سرینگر/09مئی:
جموں کشمیر انتظامیہ کی جانب سے وادی کشمیر میں تعلیمی نظام کو بہترین بنانے کیلئے اگرچہ بڑے بڑے دعوئے کئے جا رہے ہیں تاہم جنوبی کشمیر کے درجنوں تعلیمی زونوں میں طلبہ کو درپیش مشکلات نے ان تمام دعوئے کی پول کھول کر دکھ دی ہے۔
محکمہ تعلیم میں بہترین لانے کے لئے کئی اقدامات اْٹھائے تھے جس میں خاص طور پر کہا گیا تھا کہ ریشنلئزیشن عمل میں لائی جائیگی تاہم جنوبی ضلع پلوامہ ، اننت ناگ، کولگام اور شوپیان میں تعلیمی زنوں کی حالت ابھی بھی انتہائی خستہ بنی ہوئی ہے اور اس کی طرف کوئی توجہ فراہم نہیں کی جاتی ہے۔
اس ضمن میں ملی تفصیلات کے مطابق ان قصبوں کے مختلف زنوں کے تحت آنے والے سرکاری اسکولوں میں کئی مقامات ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ علاقے میں قائم اسکول میں ضرورت سے زیادہ اساتذہ تعینات کئے گئے تاہم کئی اسکولوں میں دو سو سے زائد بچوں کو پڑھانے کیلئے صرف دو اساتذہ تعینات ہے جس کی وجہ سے ان کی پڑھائی پر برا اثر پڑ رہا ہے۔مقامی لوگوں نے اس کے خلاف شدید غم و غصہ کا اظہار کررتے ہوئے کہا کہ محکمہ تعلیم ایک طرف سے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہے اور دوسری طرف قصبہ کے مختلف سرکاری اسکول ایسے ہیں جن میں اساتذہ کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ دونوں اضلاع کے تعلیمی زونوں میں تعینات اساتذہ دور درواز علاقوں کے بجائے قصبوں میں ہی رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور جبکہ سرکاری احکامات کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہوئے اساتذہ اسکولوں میں حاضری دینے کے بعد زونل ایجوکیشن اور چیف ایجوکیشن دفاتروں میں دن بھی حاضر رہتے ہیں جس کے نتیجے میں طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلے عام کھلواڑ کیا جاتا ہے۔
لوگوں نے کہا ہم اس کے خلاف شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان زونوں کے تحت آنے والے اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے اور علاقوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جلد از جلد اقدامات اْھائے جائے
