سری نگر، 4 جون :
وادی کشمیر میں گذشتہ چند مہینوں سے شہری ہلاکتوں کا ایک سلسلہ جاری ہے جو سیکورٹی فورسز کے لئے ایک بڑا اور نیا چلینج بن کر سامنے آگیا ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق سال رواں کے دوران اب تک 12 ٹارگیٹ ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں اقلیتی فرقے کے لوگوں، غیر مقامی مزدوروں اور پنچوں سرپنچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
علاوہ ازیں ٹارگیٹ حملوں میں قریب ایک درجن غیر مقامی مزدور زخمی بھی ہوگئے ہیں۔وادی کے مختلف علاقوں میں سال رواں کے ماہ مئی سے اب تک چھ ٹارگیٹ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ٹارگیٹ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ اس وقت ہو رہا ہے جب سیکورٹی فورسز نے وادی میں جنگجوؤں اور ان کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشنز شروع کر دئے ہیں۔
سال رواں کے دوران اب تک وادی میں زائد از 90 جنگجوؤں جن میں کئی اعلیٰ کمانڈر بھی شامل تھے، کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کی تنسیخ کے ساتھ ہی وادی میں ٹارگیٹ ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ بعض مبصرین بھی ان حملوں کو دفعہ370 کے خاتمے کے ساتھ ہی جوڑتے ہیں۔
دفعہ 370 کی تنسیخ کے تین ماہ بعد یعنی 29 اکتوبر 2019 کو وادی میں ٹارگیٹ ہلاکتوں کا پہلا واقعہ پیش آیا جب جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے پانچ مسلمان مزدوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔
بعد ازاں زائد از ایک برس یعنی سال 2021 تک یہ سلسلہ رک گیا۔
جنوری2021 میں سری نگر میں ستپال نشچل نامی ایک سونار کو اپنے ہی دکان میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا اور اس واقعے کے دو ماہ بعد سری نگر میں ہی کرشنا ڈھابہ کے مالک کے بیٹے آکاش مہرا کو مارا گیا۔
اکتوبر 2021 میں ٹارگیٹ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ تیز ہوگیا جس نے سیکورٹی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔
سری نگر کے سول لائنز علاقے میں مشہور میڈیکل اسٹور ’بندرو میڈیکیٹ‘ کے مالک مکھن لال بندرو کو مارا گیا اور اسی شام بہار سے تعلق رکھنے والے ایک پانی پوری بیچنے کو ہلاک کر دیا گیا۔
اگلی ہی صبح سری نگر میں ہی گورنمنٹ ہائیر سکینڈری اسکول سنگم کی پرنسپل سپندر کور اور ان کے دوسرے ساتھی دیپک چند کو اسکول احاطے میں ہی ہلاک کر دیا گیا۔
اسی ماہ کے دوران مزید چار غیر مقامی مزدوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔سال رواں کے دوران پنچوں اور سرپنچوں کو بھی نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اور ماہ مارچ میں تین پنچ ممبروں کو ہلاک کر دیا گیا۔
سال رواں کے ماہ اپریل میں اقلیتی فرقے کے لوگوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔
ماہ اپریل کی 13 تاریخ کو شمالی کشمیر میں ستیش کمار نامی ایک راجپوت کو ہلاک کر دیا گیا اور اس واقعہ کے قریب ایک ماہ بعد بڈگام کے چاڈورہ علاقے میں راہل بٹ نامی ایک پنڈت ملازم کو اپنے ہی دفتر میں مارا گیا۔
اس کے واقعے کے چار روز بعد یعنی 15 مئی کو بارہمولہ میں ایک شراب دکان پر کئے گئے گرینیڈ حملے میں دکان کا ایک ملازم رنجیت سنگھ از جان ہوگیا جبکہ اسی دن شوپیاں کے ترک وانہ گام میں شعیب گنائی نامی ایک شہری کی کراس فائرنگ کے دوران موت واقع ہوگئی۔
مئی کی 26 تاریخ کو چاڈورہ کے حشرو علاقے میں امبرین بٹ نامی ایک ٹی وی فنکارہ کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ اس ماہ کی آخری تاریخ یعنی 31 مئی کو کولگام کے گوپال پورہ میں رجنی بالا نامی ایک ہندو استانی کو ہلاک کر دیا گیا۔
ماہ جون کی دوسری تاریخ کو کولگام کے آورہ علاقے میں راجستھان سے تعلق رکھنے والےعلاقائی دیہاتی بینک کے منیجر وجے کمار کو مارا گیا جبکہ دو جون کی ہی شام کو چاڈورہ میں بہار سے تعلق رکھنے والے دلخوش نامی ایک مزدور کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ اس واقعے میں اس کا دوسرا ساتھی زخمی ہوگیا۔
ان واقعات کے تناظر میں جہاں پنڈت برادری اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں نے زبردست احتجاج درج کئے وہیں دوسری طرف کئی پنڈت گھرانوں نے جموں نقل مکانی کی۔
سیکورٹی ایجنسیوں کا دعویٰ ہے کہ ٹارگیٹ ہلاکتوں کا مقصد یہاں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔(یو این آئی)
