• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم جمعہ ایڈیشن

سماجی ہم آہنگی اور بقائے باہمی کی اہمیت

Online Editor by Online Editor
2023-12-29
in تازہ تریں, جمعہ ایڈیشن
A A
سماجی ہم آہنگی اور بقائے باہمی کی اہمیت
FacebookTwitterWhatsappEmail

غوث سیوانی، نئی دہلی

کرسمس اور نئے سال کی مبارکبادیوں سے خطرے میں ایمان کیوں؟

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ کرسمس، نیاسال، دیوالی، ہولی وغیرہ پر مبارکباد دینا حرام ہے، گناہ ہے اور بعض مسلمان کہتے ہیں کہ یہ شرک اور کفر ہے۔ اس کے باوجود میں مبارکباد دیتا ہوں اور ایسی باتوں کو سماجی ہم آہنگی کے لئے ضروری مانتا ہوں۔ ویسے اگر سوشل میڈیا پر آپ نظر رکھتے ہوں تو دیکھ سکتے ہیں کہ شمسی نئے سال پر مبارکباد پیش کرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد کم نہیں ہوتی۔ کیا وہ تمام اسلام سے خارج ہوگئے؟ حالیہ کرسمس سے دو دن قبل جمعہ تھا اور جمعہ کی نماز کے لئے میں ایک ایسی مسجد میں تھا جہاں مسجد کے آس پاس مسلمانوں کی بالکل آبادی نہیں۔ یہاں جمعہ کے لئے آنے والوں میں بیشتر آفسوں کے لوگ ہوتے ہیں۔ نماز سے قبل امام صاحب نے تقریر کے دوران فرمایا کرسمس پر مبارکباد دینا جائز نہیں، گناہ کا کام ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ عیسائی مانتے ہیں کہ عیسی ٰعلیہ السلام ، خداکے بیٹے ہیں لہٰذا کرسمس پر مبارکباد دینے کا مطلب خدا کے بیٹے کی پیدائش پر مبارکباد دینا ہے۔

یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ تقریر مائک پر ہورہی تھی اور آواز آس پاس کی آبادی تک بھی یقینا پہنچ رہی ہوگی۔ ایک دوسرا واقعہ بتائوں۔ چند ماہ قبل میں دہلی کی ایک دوسری مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے گیا۔ یہاں امام صاحب نے نماز سے قبل تقریر میں کہا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں سے دوستی نہ رکھو۔ واضح ہوکہ کچھ لوگ اسی حکم پر قیاس کرتے ہوئے تمام غیرمسلم گروپوں کو اسی میں شامل کرتے ہیں۔ یہاں ایک اور وضاحت ضروری ہے کہ امام صاحب نے مذکورہ بالا حکم کو سیاق وسباق سے الگ کرکے بیان کیا۔ قران کی ہر آیت کا ایک پس منظر ہے جسے "شان نزول”کہا جاتا ہے اور اوپر والی آیت میں کہی گئی بات بھی اپنے پس منظر کے بغیر ادھوری ہے۔

کرسمس کا دن تھا اور میں چھٹی کے سبب گھر پر تھا۔ میرے اٹھارہ سال بیٹے نے مجھ سے سوال کیا کہ میرے دوست مجھے کرسمس کی مبارکبادیاں پیش کر رہے ہیں، کیا میں انہیں جواب میں مبارکباد پیش کرسکتا ہوں؟ بیٹے کا سوال سن کر میں نے بھانپ لیا کہ مسجدوں میں جو کچھ امام صاحبان کہتے ہیں، اس کی بازگشت کہاں تک جاتی ہے۔ حالانکہ دنیا کے حالات سے نابلد یہ بیچارے سیدھے سادے لوگ نہیں جانتے کہ وہ اسلام کی خدمت سمجھ کربدخدمتی کر رہے ہیں۔ اماموں کا ایک ایک چھوٹا طبقہ سمجھدار، تعلیم یافتہ اور دوراندیش بھی ہے۔ اس کے بعد میں نے دانستہ طور پر اپنے فیس بک پیج پر کرسمس کی مبارکباد والا ایک پیغام اردو میں لکھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اردو جاننے والا کوئی عیسائی میرے فالورس میں ہے یا نہیں۔

اس پوسٹ کے بعد فیس بکی مفتیوں اور نوزائیدہ مولویوں کا ہراول دستہ مجھ پر حملہ آور ہوگیا۔ کسی نے شرک کا فتویٰ لگایا تو کسی نے کفر کا۔ کسی نے مجھے گناہگار قراردیا تو کسی نے کچھ عالموں کے فتوے اور کتابوں کے حوالے پیش کئے۔ کچھ لوگوں نے قرآنی آیات پیش کیں تو کچھ نے مفتیوں کے فتووں کی یاد دلائی۔ یہاں ایک اور بات بتانا مناسب ہوگا کہ یوروپی ملکوں میں مساجد اور اسلامی مراکز کی جانب سے کرسمس پر خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ مبارکبادیاں پیش کرنے تک ہی وہ محدود نہیں رہتے بلکہ تحائف بھی بانٹے جاتے ہیں تاکہ وہ لوگ جو مالی مشکلات کا شکار ہیں کرسمس منا سکیں۔ یقین نہ ہوتو گوگل پر سرچ کرلیں، ایسی بہت سی خبریں آپ کو نظر آجائیں گی۔

