گاندربل، 27 اگست:
ماہ اگست کی ایک صبح آفتاب اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہے اور اسی بیچ خواتین سمیت زائد از 75 ٹریکروں کا ایک گروپ قریب 13 ہزار 7 سو 50 فٹ اونچی پہاڑیوں پر چڑھنا شروع کرتا ہے اور دو گھنٹوں کے مشقت آمیز اور کٹھن ٹریکنگ کے بعد اپنا مشن بخوبی سر انجام دیتا ہے۔
ٹریکروں کا منزل مقصود ‘گاڈ سر پاس’ کی شان و شوکت جلوہ افروز تھی اور پسنے سے شرابور ٹریکروں کے وادی کے سب سے شاندار جگہ پر سورج کے نیچے بیٹھتے ہی ساری تھکان دور ہوگئی۔اس مقام پہنچنے سے وشنسر اور کشنسر کے برفانی جھیلوں کا قدرتی حسن و جمال گاڈ سر پاس کی چڑھائی کو وقعت بخشتے ہیں۔
یہ دو دلکش برفانی جھیل کشمیر گریٹ لیکس (کے جی ایل) ٹریک کا ایک حصہ ہیں جو نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ملک کے باقی حصوں سے تعلق رکھنے والے مہم جوئوں کے لئے پُر کشش ثابت ہو رہے ہیں یہاں تک کہ غیر ملکی مہم جو بھی اس کی ٹریکنگ کے لئے آتے ہیں۔یہ ٹریکنگ سری نگر – لیہہ شاہراہ پر واقع مشہور سیاحتی مقام سونہ مرگ سے شروع ہوتی ہے۔ عام طور پر شکدور سونہ مرگ میں بیس کیمپ قائم کئے جاتے ہیں اور بعد ازاں نکنائی پاس (13 ہزار 1سو فٹ)، گاڈ سر پاس، زاج پاس( 13 ہزار فٹ) سے گذر کر گاندربل میں واقع ایک خوبصورت گائوں نار ناگ میں اختتام پذیر ہوجاتی ہے۔ اس ٹریکنگ مہم کو مکمل کرنے میں پانچ سے سات دن لگتے ہیں۔
محکمہ سیاحت کے ڈپٹی ڈائریکٹر وسیم ملک نے یو این آئی کو بتایا کہ کشمیر گریٹ لیکس ٹریک پورے ہمالیائی علاقے میں سب سے خوبصورت اور پسندیدہ ٹریک ہے۔انہوں نے کہا: ‘کے جی ایل کی ٹریکنگ کے دوران ایک ٹریکر کئی خوبصورت جھیلوں جیسے وشنسر، کرشنا سر، گدسر، ستسر، گنگابل اور نند کول کے لفریب نظاروں سے محظوظ ہوتا ہے جو ہمالیہ کے شاندار پہاڑوں کے بیچ واقع ہیں اور سر سبز شاداب میدانوں اور برف پوش چوٹیوں سے گھرے ہوئے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ کے جی ایل ٹریک کے دوران کئی چرا گاہیں اور اونچائی سے گذرنے والے راستے ہیں کو ٹریکروں کے لئے دوسری پُرکشش جگہیں ہیں۔شیخ ظہور نامی ایک ٹریکر جنہوں نے ‘ورمل ٹریکنگ کلب’ کے 10 ممبروں کے ساتھ مل کر حال ہی میں اس ٹریک کی کھوج کی، نے بتایا: ‘کے جی ایل ٹریک آپ کو دلفریب جھیلوں، برف پوش پہاڑوں، سر بفلک چوٹیوں، اور مختلف قسم کے خوبصورت پھولوں سے آراستہ و پیراستہ چراگاہوں کی سیر کراتا ہے’۔
ان کے ساتھی طارق احمد کا کہنا ہے کہ یہ ٹریک طویل سفر کی متقاضی ہے ہر روز طویل مسافت طے کرنی ہے اور 6 دنوں میں 75 کلو میٹر کا سفرطے کرنا ہے۔وسیم ملک کا کہنا تھا کہ سال گذشتہ 5 ہزار افراد کے جی ایل ٹریکنگ کے دوران اس پاس پر خیمہ زن ہوئے تھے اور امسال اب تک 3 ہزار ٹریکر یہاں آئے ہیں۔محکمہ سیاحت جموں و کشمیر سے اجازت حاصل کئے بغیر کشمیر گریٹ لیکس ٹریک کی ٹریکنگ ممکن نہیں ہے۔
