سری نگر ،06فروری:
یہ کہتے ہوئے کہ ہم سرکاری زمینوں سے تجاوزات ہٹانے کی مہم کے خلاف نہیں،سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے حکومت پر زوردیاکہ سرکاری زمین سے تجاوزات کوہٹانے کیلئے بلڈوزرکو پہلانہیں آخری حربہ بنائیں۔انہوںنے کہاکہ سرکارکی جانب سے شروع کی گئی مہم سے پورے جموں وکشمیر میں اُتھل پُتھل کاماحول پیداہواہے،اور بقول موصوف حقیقت کیا،سچ کیا ،کوئی نہیں جانتا۔عمرعبداللہ نے اسبات پر زوردیاکہ جن لوگوںکوسرکاری یاریاستی زمینوں پر قابضین قرار دیاگیاہے ،ایسے لوگوں کواپنے دفاع میں دستاویزات دکھانے کےلئے چار ہفتے کا وقت دیاجاناچاہئے۔
سابق وزیراعلیٰ اورنیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے واضح کیاکہ سیاسی لیڈرشپ اورجماعتوں کے اگلے قدم کا انحصار حکومتی ردعمل پر ہوگا۔اس دوران عمرعبداللہ نے جموں وکشمیر کااصل ریاستی درجہ بحال کرنے کامطالبہ دوہراتے ہوئے دعویٰ کیاکہ دفعہ370کی منسوخی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس مضبوط ہے ۔ یہ کہتے ہوئے کہ جموں و کشمیر میں جاری انہدامی یاانسداد تجاوزات مہم نے لوگوں میں مایوسی اور افراتفری کی لہر کو جنم دیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے پیر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہاکہ حکومت کیلئے بلڈوزر پہلا نہیں آخری حربہ ہوناچاہئے۔انہوںنے کہاکہ مناسب نوٹس جاری کرکے لوگوں کو اپنا دعویٰ ثابت کرنے کا موقع دیاجاناچاہئے ۔ انہوں نے فوری طور پر مزید کہا کہ نیشنل کانفرنس ان لوگوں کے خلاف نہیں ہے جنہوں نے ریاستی زمین پر قبضہ کیا ہے لیکن ایک مناسب طریقہ کار پر عمل کیا جانا چاہئے۔عمرعبداللہ نے کہاکہ ریاستی یاسرکاری زمینوںکوخالی کرانے کی موجودہ مہم کاکوئی قانونی طریقہ کار نہیں ہے ،کیونکہ بغیر کسی نوٹس کے لوگوںکے ڈھانچوںکوبلڈوزروں سے گرادیاجاتاہے ۔انہوںنے کہاکہ جموں و کشمیر میں ہر طرف افراتفری ہے۔ گھر، کمپلیکس اور عمارتیں گرانے کےلئے جگہ جگہ بلڈوزر بھیجے جا رہے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ طریقہ کار کیا ہے اور کس بنیاد پر یہ انہدامی مہم چلائی جا رہی ہے۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ ان کی بہن نے گپکار مکان کے مجوزہ انہدام کے سلسلے میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور حکومت کی طرف سے عدالت کے سامنے بتایا گیا کہ میڈیا میں گردش کرنے والی فہرست ’جعلی‘ ہے۔ انہوں نے کہاکہ عدالت میں حکومت کے جواب کو دیکھتے ہوئے، میں حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کی حقیقی فہرست بنائے جنہوں نے سرکاری زمین پر قبضہ کیا ہے،اوراس لسٹ کومنظرعام پر لایاجائے۔عمر عبداللہ نے حکومت کو مسمار ی یانہدامی مہم کے حوالے سے متعدد اقدامات کی تجویز دی۔
انہوںنے کہاکہکسی بھی حکومت کو عوام کےلئے پریشانی نہیں لانی چاہیے۔ بلڈوزر پہلا نہیںآخری حربہ ہونا چاہیے۔ سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے کہاکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو مناسب نوٹس جاری کرے جنہوں نے بقول حکومت کے، ریاستی اراضی پر قبضہ کیا ہے اور انہیں کم از کم چارچھہ ہفتے کا وقت دیا ہے کہ وہ اپنے زیر زمین پر اپنا دعویٰ ثابت کریں اور دستاویزات ظاہر کریں۔عمرعبداللہ نے کہاکہہمارے معاملے میں، میری بہن نے ہائی کورٹ کے سامنے دستاویزات پیش کیں، جن میں کہا گیا ہے کہ گپکار گھر کی لیز ابھی بھی فعال ہے اور اس کی میعاد ختم ہونے میں کچھ سال باقی ہیں۔ اسی طرح لوگوں کو دستاویزات پیش کرنے کا وقت دیا جائے اور ریونیو ٹیم کو ان کی تصدیق کرنے دیں۔
انہوںنے کہاکہ اگر مناسب تصدیق کے بعد کسی کی بھی زمین ناجائز قبضے میں پائی جاتی ہے تو یقینی طور پر بلڈوزر استعمال کیا جا سکتا ہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ حکومت کو ان لوگوں کی”حقیقی فہرست“ بھی منظر عام پر لانی چاہیے جنہوں نے سرکاری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر کاکہناتھاکہ ایسا لگتا ہے کہ جاری مہم کا مقصد کمیونٹیز کے درمیان ایک پچر پیدا کرنا ہے۔ اس مہم میں مناسب طریقہ کار کا فقدان ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طریقہ کار ہے کہ اگر اس شخص کو نوٹس موصول نہیں ہوتا ہے، تو وہی نوٹس گیٹ کے سامنے والے حصے پر لگا دیا جاتا ہے۔اورموجودہ انسداد تجاوزات مہم میں کہیں بھی ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ نیڈوس میں بلڈوزر کے ساتھ موجود اہلکاروں نے میرے رشتہ داروں کو بتایا کہ ان پر اوپر سے دباو ہے اور انہیں اپنے مالکان کو دکھانے کے لیے کچھ کرنا پڑے گا۔عمرعبداللہ نے کہا کہ بہت سے علاقوں میں جاری مسماری اور بے دخلی مہم”بدعنوانی کا مرکز“ بن رہی ہے۔کیونکہ بقول موصوف مجھے کئی علاقوں سے بہت سے کالز موصول ہوئے جن میں لوگوں نے کہا کہ ُانہیں فہرست سے نام ہٹانے کے لیے ایک یاڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرنے کو کہا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر این سی کے ارکان پارلیمنٹ کو بولنے کا وقت دیا جائے تو وہ اس مسئلہ کو پارلیمنٹ میں اٹھانے کی کوشش کریں گے۔اس سوال پر کہ این سی اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرے گی، عمر عبداللہ نے کہا کہ انہوں نے حکومت کو کچھ اقدامات تجویز کئے ہیں اور اگر جموں و کشمیر انتظامیہ مثبت جواب دینے میں ناکام رہتی ہے، تو وہ یقینی طور پر وکلاءسے مشورہ کریں گے اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بات کریں گے۔
اس دوران عمرعبداللہ نے جموں وکشمیر کااصل ریاستی درجہ بحال کرنے کامطالبہ دوہراتے ہوئے دعویٰ کیاکہ دفعہ370کی منسوخی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس مضبوط ہے ۔ یہ کہتے ہوئے کہ جموں و کشمیر میں جاری انہدامی یاانسداد تجاوزات مہم نے لوگوں میں مایوسی اور افراتفری کی لہر کو جنم دیا ہے۔
