سرینگر/06اکتوبر:
صارفین کو موسم سرماءمیں بھی 24گھنٹے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلئے سرکاری سطح پر کوششیں جارہی ہیں ۔ اس ضمن میں حکام نے متعلقہ محکمہ پر زور دیا ہے کہ وہ موسم سرماءمیں بلا خلل بجلی کی فراہمی کویقینی بنائیں ۔ ادھر حکام نے صارفین پر زور دیا ہے کہ وہ بجلی فیس کی ادائیگی کو ترجیح دیں تاکہ بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ کیوں کہ 1600 میگاواٹ ہے کی طلب کو پورا کرنے کےلئے سالانہ 2ہزار کروڑ روپے صرف کرنے پڑتے ہیں۔ اس ضمن میں چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتا نے کہا ہے کہ اگر صارفین وقت پر بجلی کی بلیوں کی ادائیگی کریں گے محکمہ صارفین کو چوبیس گھنٹے بجلی کی فراہمی کےلئے وعدہ بند ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ کہ یوٹی میںبجلی کے شعبے میں خاطر خواہ تبدیلی لانے کے علاوہ اگلے چند سالوں میں یہاں کے صارفین کو 24×7 بجلی کی فراہمی فراہم کرنے کے لیے مرحلہ اول کے تحت 115000 سمارٹ میٹر لگائے گئے ہیں اور فیز II میں جولائی 2023 تک مزید 600000 ایسے میٹر لگائے جائیں گے۔
اطلاعات کے مطابق یوٹی میںبجلی کے شعبے میں خاطر خواہ تبدیلی لانے کے علاوہ اگلے چند سالوں میں یہاں کے صارفین کو 24×7 بجلی کی فراہمی فراہم کرنے کے لیے مرحلہ اول کے تحت 115000 سمارٹ میٹر لگائے گئے ہیں اور فیز II میں جولائی 2023 تک مزید 600000 ایسے میٹر لگائے جائیں گے۔چیف سیکریٹری نے کہا ہے کہ اگر صارفین بجلی بلوں کی ادائیگی کو سنجیدگی سے لیں گے تو انہیں چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی جائے گی۔ ادھر جموں وکشمیر میں بجلی بحران کوحیران کن قرار دیتے ہوئے اقتصادی ومعاشی ماہرین کاکہناہے کہ بجلی کی پیداوار میںاضافہ آمدن کااہم ترین ذریعہ بن سکتاہے ،اورساتھ ہی بجلی خریدنے پر سالانہ ہونے والے2000کروڑروپے کی رقم کومختلف ترقیاتی اورتعمیراتی کاموں پرصرف کیا جاسکتاہے ۔
جموں و کشمیر میں20ہزار میگاواٹ سے زیادہ پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔سابقہ ریاست میں بجلی کی طلب ورسدکوپوراکرنے کےلئے کم از کم ضرورت 1600 میگاواٹ ہے،جبکہ ابھی بھی جموں وکشمیر اس وقت 1500 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہے جس میں سے صرف450 میگاواٹ سابقہ ریاست پیدا کرتی ہے اور بقیہ مرکزی سرکارکی مالی معاونت سے پیداکی جاتی ۔ اقتصادی ومعاشی ماہرین کاکہناہے کہ جموں وکشمیرکی حکومت کو وافر وسائل ہونے کے باوجود، مقامی ضرورت ،طلب اورسدکوپوراکرنے کیلئے باہر سے بجلی خریدنے کےلئے سالانہ2000 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کرنے پڑتے ہیں جو خطیررقم کہ جموںوکشمیر کی مجموعی ترقی کےلئے استعمال کی جاسکتی تھی یاکی جاسکتی ہے۔
دریں اثناءچیف سیکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتا نے کہا ہے کہ اگر صارفین وقت پر بجلی کی بلیوں کی ادائیگی کریں گے محکمہ صارفین کو چوبیس گھنٹے بجلی کی فراہمی کےلئے وعدہ بند ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ کہ یوٹی میںبجلی کے شعبے میں خاطر خواہ تبدیلی لانے کے علاوہ اگلے چند سالوں میں یہاں کے صارفین کو 24×7 بجلی کی فراہمی فراہم کرنے کے لیے مرحلہ اول کے تحت 115000 سمارٹ میٹر لگائے گئے ہیں اور فیز II میں جولائی 2023 تک مزید 600000 ایسے میٹر لگائے جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق چیف سکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتا نے پاور ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ (پی ڈی ڈی) کی میٹنگ میں جموں و کشمیر میں تقسیم کے شعبے میں کی جانے والی ممکنہ اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا۔میٹنگ میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری خزانہ، پرنسپل سکریٹری، پی ڈی ڈی؛ ڈی جی بجٹ؛ محکمہ کے چیف انجینئرز اور محکمہ کے کئی دیگر افسران نے شرکت کی۔چیف سکریٹری نے افسران پر زور دیا کہ وہ حقیقی ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن (اے ٹی اینڈ ڈی) کے نقصانات کو کم کرنے پر کام کریں اور انہیں ہر سال کم از کم 10 فیصد تک کم کریں تاکہ انہیں جائز حدود میں لایا جا سکے۔ انہوں نے ان پر زور دیا کہ وہ صارفین کو بجلی کی معیاری فراہمی کو یقینی بنانے کے علاوہ صارفین سے واجب الادا واجبات کی وصولی کو یقینی بنائیں۔ڈاکٹر مہتا نے صارفین کو یہ یقین دلانے کے لیے مہم چلانے پر بھی زور دیا کہ اگر وہ وقت پر اپنے واجبات کی ادائیگی کرتے ہیں تو محکمہ معیاری بجلی فراہم کرنے کے لیے پابند عہد ہے۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ مستقبل میںمیٹر والے علاقوں میں صرف سمارٹ میٹر ہی لگائیں غیر میٹر والے علاقوں میں روایتی میٹر لگائیں۔چیف سکریٹری نے سمارٹ میٹروں کی تنصیب اور نقصان کو کم کرنے سے متعلق تمام کاموں کو مقررہ مدت میں مکمل کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ کی کوشش ہے کہ آئندہ چند سالوں میں تمام صارفین کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی جائے۔میٹنگ میں بتایا گیا کہ محکمہ 1046.71 کروڑ روپے کی لاگت سے سمارٹ میٹرنگ کے کام اور 4595.20 کروڑ روپے کی لاگت سے نقصان میں کمی کے کاموں کو ری ویمپڈ ڈسٹری بیوشن سیکٹر اسکیم (RDSS) کے تحت انجام دے گا۔یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ یوٹی میںبجلی کے شعبے میں خاطر خواہ تبدیلی لانے کے علاوہ اگلے چند سالوں میں یہاں کے صارفین کو 24×7 بجلی کی فراہمی فراہم کرنے کے لیے مرحلہ اول کے تحت 115000 سمارٹ میٹر لگائے گئے ہیں اور فیز II میں جولائی 2023 تک مزید 600000 ایسے میٹر لگائے جائیں گے۔
وادی کشمیر میں بجلی کے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے ماہرین کامانناہے کہ جموں و کشمیر کو مزید ہائیڈرؤ الیکٹرک پروجیکٹوں کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بجلی کی کھپت میں خود انحصاری ہو۔ جموں وکشمیر میں لوگوں کا اپنے بجلی کے بل ادا نہ کرنا اور بجلی کے غیر قانونی کنکشن رکھنا بھی ایک عام رُجحان ہے۔ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ پیداواراورمحصولات کی کمی کے نتیجے میں بجلی کی بار بار بندش ہوتی ہے جو چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کے پھلنے پھولنے کےلئے سازگار ماحول نہیں ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ حکام کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی سے بجلی کے نرخ یعنی فیس وصول کریں کیونکہ اس سے عوام کی بہتری میں مدد ملے گی۔ جموںوکشمیر ایک صنعتی طور پر پسماندہ علاقہ ہے جس کی کوئی مضبوط صنعتی بنیاد نہیں ہے۔ تاہم، بہت سی چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتیں روایتی اور نئے دونوں شعبوں میں سامنے آئی ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگرجموں وکشمیرمیں صرف دستیاب آبی وسائل کوبروئے کار لاکر زیادہ سے زیادہ بجلی کی پیداوارحاصل کی جائے تویہاں معاشی واقتصادی شعبوںمیں ترقی کے ایک نئے دورکی شروعات ہوگی اورساتھ ہی تعمیراتی اورترقیاتی محاذوں پربھی ایک نئے انقلاب کاآغازہوگا۔
