سرینگر،26ستمبر:
حکومتی بے حسی کے باعث میوہ صنعت سے جڑے افراد کے مشکلات میںکوئی بھی کمی نہیں آرہی ہے ، سیبوں کو باہری منڈیوں میں لے جانے کیلئے ٹرانسپورٹ ایک بہت سنگین مسئلہ بن گیا ہے اور میوہ بردار ٹرکوں کی آسان نقل و حرکت کیلئے حکومت ابھی تک کوئی بھی ٹھوس اقدام اٹھانے میں ناکام رہی ہے اور تمام احکامات اور اعلانات کاغذی گھوڑے ہی ثابت ہورہے ہیں۔
ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری حاجی علی محمد ساگر نے آج پارٹی ہیڈکوارٹر پر ایک پریس کانفرنس کے دوران ذرائع ابلاغ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کیا۔ اس موقعے پر پارٹی کے رکن پارلیمان ایڈوکیٹ محمد اکبر لون، ریاستی ترجمان عمران نبی ڈار اور پارٹی لیڈر ارشاد رسول کا بھی موجو تھے۔ ساگر نے کہا کہ جموں وکشمیر حکومت آئے روز ہاٹی کلچر کی ترقی کے دعوے کررہی ہے لیکن دوسری جانب اس طبقہ کے لوگوں کو اندھیروں میں دھکیلنے میں کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کشمیرکی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ اس صنعت کے ساتھ وابستہ ہے ۔
مالکانِ باغات ہوں، ٹرانسپورٹر ہوں، پیٹی بنانے والے ہوں، میوہ باغات میں مزدوری کرنے والے ہوں یا پھر میوہ صنعت سے جڑے دیگر افراد ہوں، حکومت ان کے پیٹ پر لات مارنے کی مرتکب ہورہی ہے۔ ساگر نے کہا کہ گذشتہ روز ہی میں پارٹی سرگرمیوں کے سلسلے میں جنوبی کشمیر گیا تھا اور میں نے بذات خود لیتہ پورہ سے لیکر قاضی گنڈ تک ٹرکوں کی قطاریں دیکھیں اور اُس وقت شاہراہ میں کسی قسم کی خرابی نہیں تھی اور جو رپورٹیں ہمیں موصول ہورہی ہیں اُن کے مطابق یہ سلسلہ گذشتہ دو ہفتوں سے لگاتار جارہاہے اور صورتحال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ آج میوہ صنعت سے جڑے افراد نے دو دن کی ہڑتال کال دی ہے۔
ساگر نے کہاکہ کشمیر میں نہ تو کولڈ سٹوریج کی وسیع سہولیات دستیاب ہیں اور نہ ہی کولڈ چین ٹرانسپورٹیشن میسر ہے اور عام میوہ بردار ٹرکوں کی آسان نقل و حمل نہ ہونے کی صورت میں یہاں کی زیادہ تر پیداوار باہری منڈیوں تک پہنچنے پہنچنے خراب ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ انٹروینشن اسکیم کا مقصد گرے ہوئے پھلوں کے مسئلے کو حل کرنا تھا اور یہ سکیم اچھا کام کر رہی تھی۔بدقسمتی سے اس سکیم کی جگہ NABARD نے لے لی ہے جو گرے ہوئے پھل لینے سے انکار کر رہا ہے۔اس کے بجائے وہ درختوں سے براہ راست سیب اُنہی نرخوں پر چاہتے ہیں جو گرے ہوئے پھلوں پر لاگو ہوتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ پیکیجنگ اور کیڑے مار ادویات پر 18فیصد جی ایس ٹی کے علاوہ پلائی وینر بنانے والی فیکٹریوں نے سیب کے ڈبوں کی قیمت 70 سے 130 روپے تک بڑھا دی ہے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے نتیجے میں کاشتکاروں کے مجموعی منافع میں کمی واقع ہوئی ہے۔این سی جنرل سکریٹری نے حکومت پر زور دیا کہ وہ میوہ صنعت سے جڑی ایک وسیع آبادی کو راحت پہنچنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ میوہ بردار ٹرکوں کی آسان نقل و حرکت سے باغبانی شعبے سے وابستہ لوگوں کیلئے سب سے بڑی راحت ہوگی اور حکومت کو ہر صورت میں پھلوں کے بلا خلل ٹرانسپوٹیشن کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ انہوںنے کہا کہ باہری ملکوں سے سیبوں کی درآمد سے کشمیری سیبوں کے قیمتوں کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے اور غیر قانونی درآمد نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
اگر مرکزی حکومت اناج کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کیلئے اناج کی درآمد پر پابندی لگا سکتی ہے تو وہ سیبوں کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کیلئے سیبوں کی درآمد پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ ا ولین فرصت میں سیبوں کی غیر قانونی درآمد پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ساگر نے کہا کہ اگر حکومت نے وقت رہتے جموںوکشمیر کی میوہ صنعت کو بچانے کیلئے ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تو یہ صنعت جلد ہی دم توڑ بیٹھے گی۔