وسیم ملک کا کہنا ہے کہ متعلقہ محکمہ ڈاکٹر کی طرف سے جاری کردہ ہیلتھ سرٹیفیکیٹ اور ایڈ ونچر انشورنس جس پر کچھ خرچہ آتا ہے،جمع کرنے کے بعد ہی اجازت فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہا: ‘ماحولیاتی لحاظ سے نازک علاقہ ہونے کے پیش نظر یہاں ہر دن صرف ایک سو لوگوں کے آنآنے کو ہی یقینی بنایا جاتا ہے’۔
سال 2016 تک سیکورٹی خدشات کی وجہ سے یہ ٹریک عام لوگوں کے لئے قابل رسائی نہیں تھا تاہم گذشتہ 7 برسوں کے دوران کچھ بلاگروں اور بالی ووڈ ستاروں کے کے جی ایل کی ٹریکنگ پر آنے سے یہ ٹریک مشہور ہوا ہے۔مسٹر وسیم کا کہنا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران کشمیر ہمالیہ کی ٹریکنگ کرنے والوں میں سے 30 سے 40 فیصد کے جی اہل ایل کی ٹریکنگ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا رہے ہیں۔
محکمہ سیاحت کشمیر 70 کلو میٹر طویل اس ٹریکنگ راستے پر جمع ہونے والے کوڑے کرکٹ سے واقف ہے لہذاا ہر سال برف باری سے قبل متعلقہ محکمہ دیگر رضاکاروں کی مدد سےاس پہاڑ پر جا کر پلاسٹک و دیگر کوڑے کرکٹ کو صاف کرتا ہے۔کمرشل ٹور آپریٹروں کا کہنا ہے کہ مقامی و ملکی سیاحوں کے علاوہ غیر ملکی سیاحوں میں بھی اس ٹریک کے حوالے سے کافی جوش وخروش پایا جا رہا ہے۔مائونٹین اینڈ ڈریم نامی ٹرول ایجنسی کے مالک صدام حسین کا کہنا ہے کہ اس ٹریک کی طرف زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ متوجہ ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا: ‘لوگ قدرتی مناظر کے قریب تر آنے کے لئے نامعلوم مقامات کی ٹریکنگ کو زیادہ پسند کرتے ہیں’۔
ویتنام میں کام کرنے والے ایک فرانسیسی باشندے برٹناڈ نے گاڈ سر کیمپنگ کے نزدیک بتایا: ‘میں پہلی بار کشمیر آیا ہوں اور میں نے کشمیر گریٹ لیکس آنے کا فیصلہ کیا یہاں جو تجربہ ہوا وہ مسحور کن ہے’۔جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک ٹریکر میوری نے بتایا: ‘یہ سچ مچ جنت ہے’۔کے جی ایل کی ٹریکنگ کرنے والوں کا ایک مشورہ بھی ہے کہ گرچہ مہم جوئوں بلکہ عام لوگوں کے درمیان کے جی ایل کی ٹریکنگ معروف ہے لیکن اس کو سنجیدگی سے نہ لینا اور بھر پور ضروری ساز وسامان سے لیس نہ ہونا خطرہ جان ثابت ہوسکتا ہے۔
جلیل جیلانی نامی ایک ٹریکر کا کہنا ہے کہ جو اس ٹریکنگ مہم پر آنے کے متمنی ہیں انہیں پوری تیارری کے ساتھ رخت سفر باندھ لینا چاہئے۔ممبئی سے تعلق رکھنے والے شریس ائیر نے کہا: ‘کشمیر کی حقیقی خوبصورتی پنہاں وادیوں میں ہے جن تک سڑک کے ذریعے رسائی حاصل نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اس پوشیدہ خوبصورتی کو عیاں کرنے سے مجھے مسرت ملتی ہے۔
