سرینگر/18فروری :
جموں وکشمیر میں بالعموم اور وادی کشمیرمیں بالخصوص آبادی کی بڑی تعداد کوپینے کاصاف پانی دستیاب نہیں اور یہی وجہ ہے کہ وادی کے کئی علاقوں میں ہیپٹائٹس سی اور یرقان کی بیماریاں پھوٹ پڑی ہے جب کہ درجنوں علاقوں میں بخار ،پیٹ درد، سر درد عروج پرہے اور طبعی ماہرین کامانناہے کہ ایک تو لوگ اُبھال کرپانی پینے کے عادی نہیں ہے اور واٹرسپلائی اسکیموں کے زریعے جوآب پینے کے لئے لوگوں کوفراہم کیاجارہاہے وہ بغیرفلٹر کے ہے اور بیماریاں پھوٹ پڑنا لازمی ہے ۔
سال2021کے دوران یہ بات عیاں ہوئی کہ جل شکتی محکمہ کے پانچ میں سے تین فلٹریشن پلانٹ بیکار ہے اور جہاں کئی بھی فلٹریشن پلانٹوں کونصب کیاگیاہے وہ میعار پرکھرے نہیں اترتے ہے اور جہاں کئی بھی واٹرسپلائی اسکیمیں بنائی گئی ہے وہ آبادی کومد نظررکھتے ہوتعمیر نہیں کی گئی ہے اگرچہ جل شکتی محکمہ میں ڈیلی ویجروں نیڈ بیس پرکام کرنے والوںاور مستقل ملازمین کی ایک بڑی فوج ہے پھر بھی لوگ ناصاف پانی استعمال کرتے ہے جوایک حیران کن عمل ہے ۔اے پی آ ئی نیوز ڈیسک کے مطابق جنوبی کشمیرکے پہاڑی ضلع وٹو شوپیاں کے علاوہ کوکرناگ کے مضافاتی علاقوں کے علاوہ وادی کے دیگر نواضلاع کے مختلف علاقوں میں 21وی صدی میں بھی لوگ مضر صحت آب استعمال کرنے پرمجبور ہوگئے ہے اگرچہ بار بار دعوے کئے جارہے ہے کہ لوگوں کوپینے کیلئے صاف پانی فراہم کیاجاتاہے تاہم جل شکتی محکمہ کے یہ دعوے اس وقت بے بنیاد ثابت ہوتے ہے جب اس بات کابھی انکشاف ہوا ہے کہ وٹوشوپیاں کے علاقے میں یرقان اور ہیپاٹائٹس کی بیماریاں پھوٹ پڑی ہے ۔
محکمہ صحت کے مطابق بیماری پھوٹ پڑنے کے بعد ڈاکٹروں کی ٹیموںکوروانہ کیاگیا۔ لوگوں میں ادویات تقسیم کی جارہی ہے تاہم یہ کسی ایک علاقے کی کہانی نہیں ہے ۔وادی کشمیرکے جس کسی بھی علاقے ے پانی کاٹیسٹ کیاجائے وہ پینے کے لائق نہیں ہے ۔اس میں کوئی نہ کوئی مضر اثر ضرور پایاجائیگا اور اس کی سب سے بڑی وجہ فلٹریشن پلانٹوں کی عدم دستیابی ہے ۔سال 2022میں بھی اس بات کاانکشاف ہوا کہ جل شکتی محکمہ کی جانب سے وادی کشمیرکے طول ارض میں جوفلٹریشن پلانٹ نصب کئے گئے ہے۔
ہرپانچ میں سے تین بیکار ہے ،اگرچہ ان فلٹریشن پلانٹوں پرکروڑوں روپے مالیت کاسرمایہ لگا دیاہے لیکن یہ میعار پرکھرے نہیں اترپارہے ہے اور یہی وجہ ہے کہ جن علاقوں میںیہ فلٹریشن پلانٹ موجود ہے وہاں 24×7لوگوںکوصاف پانی پینے کے لئے دستیاب نہیں رہتا ہے اور جن علاقوں میں فلٹریشن پلانٹ نہیںریزروائر ہے ٹینکیاں تعمیر کی گئی ہے اگرجل شکتی محکمہ ریزروائروں ٹینکوں میں بلیچنگ پاوڈر ڈالتے بھی ہے لیکن ان ریزروائروں کی کبھی بھی صفائی نہیں کی جاتی ہے اس سے بڑا لمیہ او رکیاہوگا کہ 70%سے زیادہ ایسی واٹرسپلائی اسکیمیں ہے جوندیوں نالوں کے ساتھ جوڑ دی گئی ہے اور لوگوں کوپینے کاپانی فراہم کیاجاتاہے ۔جل شکتی محکمہ کی جانب سے جوواٹرسپلائی اسکیمیں تعمیر کی گئی ہے ان کا85%حصہ لاپرواہی غیرسنجیدگی بے ضابطگیوں بدعنوانیوں کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوچکی ہے اور محکمہ نے اگرتیس سال پہلے کئی واٹرسپلائی اسکیم تعمیرکی ہے اگراس وقت اس علاقے کی آبادی پانچ ہزار تھی یہ آبادی اب ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے او رجل شکتی محکمہ نے ان علاقوں کے لئے کوئی متبادل تلاش نہیں کیااور یہی وجہ ہے کہ ایک تو وادی کے 52 %علاقوں کی پانی کی قلت محسو س کی جاتی ہے اور لوگوں کوناصاف پانی استعمال کرنے پرمجبور ہونا پڑتاہے جس کے نتیجے میں یرقان ،ہیپاٹائٹس، بخار ،پیٹ دررد، قئے اور دوسری بیماریاں بھی پڑتی ہے ۔
طبعی ماہرین کامانناہے کہ وادی کے لوگ بہت کم اُبھال کرپانی استعمال کرتے ہے اب کسان کھیت پرکام کر رہاہے اسے وہاں اُبھال کرپانی کون دیگا اسی طرح کھیتی باڈی سیب کے باغوں زعفران کے کھیتوں پرکام کرنے والوں کووہی مضرصحت پانی پینا پڑتاہے جوانہیں فراہم ہورہاہے المیہ تو اس بات کا ہے کہ سرکار دعویٰ کرتی ہے کہ تمام اسکولوں کوپینے کاپانی واٹرسپلائی اسکیموں کے زریعے فراہم کیاجاتاہے اور ان اسکولوں میں بھی طلاب درس و تدریس کے لئے جاتے ہے وہ بھی بغیراُبھال کے پانی استعمال کرتے ہے اور ان نونہالوں کویہ مہلک بیماریاں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ۔
