سرینگر / 12 اکتوبر:
جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس نے ڈپٹی کمشنر جموں کی طرف سے غیر مقامی لوگوں کو ووٹر رجسٹریشن کی سہولت فراہم کرنے کے لئے جاری کردہ ہدایت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکم انتہائی مشکوک ہے اور اس تعلق سے ہمارے شکوک و شبہات کو غلط ثابت کرنے کی ذمہ داری دوبارہ الیکشن کمشن آف انڈیا اور جموں وکشمیر انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ پیپلز کانفرنس کے ترجمان نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر جموں نے محکمہ مال کے ایک اعلیٰ آفیسر کو جموں میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے مقیم یُو ٹی کے باہر کے لوگوں کو رہائشی سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا اختیار دینے کی ہدایت کی ، جو انتہائی مشکوک ہے۔ اس عمل سے مقامی لوگوں کے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ جموں و کشمیر کے آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے باہر کے لوگوں کو بطور ووٹر رجسٹر کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ یہ کارروائی الیکشن کمیشن آف انڈیا بمقابلہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کیس میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی بھی صریح خلاف ورزی ہے جس میں عدالت نے کہا ہے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1950 میں مذکور ایک حلقے کے عام رہائشی کا مطلب اس جگہ کا پشتنی باشندہ ہوگا جہاں وہ مستقل طور پر کافی عرصے سے رہائش پزیر ہوگا اور یہ کہ اس کا ارادہ بھی مستقل طور اس علاقے میں رہنے کا ہو ۔
ترجمان نے زور دے کر مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی مداخلت کے خدشات دراصل الیکشن کمشن کے بعض افسران کے غیر ضروری اقدامات، ہدایات اور بیانات سے پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سےپہلے باہر کے 25 لاکھ ووٹروں کے اندراج کا دعویٰ کیا گیا جس وجہ سے آبادیاتی مداخلت کے بارے میں عوام میں شکوک وشبہات پیدا ہوئے اور پھر ریاستی انتظامیہ کو اس تعلق سے وضاحت جاری کرتے ہوئے اس بیان سے پیچھے ہٹنا پڑا اور اب جموں کے ڈپٹی کمشنر کی طرف سے تازہ ہدایت کے ذریعہ اس طرح کے خدشات نے نئے سرے سے جنم لیا جس کی وجہ سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو یہ یقین کرنے پر مجبور کیا گیا کہ اس طرح کی آبادیاتی مداخلت ایک حقیقت ہے ۔پیپلز کانفرنس نے اسی مناسبت سے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اس معاملے میں صفائی پیش کریں اور واضح کریں کہ کیا ڈپٹی کمشنر جموں کو ایسی ہدایت جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور اگر ایسا ہے تو کس قانون اور اصول کے تحت دیا گیا ہے؟
