
منشیات فروشی کے دھندھانے ’جن‘ نے علاقہ گول کو بری طرح سے اپنی لپیٹ میں لیا ہے ۔ اچھے اور عزت دار گھرانوں کے شاہین بڑ ی شدت کیاتھ خاکبازی پر آمادہ ہوتے نظر آرہے ہیں اور یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہونے کیساتھ ساتھ نسل نو کیلئے خوفناک بھی ہے ،چونکہ اب تو باڑ ہی فصل کو کھانے لگ گئی ہے ۔آئے روز نوجوانوں کا نشہ آور اشیاءسمیت پولیس کی گرفت میں آجانا اِس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں سماج میں یہ زہر بڑی تیزی سے پنپ رہا ہے اور سماج کے ذمہ داران اِس سے مکمل طور یا بے خبر ہیں یا پھر مجرمانہ خاموشی اپنا کر دوسر ں کے جلتے ہوئے گھر وںسے اٹھتے ہوئے شعلوں کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ وقت منشیات فروشی کی آگ میں جلتے ہوئے گھرانوں سے اٹھتے ہوئے شعلوں کا نظارہ کرنے کا ہر گز نہیں ہے بلکہ اِس پیچیدہ مسئلے پر سنجیدگی کیساتھ سوچنے کی ضرورت ہے۔نوجوان نسل کیلئے جان لیوا ’’منشیات فروشی ‘‘کے گورکھ دھندےسے علاقہ کو پاک کرنے کیلئے ایک سنجیدہ منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے،پولیس کی یہ کارروائیاں باعث اطمنان ہر گز نہیں ہے بلکہ توجہ طلب اور لمحہ فکریہ ہیں،بالخصوص سماج کے اُن ذمہ دارن کیلئے آئینہ ہے کہ جوسوشل میڈیا پر سماج سدھاری کا چورن آئے روز بیچتے نظر آرہے ہیں۔علاقہ گول میں منشیات فروشی کے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک کے کئی اہم پہلو ہیں ، ایک طرف سے منشیات فروشی کی پھیلتی جا رہی وبا میں آئے روز خوفناک اضافہ اور دوسری جانب سماج سدھارتنظیموں کی نشہ خوری میں کمی کے دعوے اور تیسراپہلو یہ کہ نشہ کے خلاف کام کرنے والے سماجی ذمہ داران کی اپنی ہی دُنیا بربادی کے دہانے پر لگی ہوئی ہے۔ذرا غور کیجئے کہ اِن حالات سے باہر آنے کیلئے ابتداء کیا ہوگی؟کہاں سے کرنی ہوگی ؟اور کیسے کرنی ہوگی؟یہ سب سوالات ہیں اور اِس پر سوچ وچار کرنے کیلئے سماج کے باشعور افراد کو مل بیٹھ کر مفصل گفتگو کرنے کی اشد ضرورت ہے۔لہٰذاسماج کے ہر اُس شخص کی اخلاقی و انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علاقہ کو منشیات سے پاک کرنے کیلئے ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس پھیلتے ہوئے زہر کو روکنے کی کوشش میں اپنا سو فیصدی تعاون فراہم کرے، کیونکہ یہ آگ لگی ہے تو جلائی گی ضرور۔۔۔! اور ہر اُس گھر کو جلاکر راکھ کر دے گی جس گھر کے مکین آگ کے ان بھڑکتے ہوئے شعلوں سے باخبر ہونے کے باجود بھی یہ سوچ کر غفلت شعاری میں مبتلا رہے کہ آگ تو دور کہیں کسی اور کے گھر میں لگی ہے لہٰذا مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
یہاں ایک اہم بات ہے کی جانب توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جن گھرانوں کے چشم و چراغ اِس بری صعبت میں قید ہوئے ہیں اُن کےوالدین کا رول زیادہ اہمیت کا حامل ہے،علاقہ کو منشیات سے پاک کرنے کیلئے جوکردار وہ والدین نبھا کر دیگران کے بچوں کو محفوظ مستقبل دینے کیلئے ادا کر سکتے ہوئے دوسرا نہیں کر سکتا۔ متاثرہ والدین کی نصیحت میں جو اثر ہوگاوہ ایک عام انسان کی نصیحت میں نہیں ہو سکتا ہے۔
یاد رہے اگر منشیات فروشی کے بڑھتے ہوئے اِس نیٹ ورک کا پردہ فاش کرنے کیلئے جنگ میں سپاہی کا رول نبھانا ہے تو ایمانداری شرط ہے،محض دکھاوا اور نمود و نمائش سے ایک تو وقت کا زیاں ہوگا اور دوسرا یہ کہ ہمارا یہ مسخرہ پن آنے والے وقت میں سماج کیلئے ایک معمول بن جائےگا اور آئندہ جب بھی کوئی نوجوان نشہ خوری یا نشہ فروشی کرتے ہوئے پکڑا جائیگا تو کوئی فکر لاحق نہیں ہوگی، کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوگی،کوئی برائی ’برائی ‘نظر نہیں آئے گی،اچھے برے کی تمیز مٹ جائے گی، حق و ناحق کی پہچان کہیں نہیں ہوگی اور نسل در نسل تباہی و بربادی کی نذر ہو جائے گی اور جنت نُما علاقہ جہنم بن جائے گا۔میری تمام ذمہ داران سے گزارش ہے کہ ایمانداری کیساتھ عملی طور منشیات فروشی کے اِس ’جن‘ سے نوجوان نسل کو محفوظ کرنے کیلئے سنجیدہ ہو جائیں، وقت بہت قلیل بچا ہے ،آج آپ کی عقل و شعور کا امتحان ہے۔۔۔!!
