سرینگر،23جون:
اپنی پارٹی نے جموں وکشمیر یوٹی انتظامیہ سے کہا ہے کہ سرکاری اراضی جس کو چند نجی تعلیمی اداروں کے لئے استعمال کیاجارہا ہے، کو بازیاب کرنے کی بجائے حکومت اراضی قابضین کے ساتھ تصفیہ کرے۔قابل ِ ذکر ہے کہ یوٹی حکومت نے حال ہی میں تعلیمی قانون2002قواعد میں ترمیم کی ہے جس کے مطابق جموں وکشمیر میں نجی تعلیمی اداروں کے لئے سرکاری اراضی استعمال نہیں کی جاسکتی۔ اِن ترمیمی قواعد کے مطابق حکومت نے محکمہ مال کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ایسے اسکولوں کی نشاندہی کی جائے جوکہ سرکاری اراضی پر تعمیر ہیں ۔ حکومت کی اِن ہدایات کی وجہ سے اسٹیک ہولڈرز سخت پریشان حال ہیں۔
اس حوالے سے جاری ایک بیان میں اپنی پارٹی سنیئر نائب صدر غلام حسن میر نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ دہائیوں قبل اِن اسکولوں کا قیام عمل میں لایاگیا ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ اراضی بازیاب نہ کرئے جس سے متعدد اسکول مستقل طور بند ہونے پر مجبور ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا” ہمیں اِس حقیقت کو دیکھنا چاہئے کہ یہ اسکول کئی دہائیوں سے چل رہے ہیں جن میں ایک لاکھ سے زائد طلبا کی تعداد ہے، اِن اسکولوں پر سینکڑوں افراد، تدریسی وغیر تدریسی عملہ کی روزی روٹی جُڑی ہے۔ اگر حکومت اِن اسکولوں سے زمین چھیننے کی کوشش کرے گی تو متعلقین کو بہت متاثر ہونا پڑے گا“۔
انہوں نے حکومت پرزور دیاکہ اراضی مالکان اور اِن اسکولوں کی انتظامیہ کے ساتھ اراضی متعلق سیٹلمنٹ کی جائے۔ غلام حسن میر نے کہاکہ ”میڈیا اطلاعات کے مطابق سات دہائیوں کے دوران سرکاری اراضی پر150سے زائد اسکول قائم کئے گئے ہیں، اگر یہ اراضی واپس لی جاتی ہے تو بہت سارے ادارے مستقل طور بند ہوجائیں گے اور ایسے میں طلبا اور اِن اسکولوں سے جن کی روزی روٹی چل رہی ہے، بُری طرح متاثر ہوں گے، لہٰذا میری لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے گذارش ہے کہ وہ ذاتی طور اِس مسئلہ کو دیکھیں اور اِن اسکولوں کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی حل نکالاجائے“۔ انہوں نے مزید کہاکہ حکومت کو چاہئے کہ سرکاری اراضی پر قائم سبھی اسکولوں کی نشاندہی کرے اور مالکان واسکول انتظامیہ کے ساتھ اراضی کی سیٹلمنٹ کریں۔
