تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
رسول کریم ﷺ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی لائی ۔ انہوں نے ایک ایسا سماج ترتیب دیا جو اس سے پہلے والے سماج سے یکسر مختلف تھا ۔ جو سماج انہوں نے تعمیر کیا اس کا ہر فرد چاہئے مرد تھا یا عورت اپنے اندر ایک مکمل سیرت کا مالک تھا ۔ اس سماج کا جس زاویے سے بھی تجزیہ کیا جاتا ہے تجزیہ کرنے والا حیران ہوکر رہ جاتا ہے کہ یہ لوگ کس نوعیت کے تھے ۔ کس مٹی سے بنے تھے اور کس یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے ۔ ایک بار اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے تو راتوں رات کیا لمحوں میں ان کی زندگی یکسر بدل گئی ۔ کل کے چور اور لٹیرے آج کے سب سے امانت دار لوگ تھے ۔ کل کے رہزن آج کے ایمان دار تھے ۔ کل کے لفنگے آج کے سب سے باوقار بندے تھے ۔ کل کے ظالم آج کے سب سے بہترین منصف تھے ۔ کل کے بڑے بڑے سرمایہ دار آج کے بہترین حاجت روا تھے ۔ کل جو لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے آج وہ باہم بغلگیر ہوکر ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں ۔ کل جنگ و جدل کے شیدائی آج امن و امان کے بہترین مبلغ نظر آتے ہیں ۔ یہ تبدیلی کسی ادارے کی کوششوں کا نتیجہ نہ تھا ۔ کسی فوج کی طاقت کا مظاہرہ نہ تھا ۔ کسی گروہ کی سرگرمیوں کا سرمایہ نہ تھا ۔ کسی آرگنائزیشن کی محنت کا پھل اور ثمر نہ تھا ۔ بلکہ ایک تنہاشخص کی باتوں اور عمل کا نتیجہ تھا ۔ اس طرح سے آپؐ نے ایک ایسی سوسائٹی وجود میں لائی جو ہر لحاظ سے قابل تعریف اور قابل تعریف تھی ۔ ایک ایسی امت کو وجود بخشا جس کی ہر عمل اور جس کی ہر ادا پوری نوع انسانیت کے لئے خیر خواہی اور بہتری کا پیغام تھا ۔ جس نے مظلوموں کو سہارا دیا ۔ یتیموں کو پالنے کا ٹھیکہ لیا ۔ بیوائوں کی کفالت کا پروگرام پیش کیا ۔ بوڑھے اور بزرگوں کی عزت کرنے کا درس دیا ۔ بے سہارا اور بے آسرا لوگوں کو جینے کا حوصلہ دیا ۔ اس طرح سے شرق و غرب اور اترودکن جو بھی کم تر اور کمزور تھے انہوں نے اس ملت کو اپنا نجات دہندہ سمجھا ۔ اس کا استقبال کیا اور اس کے پروگرام کے ساتھ تعاون کیا ۔ یہاں تک کہ اس کا پیغام پوری دنیا میں گونجنے لگا ۔ ایک ایسی امت وجود میں آئی جو پوری دنیا میں ممتاز اور اعلیٰ قدروں کی پاسدار کہلائی گئی ۔ لیکن یہ زمانہ زیادہ دیر نہ چلا ۔ رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ایک صدی تک قائم نہ رہ سکی ۔ واقعی اس کے کچھ خد وخال کافی عرصے تک قائم رہے ۔ لیکن بہت جلد زوال کا آغاز ہوا اور اس کے آثار آہستہ آہستہ ختم ہونے لگے ۔ یہاں تک کہ ایک ایسی جماعت وجود میں آگئی جو اصل امت مسلمہ کے ساتھ کلمہ اور چند ظاہری عبادات کے علاوہ کوئی مماثلت نہیں رکھتی ۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ ان کے چلے جانے کے ساتھ ہی امت مسلمہ زوال کا شکار ہوگی ۔ یہاں تک کہ اس کے نظام کو بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں نہیں بلکہ اندر موجود عناصر کی سازشوں سے زوال شکار ہونا پڑے گا ۔ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی موجود گی میں سونے کے پہاڑ اور چاندی کے انبار کو جوتے کی نوک پر رکھتے تھے وہی لوگ چند روزہ زندگی کے لئے اقتدار پر غاصب بن کر قبضہ کرلیں گے ۔ اس کی خاطر پورے خاندان رسول ؐ کو قتل کریں گے اور ان کے جسد مبارک کو روند ڈالیں گے ۔ اس صورتحال نے آگے چل کر پورا نظام زندگی ہی تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ۔ یہاں تک کہ امت مسلمہ کے افراد دیانت داری کو چھوڑ گئے ۔ امانت داری کو ترک کیا ۔ سچائی کی صفت کو اپنے سے الگ کردیا ۔ نیکی کیجگہ بدینے لے لی ۔ حیا کو بے حیائی نے پامال کیا ۔ ساری پاک دامنی دنوں میں ختم ہوگئی ۔ چوری اور ڈاکہ زنی نے پھر اپنی جگہ بنالی ۔ دھوکہ دہی پھر واپس آگئی ۔ وہ تمام صفات جو رسول ؐ نے اپنے ماننے والوں کے لئے ضروری قرار دئے تھے ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے ۔ امت پوری طرح سے کھوکھلا ہوکررہ گئی ۔ غبارے سے ہوا نکل گئی اورامت مسلمہ بے وزن ہوکر رہ گئی ۔ دین کے نام پر دکانداری کی جانے لگی ۔ دینداری کے نام پر دنیا داری عروج کو پہنچ گئی ۔ مالداری مسلمانوں کی زینت بن گئی ۔ ساری مسلم سوسائٹی اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھی ۔ اس دوران دوسری قوموں نے وہ سب اوصاف اپنے طور اپنائے جو ایک زمانے میں مسلمانوں کے اوصاف حمیدہ مانے جاتے تھے ۔ اس طرح سے غیر مسلم نیکو کار بن گئے اور مسلمان بدکاری کی علامت کے طور پہچانے جانے لگے ۔ سب یہ دیکھ کر حیران ہورہے ہیں کہ عظیم پیغمبر کی امت زوال کی شکار ہورہی ہے ۔ پھر اس زوال نے ان کی معاشرت ، معیشت ، محبت اور زندگی کے ہر شعبے کے اپنے شکنجے میں لے لیا ۔ بدحالی ہر طرف سے امڈ کر آئی ۔ رشوت ستانی عروج کو پہنچی ۔ یہاں تک کہ مار دھاڑ نے اپنی جگہ بنالی ۔ عصبیت اور فساد ایک دوسرے کے قریب آگئے ۔ امت ٹکڑے ٹکڑے ہوکر رہ گئی ۔ جس امت کے پیغمبر نے عرب وعجم کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا تھا وہ امت کئی خانوں میں بٹ گئی ۔ دین کے نام پر منافرت پھیلائی گئی ۔ اور امت کا سارا بھرم ختم ہوگیا ۔ ایسے نبی کی ایسی ویسی امت پر سب عش عش کرنے لگے ۔