اسلام، اللہ کا آفاقی پیغام ہے، یہ کوئی تنگ نظرمذہب نہیں ہے۔ یہ تمام انسانوں کو ایک آدم کی اولاد اور اس رشتے سے بھائی بھائی مانتا ہے۔ پیغمبراسلام نے ابوجہل اور ابولہب جیسے دشمنوں کو بھی اللہ کا پیغام پہنچایا اور اذیت دینے والوں کو بھی معاف کردیا۔ جنہوں نے کعبہ کے پاس عبادت کرنے سے روکا اور طائف میں پتھر برسائے، انہیں بھی درگزر کردیا۔ قران و سیرت نبوی نے کبھی بھی انسانوں کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا اور محض اس لئے کسی کو قابل نفرت نہیں قرار دیا کہ اس کا مذہب ، مختلف ہے۔ اسلام کے اصل داعی اور اپنے عہد کے حالات سے باخبر صوفیہ وعلماء اسلام نے تو خاص طور پر ایسے خطوں کو اپنی قیام کے لئے منتخب کیا جہاں غیرمسلموں کی آبادی زیادہ تھی۔

یاد کیجئے جب خواجہ معین الدین چشتی، اجمیر آئے تو یہاں کتنےمسلمان آباد تھے؟ جب حضرت اشرف جہانگیر سمنانی نے کچھوچھہ کو اپنی روحانی دعوت کا مرکز بنایا تو یہاں کتنے مسلمان تھے؟ جب شیخ شرف الدین یحییٰ منیری نے بہار شریف کو جائے قیام بنایا تو یہاں کتنے مسلمان تھے؟ باشعورعلماء اور باتدبیر مفکرین جانتے ہیں کہ مسلمان ہندوستان میں ہوں یا انگلینڈ اور امریکہ میں ، بقائے باہمی کے اصولوں کے ساتھ ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ بات ان نیم خواندہ حضرات اور ان کے پیروکاروں کو کبھی سمجھ میں نہیں آئے گی جو چند سال مدرسوں میں گزار کر تلاش معاش میں نکل پڑتے ہیں اور مسجدوں سے لے کر دینی اجتماعات تک قرآن و حدیث کی منمانی تعیبرات پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

سماج کو تقسیم کرنے والی نصیحتیں ملک ہی نہیں خود مسلمانوں کے لئے بھی ہلاکت خیز ہیں۔ آپ ذرا تصور کریں کہ ہم جس ملک اور سماج میں رہتے ہیں ، اس سے کٹ کر ہم کیسے رہ سکتے ہیں؟ ہم جن لوگوں کے ساتھ رہتے سہتے ہیں اور جن کے خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں، کیسے ممکن ہے کہ ان کے تہواروں پر انہیں مبارکباد نہ پیش کریں۔ ہندوستان میں کئی دفعہ ایسی خبریں میڈیا میں آتی ہیں کہ جماعت اسلامی ہند کے کارکن پوجا اور ہندووں کے تہواروں کے میلوں میں اسٹال لگاتے ہیں۔ پانی اور دیگر تحفے تقسیم کرتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ اسلامی لٹریچر اور قران کریم کے ترجمے بھی غیر مسلم بھائیوں کو بانٹتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کے پروگراموں میں اکثر میں نے ہندو، سکھ، عیسائی بھائیوں کو شرکت کرتے دیکھا ہے۔

میں قومی راجدھانی دہلی کے ایک مسلم اکثریتی علاقے میں رہتا ہوں مگر میرا تعلق بہار کے ایک ایسے گائوں سے ہے جہاں تقریباً ایک ہزار گھر ہیں جن میں نصف مسلمانوں کے ہیں اور آدھے ہندووں کے ہیں۔ ہمارے سب سے قریبی پڑوسی ہندو ہیں۔ یہاں بیشتر ہندووں اور مسلمانوں کے مکانات کی دیواریں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ دروازے آمنے سامنے ہیں۔ ہم دونوں کے اجداد صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ پیار اور امن کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔ وہ بقائے باہمی کے اصولوں کی عملی تفسیر تھے اور اسے وہ کسی فلسفی سے زیادہ سمجھتے تھے۔ آج جو لوگ مسلمانوں کو سمجھاتے ہیں کہ ہولی، دیوالی، کرسمس اور شمسی نئے سال پر مبارکبادیاں دینا حرام وگناہ یا شرک ہے،وہ جانے انجانے میں سماجی ہم آہنگی کو توڑنے کا کام کر رہے ہیں۔

