی۔ بریانی کی انہوں نے بہت تعریف کی ۔مجھے حوصلہ ملا اور تب سے میں نے کھانا پکانا شروع کر دیا۔’’یو ٹیوب پر نوابز کچن آفیشیل پر ذائقوں کی مہک بکھیرنے والے خواجہ معین کا تعلق حیدر آباد سے ہے۔
اﷲاگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
منی کونڈہ حیدر آباد کے خواجہ معین اپنی کامیابی کے لیے اﷲ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ‘‘میں نے یہ کام بنا سوچے سمجھے شروع کیا تھا۔میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے لوگوں کی اتنی توجہ اور پیار ملے گا۔میں تو صرف بچوں کو کچھ اچھا کھانا کھلانا چاہتا تھا۔’’ معین صاحب نے نوکری میں رہتے ہوئے ہی یو ٹیوب ویڈیو بنانا شروع کر دیئے تھے۔پانچ چھ ویڈیو کے بعد جب وہ مشہور ہونا شروع ہوئے تب انہیں اپنی نوکری اور نوابز کچن آفیشیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ‘‘مجھے آفس میں بلایا گیا اور کہا گیا کہ آپ کو نوکری کے ساتھ دوسرا کام کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔آپ کو دونوں میں سے ایک کام کو چھوڑنا ہوگا۔اور میں نے نوکری چھوڑ دی۔’’خواجہ معین کی اہلیہ نے بچوں کو کھانا کھلانے کے اُن کے جذبہ اور خواہش کو نہ صرف سراہا بلکہ حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ‘‘بچوں کو کھانا کھلانے سے برکت ہوگی ۔ آپ یہ سلسہ جاری رکھیے۔’’اور پھر معین صاحب نے اپنی ساری توجہ کھانا پکانے اور بچوں کو کھانا کھلانے پر مرکوز کر دی۔معین بتاتے ہیں کہ ‘‘میرے لاشعور میں یہ بات ہمیشہ سے ہی کہیں موجود تھی۔میں جب بھی غریب ،بے سہارا اور یتیم بچوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھتا تھا تو مجھے افسوس ہوتا تھا۔ان بچوں کو جو کھانا ملتا بھی ہے تو وہ اچھا کھانا نہیں ہے۔میں انہیں اچھا اور لذیذ کھانا کھلانا چاہتا تھا۔’’واضح رہے کہ ابتدا کے چھ سات ویڈیو میں معین صاحب نے اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے کھانا پکایا اور بچوں کی دعوت کی تھی۔اُس کے بعد ان کے اس جذبے کو سہارا دینے کئی لوگ سامنے آئے ۔وہ بتاتے ہیں کہ‘‘پہلے تو سات آٹھ ہزار میں کھانا تیار ہو جایا کرتا تھا۔لیکن اب پچیس ہزار روپے تک ایک بار کے کھانے کی تیاری پر خرچ ہوتے ہیں ۔’’نوابز کچن آفیشیل کے ہر ایپیسوڈ کو اب کوئی نا کوئی اسپانسر کرتا ہے۔ بچوں کے لیے لذیذ دعوت کے لیے معین صاحب اپنی سات لوگوں کی ٹیم کے ساتھ کسی خاص جگہ پر کھلے میدان میں کھانا تیار کرتے ہیں۔پھر بچوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا پلیٹ میں نکال کر پیش بھی کرتے ہیں۔بچوں کے چہرے پر آئی خوشی کا عکس خواجہ معین کے چہرے پر بھی دکھائی دیتا ہے۔
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
یتیم بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے معین صاحب نے حیدر آباد کے کئی یتیم خانوں کا انتخاب کیا ہے جہاں وہ وقت وقت پر جاکر بچوں کے لیے کھانا تیار کرتے اور انہیں اپنے ہاتھوں سے کھلاتے بھی ہیں۔ستمبر 2017 میں جب انہوں نے کھانا نہ صرف پکایا بلکہ بچوں کوکھلایا تو یہ ایک نیا آئیڈیا تھا۔کچھ لوگ ان ویڈیو سے کھانا پکانا سیکھ رہے تھے تو کچھ یتیم بچوں کو لذیذ کھانا حاصل ہو رہا تھا۔یہی وجہ ہے کہ کچھ ہی دنوں میں تعریف کے فون کے ساتھ لوگوں کے اِس کارِ خیر میں تعاون کی پیش کش بھی شروع ہوگئی۔معین صاحب بچپن کے ایک واقعہ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘میں تب بہت چھوٹا تھا۔ریل میں سفر کر رہا تھا۔کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے میں نے پایا کہ جو بچی ہوئی اڈلی لوگ ریل سے باہر پھینک دیتے ہیں وہ پٹری کے آس پاس بیٹھے ہوئے بچے انہیں اُٹھا کر کھا رہے تھے مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا تھا۔میں جب بھی یہ بات یاد کرتا تھا تو یہی سوچتا تھا کہ جب بھی مجھے موقع ملے گا میں بچوں کو اچھا کھانا کھلاؤں گا۔اﷲ نے میری اس خواہش کو پورا کر دیا ہے۔’’ وہ مزید کہتے ہیں کہ جب تک میں کر سکتا ہوں تب تک یہ کام کرتا رہوں گا۔پہلے صرف یتیم خانہ لیکن کووڈ 19 کے دوران وہ جھگی بستیوں میں بھی جانے لگے ۔ اب اگردو بار یتیم خانہ جاکر کھانا کھلاتے ہیں تو تین بار جھگی بستیوں میں غریبوں کے لیے کھانا تیار کرتے ہیں۔وہ تب تک پلیٹ میں کھانا دیتے رہتے ہیں جب تک کھانے والا یہ نہ کہہ دے کہ‘‘بس بھائی’’۔
بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا
پچھلے دنوں خواجہ معین کی ٹیم وشاکھا پٹنم کے کچھ قبائلی علاقوں میں لذیذ ذائقوں کی مہک لے کر پہنچی تھی۔حیدر آباد اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں کئی سال سے کام کرتے رہنے کے بعد اب اُن کا دائرہ بڑھنے لگا ہے۔معین صاحب کا کہنا تھا کہ‘‘جب ہم ان قبائلی علاقوں کے گاؤں میں پہنچے تو وہاں لوگ باسمتی چاول تک سے واقف نہیں تھے۔ہم نے کئی دن وہاں رہ کر تین چار گاؤں کے لوگوں کو کھانا کھلایا۔میرے پاس اپنے اِس تجربے کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔’’کھلے میدان میں بڑے بڑے برتنوں اور دیگر سامانوں کے ساتھ معین صاحب کی ٹیم اب شہر حیدرآباد سے باہر بھی نوابی کھانوں کی مہک اور لذت پہنچا نے میں منہمک ہے۔حیدرآباد کے نوابوں کے دسترخوان پر موتیوں کی طرح سجنے والے ذائقوں کو غریبوں تک لے جانے والے معین صاحب نے اپنے چینل کا نام بھی اسی مناسبت سے نوابز کچن آفیشیل رکھا ہے ۔اب توخواجہ معین کھانا پکانے ،کھلانے کے ساتھ ساتھ بچوں سے دس منٹ بات بھی کرتے ہیں اور انہیں پڑھنے لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ‘‘یہ بچے پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں اور اپنی مدد تو کریں ہی ساتھ ہی دوسروں کے بھی کام آئیں۔’’
میرا ایک خواب ہے
خواجہ معین ایک ‘اولڈ ایج ہوم’ بنانا چاہتے ہیں۔بے حد جذباتی ہوکر معین صاحب نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ‘‘جب میں غریب بستیوں میں جاتا ہوں تو وہاں غریب بوڑھوں کی حالت بہت خراب پاتا ہوں۔انہیں دیکھ بھال اور سہارے کی ضرورت ہے۔میں اُن کے لیے ایک ایسا گھر بنانا چاہتا ہوں جہاں یہ بزرگ حضرات اپنی زندگی کے اِس مشکل دور کو آرام سے گزار سکیں۔ میں اِس ضمن میں لگاتار کوشش کر رہا ہوں۔’’بچوں کو کھانا کھلانے کی خواہش تھی تو پوری کی۔اب بزرگوں کے لیے گھر بنانے کے لیے بھی خواجہ معین الدین کی جدو جہد شروع ہو چکی ہے۔
سب کا مالک ایک ہے
خواجہ معین الدین کے ذریعے تیار کھانوں سے لطف اندوز ہونے والوں میں یتیم اور جھگی بستیوں میں رہنے والے غریب افراد شامل ہیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ‘‘میں چاہتا ہوں کہ سب کو کھانا کھلاؤں اور خود بھی کھاؤں۔’’واضح رہے کہ باقاعدہ ٹریننگ اورباورچی نہ ہونے کے باوجود ان کے ہاتھ سے تیار کھانا ہمیشہ بے حد لذیذ ہوتا ہے۔جس کے ذائقے کی جھلک بچوں کے چہرے پر کھلنے والی خوشی خود بیان کرتی ہے۔گوشت، چکن،مغلئی ،تندوری کھانوں کے ساتھ معین صاحب کے نوابز کچن آفیشیل میں کئی بار سبزیاں بھی اپنی موجودگی درج کراتی ہیں۔آج خواجہ معین صرف کھانا ہی نہیں کھلا رہے ہیں بلکہ وہ لوگوں کے درمیان آپسی پیار،بھائی چارہ کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ وہ خوش ہوکر بتاتے ہیں کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں تو لوگ انہیں بہت پیار اور عزت دیتے ہیں۔وہ مانتے ہیں کہ ایک ساتھ مل بیٹھ کر کھانے اور کھلانے سے محبت بڑھتی ہے۔اُن کا قافلہ اب دور دور کا دورہ کرنے اور پیار ،محبت اور خلوص کے ساتھ ذائقوں کی مہک پھیلانے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔امید ہے کہ خواجہ معین کا لوگوں کو ایک دسترخوان پر لے آنے کا یہ سلسلہ اور سفر یونہی جاری رہے گا۔
