سرینگر /10دسمبر :
دفعہ370پر سپریم کورٹ فیصلے سے قبل ہی نیشنل کانفرنس لیڈران اور عہدیداران کی تنگ طلبی اور ہراسانی کیخلاف شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ہماری تنظیم نے ہر لحاظ سے قربانیاں دیں ہیں، لیکن آج یہاں ایسی حکومت ہے جس کی مکمل طور پر یہی کوشش رہتی ہے کہ نیشنل کانفرنس کی آواز کو کیسے دبایا جائے، نیشنل کانفرنس کی زبان پر کیسے تالہ چڑھایا جائے اور نیشنل کانفرنس کے لیڈران کو کیسے بند کیا جائے۔
پارٹی ورکروں کیساتھ اپنی رابطہ مہم جاری رکھتے ہوئے رفیع آباد میں یک روزہ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے کل سپریم کورٹ میں فیصلہ آنا ہے لیکن کیا ہمیں بند کرناضروری ہے ؟ کیا ہمارے پروگرام منسوخ کرناضروری ہے؟ کیا ہم نے کبھی ماحول بگاڑا ہے؟ کیا ہم نے کبھی نوجوانون سے کہا ہے کہ پتھر اُٹھائو اور پھینکو؟ کیا ہم نے کبھی یہاں لوگوں سے کہا ہے کہ بندوق اُٹھائو اور لڑو؟ہمارے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اُس وقت حضرتبل سے تقریر کی اور کہا کہ نوجوانوں اگر آپ کو فاروق عبداللہ پسند نہیں تو میں چلا جائوں گا لیکن یہ بندوق مت اُٹھائو اس میں صرف اور صرف تباہی اور بربادی لکھی ہوئی ہے۔تب سے لیکر آج تک 35سال ہوگئے اوربار بار اُن کی یہ بات صحیح ثابت ہوتی ہے،بندوق نے تبادہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا، روزہم اپنے ہی کسی اپنے کو دفناتے ہیں، چاہئے اُس نے وردی پہنی ہو نہ پہنی ہو۔‘‘
انہوں نے کہاکہ اگر ہمیں حالات بگاڑنے ہوتے تو ہم 2019بعد بگاڑتے،لیکن اُس وقت بھی کہا اور آج بھی کہتے ہیں، ہماری یہ لڑائی جتنے بھی دن چلے، ہم پُرامن طریقے سے آئینی طور پر قانونی کو ساتھ لیکر اپنے حقوق ، اپنی عزت ، اپنے وقار اور اپنی پہنچان کیلئے اپنی لڑئی جاری رکھیں گے۔ اس میں کیا غلط ہے؟جب سپریم کورٹ نے ابھی فیصلہ سنایا بھی نہیں ، آپ ہمارے پیچھے کیوں لگ گئے، ممکن ہے کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا، پھرآپ کیا کریں گے؟کیا میرے ساتھیوں کو پولیس تھانے بلانا ضروری ہے، کل رات سے میرے ساتھیوں کو پولیس تھانوں میں طلب کیا جارہاہے اور انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ سماجی رابطہ ویب سائٹوں پر یہ مت لکھو وہ مت لکھو، کیا آپ کی دھمکی صرف نیشنل کانفرنس کیلئے ہے،کیا آپ نے بی جے پی کے کسی لیڈر بلایا؟ اگر خدا نے چاہا اور فیصلہ اُن کیخلاف ہوا اور اس فیصلے کیخلاف وہ فیس بُک پر لکھنا شروع کریں گے، اُس وقت آپ کیا کریں گے؟
ہمیں تو تھانے بلاکر دھمکیاں دیتے ہو اور اُنہیں سر پر چڑھا رکھا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟یہ کون سی جمہوریت ہے؟‘‘این سی نائب صدر نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ گئے اور 2چار جماعتیں چھوڑ کر باقی سب بھی وہاں پہنچ گئے اور سب نے مل کر کوشش کی کہ 5اگست2019کو جو ہمارے ساتھ لوٹ ہوئی اور ہمیں جو دھوکہ دیا گیا وہ غیر آئینی اور غیر جمہوریت تھا۔ ’’دو منٹ کیلئے مان کر چلتے ہیں کہ اگر کل سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے حق میں نہیں آیا،اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم خاموش بیٹھیں گے۔
بی جے پی کو 5اگست2019تک پہنچنے کیلئے 70سال لگے،اس سے پہلے سپریم کورٹ نے بھی دو فیصلے دفعہ370کے حق میں سنائے، کیا بی جے پی والوں نے اپنا مؤقف چھوڑا، کیا وہ پیچھے ہٹے؟ بلکہ انہوں نے اپنی سیاسی لڑائی جاری رکھی۔کہنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم دل چھوٹا نہیں کریں گے، ہم مایوس نہیں ہونگے، ہم سر نہیں جکائیں گے، ہم پُرامن طریقے سے جمہوری، آئینی اور قانونی طریقے سے جموں وکشمیر کو وہ مقام حاصل کر کے رہیں گے، جو ہم سے چھینا گیا۔ ممکن ہے اس لڑائی میں ہمیں وقت لگے، کبھی کبھی صبر کرنا ہی بہتر ہوتا ہے، لیکن سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم سوچ سمجھ کر اپنی بات سامنے رکھیں، ہمیں لوگوں کے جذبات کیساتھ کھلواڑ نہیں کرنا ہے، ہمیں لوگوں کو اُکسانا نہیں، ہمیں ماحول نہیں بگاڑنا ہے، ہمیں حکومت کو یہ بہانہ نہیں دینا ہے کہ وہ یہاں نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کا کام شروع کریں،ہمیں اپنے الفاظ سوچ سمجھ کے استعمال کرنے ہیں ، کہیں وہ ہماری جمہوری اور آئینی جدوجہد کے آڑے نہ آئیں۔‘‘ عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ ایک دن ، ایک ہفتے اور ایک مہینے کی لڑائی نہیں ہے، راتوں رات اس کا حل نہیں ہوگا،لیکن انشاء اللہ اگر ہماری نیت صاف رہی اور ہمارے ارادے صحیح رہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں خود بہ خود راستہ دکھائے گا۔