وہ منطق بھی بڑی عجیب ہے جو ایسے معاملوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ اگر کوئی کرسمس کی مبارکباد دیتا ہے تو اس کا مقصد صرف ایک تہوار کی مبارکباد دینا ہوتا ہے مگر خود کو اسلام کا ٹھیکہ دار سمجھنے والے نیم خواندہ لوگ اس کا مطلب لیتے ہیں کہ خدا کے باپ بننے پر مبارکباد دینا۔ اگر رام چندر جی اور کرشن جی کے یوم پیدائش پر مبارکبادیاں دی جاتی ہیں تو اس کا مطلب ایک تہوار کی مبارکباد دینا ہوتا ہے ، نہ کہ اس دعویٰ میں وشواس کرنا کہ ایشور نے انسانی روپ میں اوتار لیا ہے۔ بعض عالموں اور صوفیوں کی تحریروں میں رام ،کرشن وغیرہ کا ذکر بے حد احترام سے ملتا ہے اور اردو کے شاعروں نے تو ان کی تعریفوں کے قصیدے پڑھے ہیں، ایسے میں کیا انہوں نے بھی عقیدہ اوتار کو مان لیا اور اسلام سے خارج ہوگئے؟

یقینا کچھ عالموں نے بھی اپنی کتابوں میں غیرمسلموں کے تہواروں اور ان کی مبارکبادیوں کے سلسلے میں بعض ایسی باتیں لکھی ہیں مگر وہ مختلف عہد اور مختلف معاشرے کے لوگ تھے۔ معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ ان بزرگوں کی کتابوں میں بہت سی ایسی باتیں موجود ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹا ہے اور ایک عہد سے مسلمان فرقہ فرقہ اور کافر کافر کھیل رہے ہیں۔ ایک مسلمان ، دوسرے مسلمان کے لئے کافر، مشرک اور بدعتی ہے اور ایک گھر میں کئی کئی فرقے بنے ہیں تو اس کے لئے ہمارے ہی کچھ عالموں کی تحریریں اور تقریریں ذمہ دار ہیں۔

ایک بار میڈیا میں خبر آئی کہ کچھ غیرمسلم مکان مالکان نے مسلمانوں کو اپنا گھر کرایے پر دینے سے انکار کردیا ہے،لیکن جب مسلمان خود دوسرے مذاہب کے لوگوں سے کٹ کر رہنا چاہیں گے تو پھران کے عمل پر شکایت کیوں؟ عہد حاضر کے ہندوستان میں جس قدر سماجی ہم آہنگی کی مسلمانوں کو ضرورت ہے، شاید ماضی میں کبھی نہ رہی ہو۔ وجہ یہ ہے کہ میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف خوب نفرت انگیزی ہورہی ہے اور مسلمان بھی اس کا جواب نفرت سے ہی دیں گے تو یہ ان کے لئے خودکشی کے مترادف ہوگا اور ملک کے مستقبل کے لئے نقصاندہ کام۔سماجی ہم آہنگی کا ٹوٹنا ہم نے 1947 میں دیکھا ہے جس کے نقصانات سے اب تک باہر نہیں آئے ہیں،ایسے میں معاشرے کو تقسیم کرنے والے کسی بھی نظریے کو روکنے کی ذمہ داری ہمارے ہی کندھوں پر ہے۔

 

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

قطر: 8 ہندوستانیوں کی سزائے موت پرلگی روک

Next Post

دروغ گوئی، بُہتان طرازی اور افواہوں کے مُعاشرے پر تباہ کُن اثرات

Online Editor

Online Editor

Related Posts

’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے آیا ہوں‘ : راہل گاندھی

ڈاکٹر سنگھ کے انتقال سے میں نے اپنا رہنما کھو دیا: راہل

2024-12-27
ایک دو دن میں لیجسلیچر پارٹی کی میٹنگ طلب کرکے حکومت بنانے کا دعویٰ کیا جائے گا :عمر عبداللہ

وزیرا علیٰ عمر عبداللہ کی سربراہی میں ممبران اسمبلی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ

2024-12-27
وزیر اعلیٰ کا بون اینڈ جوائنٹ اور چلڈرن ہسپتال کا اچانک دورہ 

وزیر اعلیٰ کا بون اینڈ جوائنٹ اور چلڈرن ہسپتال کا اچانک دورہ 

2024-12-25
مونیکا کوہلی جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مقرر

خواتین وکلا عدالت میں چہرہ ڈھانپ کر پیش نہیں ہو سکتیں: جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ

2024-12-23
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
صدر دروپدی مرمو نے مختلف ریاستوں کے گورنر مقرر کیے، بنواری لال کا استعفیٰ قبول کیا

جمہوریہ کی قیادت میں قوم وجے دیوس کے موقع پر 1971 کی جنگ کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کررہی ہے:مرمو

2024-12-17
محبوبہ نے ‘ون نیشن ون الیکشن’ کی مخالفت کی، پی ڈی پی صدر نے کہا این ڈی اے ہندوستان کے آئین کو تباہ کر رہی ہے

محبوبہ نے ‘ون نیشن ون الیکشن’ کی مخالفت کی، پی ڈی پی صدر نے کہا این ڈی اے ہندوستان کے آئین کو تباہ کر رہی ہے

2024-12-15
Next Post
دروغ گوئی، بُہتان طرازی اور افواہوں کے مُعاشرے پر تباہ کُن اثرات

دروغ گوئی، بُہتان طرازی اور افواہوں کے مُعاشرے پر تباہ کُن اثرات

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan