• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم جمعہ ایڈیشن

دروغ گوئی، بُہتان طرازی اور افواہوں کے مُعاشرے پر تباہ کُن اثرات

Online Editor by Online Editor
2023-12-29
in تازہ تریں, جمعہ ایڈیشن, مضامین
A A
دروغ گوئی، بُہتان طرازی اور افواہوں کے مُعاشرے پر تباہ کُن اثرات
FacebookTwitterWhatsappEmail

مولانا نعمان نعیم

موجودہ دور میں جھوٹ ، حسد ، غیبت ، بہتان اور افواہوں کی کثرت کی وجہ سےعزت و آبرو جیسی بیش قیمت اور محترم چیز بھی متاعِ کوچہ و بازار بن گئی ہے ۔تاریخ انسانی اس بات پر شاہد ہے کہ جس قدر نقصان انسان نے انسان کو پہنچایا ہے شاید ہی کسی دوسری چیز نے پہنچایا ہو۔ بھی بعض اوقات تاریخ انسانی کے سیاہ صفحات سے گرد اڑاتے ہوئے بے ساختہ زبان پر یہ جملہ نازل ہوتا کہ ’’مجھے درندوں سے نہیں اب انسان سے ڈر لگتا ہے‘‘۔

تحقیقات کے مطابق ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ وطن عزیز پاکستان میں بھی اپنے مراحل طے کررہی ہے۔ جنگ کی اس قسم میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک ایسی فضا قائم ہوتی ہے جس میں ہر چیز دھندلا جاتی ہے، ہر طرف شکوک و شبہات اور ابہامات کا بسیرا ہوتا ہے۔ کوئی تحریر ہے تو وہ تسکین کے بجائے تشکیک میں مبتلا کردیتی ہے، کوئی تحقیق ہے تو وہ فتنہ برپا کردیتی ہے۔ پھر سوشل میڈیا اس جنگ کا ایک اہم ہتھیار ہے، جسے کوئی بھی انسان کسی بھی طرح استعمال کرسکتا ہے۔ نتیجتاً قوم کی حیثیت اور مقام داؤ پر لگ جاتا ہے۔

دور حاضر کے نوجوان کو جس جنگ کا سامنا ہے وہ معلومات کی جنگ ہے، جس میں پروپیگنڈا اور جھوٹی خبریں مسلسل زیر گردش رہتی ہیں، تاکہ نوجوان اور ان کی قوم حقیقت تک رسائی حاصل نہ کرسکیں۔ اس دوران جب ان معلومات کو جذبات کا تڑکا لگایا جاتا ہے تو نوجوانوں کی صلاحیت اس کی بھینٹ چڑھتی دکھائی دیتی ہے۔

یہ جنگ میڈیا کی جنگ ہے، جس میں میڈیا اس کا وسیع تر میدان اوراس کے بیشتر پلیٹ فارم اس کا بہترین ہتھیار ہیں۔ انٹرنیٹ، فیس بک،ٹوئیٹر، یوٹیوب وغیرہ ہر پلیٹ فارم کا اگر نوجوان صحیح اور طریقے سے استعمال کریں تو ففتھ جنریشن وار کے بھیانک اثرات سے اپنے وطن، اپنی قوم و ملت کی حفاظت کرسکتے ہیں۔

ففتھ جنریشن وار کے حوالے سے نوجوانوں میں دینی اور عصری دونوں علوم کے رجحان کو پروان چڑھانا بھی نہایت ضروری ہے، کیوں کہ ان دونوں علوم کے حسین امتزاج کے بغیر نوجوان کا دور حاضر میں پیش آنے والے مسائل اور چیلنجز کا سامنا کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ اس دوران ایک امر جو نوجوانوں کےلیے بڑی اہمیت کا حامل ہے، اس بارےمیں انہیں محتاط رہنا چاہیے کہ کچھ انتہاپسند گروہ نوجوانوں کے بڑھتے ہوئے دینی اور مذہبی میلان کو اپنے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ وقت کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اس خاموش نسل کشی کو سمجھیں اور میڈیا وار کا شکار نہ ہوں۔

عزت و آبرو کی حفاظت ہر انسان کا بنیادی حق ہے ، دنیا بھر میں رائج دساتیر اور قوانین میں اس کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ کے پاک ارشادات میں جگہ جگہ اس کی صراحت ہے کہ انسان کے جان و مال کی طرح اس کی عزت و آبرو بھی محترم ہے ، آپ ﷺنے مومن کی آبرو کو کعبہ سے بھی زیادہ محترم قرار دیا ہے۔

حذیم بن عمرو السعدی روایت کرتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن رسول اللہﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! بلاشبہ تمہاری جان ، تمہارا مال اور تمہاری آبرو (تمہارے درمیان) اسی طرح محترم ہے جس طرح آج کا دن محترم ہے ، جس طرح یہ مہینہ اور یہ شہر قابل احترام ہے ۔ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر، اُس کا مال ، اُس کی عزت و آبرو اور خون حرام ہے ۔ (ابن ماجہ)

اب لوگ علیٰ الاعلان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور ایک دوسرے کی نکتہ چینی اور عیب جوئی کرتے ہیں ۔ اور بعض لوگ تو فرضِ منصبی کی طرح اِس فریضے کو انجام دیتے ہیں ، گھروں ، دکانوں اور بستیوں میں گھوم گھوم کر جھوٹ ، غیبت ، بہتان طرازی اور افواہ سازی کے ذریعے فضا کو اس قدر مسموم اور زہر آلود کردیتے ہیں کہ ایک گھٹن سی محسوس ہونے لگتی ہے، ایسے ماحول میں نیک و متقی اور پرہیزگار قسم کے لوگ بھی مشتبہ اور داغدار ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں چونکہ جھوٹ اور افواہوں کا چلن بہت زیادہ ہے اور کانوں تک پہنچنے والی باتوں کی تحقیق کا مزاج مفقود ہے ، اس لئے اِس طرح کی افواہیں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں اور "اصل حقیقت” افترا پردازی اور جھوٹ کے گرد و غبار میں مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔

اسلامی تاریخ پر ایک سرسری نگاہ ڈالئے تو اندازہ ہوگا کہ یہودومنافقین نے اسلامی معاشرے میں ہمیشہ جھوٹی خبروں اور افواہوں کے ذریعے اضطراب اور بے چینی کی فضا پیدا کرنے اور مقدّس شخصیات کو متہم اور داغدار کرنے کی کوشش کی ، جس سے بارہا نبی اکرم ﷺ کے قلب اطہر کو چوٹ پہنچی اور آپ کو شدید رنج و غم لاحق ہوا ، "اِفک” کا واقعہ مشہور ہے جس سے آپ ﷺ اور آپ کے اصحاب ؓ کو سخت ذہنی اور قلبی اذیت پہنچی۔

غزوۂ تبوک کے موقع پر قرآن پاک میں صراحت کے ساتھ یہ بات فرمائی گئی کہ اگر منافقین اِس مہم میں تمہارے ساتھ شریک ہوتے تو تمہارے درمیان طرح طرح کے فتنے پیدا کرتے اور دشمن کی طاقت و قوت کے من گھڑت قصوں اور افواہ طرازیوں کے ذریعے تم کو سراسیمہ اور خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتے ۔حضرت علی ؓ اور حضرت عثمان غنی ؓ کے عہد خلافت کی جنگوں کے احوال پڑھئے تو اندازہ ہوگا کہ یہودو منافقین نے جھوٹی خبروں اور افواہ طرازیوں کے ذریعے کس طرح معمولی معمولی واقعات کو بڑی بڑی جنگوں میں تبدیل کر دیا۔

جھوٹ اور افواہ کی تشہیر میں اہل مغرب کو جیسی مہارت حاصل ہے، مسلمانوں سے زیادہ شاید کسی قوم کو اُس کا اندازہ نہیں ہوگا۔ اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو بگاڑنے کے لئے اہل یورپ صدیوں سے نہایت منظم انداز میں کوششیں کر رہے ہیں اور وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں ، انہوں نے ہردور میں مصنفین اور اصحاب قلم کی ایک مستقل اور علیحدہ جماعت کو اسلام کے خلاف برسر پیکار رکھا، جن کا مقصد اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکے خلاف جھوٹ گڑھنا اور افواہوں کی صورت میں اُس کی ترویج و اشاعت کرنا رہا ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے زیادہ منفی رول مغربی میڈیا کا رہا ہے ، مغربی میڈیا کا بنیادی طریقہ یہ ہے کہ کسی جھوٹ کو اتنے تواتر اور کثرت کے ساتھ بولا جائے کہ بالآخر وہ سچ معلوم ہونے لگے۔

اس کی واضح مثال "دہشت گردی” کا جھوٹ ہے ، مغربی میڈیا نے اِس جھوٹ کو اتنی ہوا دی اور کچھ اس انداز سے افواہ سازی کی کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر دیکھا جانے لگا اور لوگ یہ باور کرنے لگے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔ مسلمانوں کے پاس چونکہ اہل مغرب جیسا طاقتور میڈیا نہیں ہے اور نہ ہم کو میڈیا کی اہمیت اور ضرورت کا صحیح طور پراحساس و ادراک ہے ، اس لئے ہم مغرب کی افواہ طرازیوں کے طوفان کا مقابلہ نہیں کر پائے۔

حالانکہ نبی پاک ﷺ کی حیات مبارکہ کا جائزہ لیجئے تو اندازہ ہوگا کہ آپ ﷺنے اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں میڈیا کے ذرائع کا خوب استعمال کیا ہے ، آپﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان صفا کی پہاڑی سے کیا ، جس کی حیثیت اس وقت کسی خاص اور اہم پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے ایک میڈیا ہاؤس کی تھی ، آپ ﷺ حج جیسے مجمعوں میں گھوم گھوم کر لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے تھے ،عرب کے دور دراز علاقوں سے لوگ جس طرح حج کے موقعے پر جمع ہو جاتے تھے ، شاید اُن کو اکٹھے دین کا پیغام پہنچانے کا اس سے بہتر موقعہ نہیں ہو سکتا تھا ، آپ ﷺ نے حج ہی کے موقعے پر ایک لاکھ سے زیادہ کے مجمعے سے بھی خطاب فرمایا ہے ، اِن اشارات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے صحافت اور میڈیا کے ذرائع کی کیا اہمیت ہے۔

موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کی وسعت اور سائنس و ٹیکنالوجی کی غیرمعمولی ترقی نے پرنٹ میڈیا کی اہمیت کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے ، اب انگلیوں کی معمولی جنبش سے دنیا کے اِس گوشے سے اُس گوشے تک کی خبر چند سکینڈز میں معلوم کی جاسکتی ہے ، کسی خبر کو تھوڑے سے وقفے میں پوری دنیا میں عام کیا جاسکتا ہے ، علم و فن کے کسی بھی جزئیے کو خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو آسانی سے پڑھا اورسمجھا جا سکتا ہے ، یقیناً اِس دور کے صنعتی ، سائنسی اور علمی و فکری انقلاب میں اِس کا بڑا اہم رول ہے لیکن اِس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔

ان سائنسی ترقیات نے جہاں معلومات کی فراہمی اور ماضی کے علمی ، ادبی اور فکری سرمائے کی حصولیابی کو بہت آسان بنادیا ہے ، وہیں اس نے جھوٹی خبروں اور افواہوں کی تشہیر کو بھی بہت آسان کر دیا ہے ، اب آن لائن جھوٹ اورآن لائن غیبت کی ایسی وسیع اور ہمہ گیر صورتیں پیدا ہو گئی ہیں ، جس کا ماضی میں تصور تک نہیں تھا ، منفی اور تخریبی ذہن کے حامل افراد اِس ’’خوان پُر نعمت‘‘ سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں ، وہ سوشل میڈیا کی مدد سے اپنے مدّمقابل کے خلاف جی بھر کر بھڑاس نکالتے ہیں اور کسی مدافعت کے خطرے سے آزاد ہوکر کیچڑ اچھالتے ہیں۔

قرآن و سنت نے افواہوں کی روک تھام کے لیے ایسے کارآمد اصول وضع کئے ہیں کہ اگر ان کو صحیح طور پر روبہ عمل لایا جائے تو افواہوں کو بآسانی پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے اور اُس کے نقصانات سے فرد اور معاشرے کو بچایا جاسکتا ہے ۔اسلامی تعلیمات اور ہدایات پر عمل کرکے معاشرے کو جھوٹی افواہوں سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔

زیادہ تر اخلاقی اور سماجی برائیوں کی جڑ "جھوٹ” ہی ہے ، افواہیں اِسی سے جنم لیتی ہیں ، غیبت اور چغل خوری کے تانے بانے بھی اِسی سے جڑے ہوئے ہیں ، تہمت تراشی اور الزام سازی بھی جھوٹ ہی کی مروّجہ شکل ہے، نفاق جیسی مہلک روحانی بیماری بھی جھوٹ ہی سے پیدا ہوتی ہے، غرض ملی و جماعتی زندگی کے بیشتر مسائل جھوٹ کی لعنت سے پیدا ہوتے ہیں، لہٰذا اگر جھوٹ کو معاشرے سے ختم کردیا گیا تو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے بہت سے مسائل از خود ختم ہو جائیں گے۔

افواہیں کسی نہ کسی شخص کی غیبت پر مشتمل ہوتی ہیں ، اس لئے جھوٹ کی قباحت کے ساتھ غیبت کا گناہ بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے ، غیبت کی قباحت زنا سے بھی بڑھی ہوئی ہے ، یہ اپنے حقیقی مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے ، جس کی غیبت کی جائے اس کے تو درجے بلند ہوتے ہیں لیکن غیبت کرنے اور سننے والے خواہ مخواہ اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرتے ہیں۔

کسی خبر کی باوثوق ذرائع سے جب تک تحقیق نہ ہو جائے اس وقت تک اس کو لوگوں سے بیان نہیں کرنا چاہئے ، یہ ہر آدمی کا فرض ہے کہ جب کسی شخص کے بارے میں کوئی خبر اس تک پہنچے تو پہلے اس کی اچھی طرح چھان بین کرے ورنہ اس کا قوی امکان ہے کہ وہ عجلت و جلد بازی میں کسی اچھے آدمی کے بارے میں بھی غلط رائے قائم کر لے گا جس پر بعد میں اس کو ندامت و شرمندگی ہوگی۔

قرآن پاک میں بڑے بلیغ انداز میں یہ بات کہی گئی ہے:اے ایمان والو اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچادو پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔ (سورۃ الحجرات)جب کسی خبر کا کسی بڑے اور اہم معاملے سے تعلق ہو تو اگر چہ اُس خبرکے درست ہونے کا (بظاہر) یقین یا غالب گمان ہو لیکن اُس( کی اہمیت) کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک خوب اچھی طرح اُس کی تحقیق نہ کر لی جائے ، اُس میں توقف سے کام لیا جائے۔

افواہوں کو روکنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں سکوت کا طریقہ اختیار کیا جائے ، اس طرح افواہیں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓکے بارے میں جب منافقین نے افواہ طرازی شروع کی اور آپ کے دامن عصمت کو داغدار کرنے کی کوشش کی تو آپ ﷺنے اُن سے بحث و گفتگو کے بجائے سکوت اور خاموشی کا طریقہ اختیار کیا ،تا آنکہ قرآن پاک میں سیدہ عائشہؓ کے پاک و بری ہونے کی آیات نازل کر دی گئیں۔ ان آیات میں افواہوں کے سلسلے میں ایک خاص ہدایت یہ دی گئی کہ جب کوئی جھوٹی خبر یا الزام تمہارے کانوں تک پہنچے تو اپنی زبانوں کو اُس سےآلودہ کرنے کے بجائے خاموشی کا طریقہ اختیار کرو۔

خاص طور پر ایسی خبروں کو بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے جس سے کسی کی عزت مجروح ہوتی ہے ، کیوں کہ عزت و آبرو کی حفاظت ہر انسان کا بنیادی حق ہے ، کسی کو بے آبرو کرنا اور اس کے بارے میں غلط افواہیں پھیلانا شرعی اور اخلاقی تقاضوں کے مغائر ہے ۔اِس کے برعکس اگر دوسروں کی عزت و آبرو کی حفاظت کے خیال سے افواہوں اور جھوٹی خبروں کو پھیلانے سے گریز کیا جائے تو ایسے لوگ نہ صرف دنیا میں سرخرو اور کامیاب ہوں گے بلکہ قیامت کے دن بھی اُن کے عیوب و نقائص کو اہل محشر کی نگاہوں سے مخفی رکھا جائے گا۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ”جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب فاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اُس کا عیب فاش کرے گا، یہاں تک کہ وہ اُسے اس کے گھر میں بھی ذلیل کرے گا“۔(ابن ماجہ)

جب کسی مسئلے میں افواہوں کا بازار گرم ہو اور متنوع اور مختلف قسم کی آراء سامنے آرہی ہوں تو کوشش کر کے مناسب انداز میں براہ راست اُس کی تحقیق کر لینی چاہئے ، جھوٹی خبروں پر یقین کر لینا اور افواہوں کے پیچھے بھاگنا دانشمندی نہیں ہے۔ قرآن پاک میں بے بنیاد خبروں کے پیچھے بھاگنے اور افواہوں پر یقین کرنے سے سختی سے روکا گیا ہے، یہ بتایا گیا ہے کہ کان آنکھ اور دل نہ صرف حصول معلومات کے اہم ذرائع ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم امانت بھی ہیں ، پس ان کا بے جا اور غلط استعمال موجب خسران اور باعث ہلاکت ہے ، قیامت کے دن اس کے بارے میں سخت باز پرس ہوگی۔

 

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

سماجی ہم آہنگی اور بقائے باہمی کی اہمیت

Next Post

*علی گڑھ سے گزارشات علمائے جموں وکشمیر کے نام ۔۔۔۔۔

Online Editor

Online Editor

Related Posts

’نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے آیا ہوں‘ : راہل گاندھی

ڈاکٹر سنگھ کے انتقال سے میں نے اپنا رہنما کھو دیا: راہل

2024-12-27
سوامتو پراپرٹی کارڈ:  دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

سوامتو پراپرٹی کارڈ: دیہی اثاثوں سے آمدنی حاصل کرنے کا داخلی دروازہ

2024-12-27
ایک دو دن میں لیجسلیچر پارٹی کی میٹنگ طلب کرکے حکومت بنانے کا دعویٰ کیا جائے گا :عمر عبداللہ

وزیرا علیٰ عمر عبداللہ کی سربراہی میں ممبران اسمبلی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ

2024-12-27
وزیر اعلیٰ کا بون اینڈ جوائنٹ اور چلڈرن ہسپتال کا اچانک دورہ 

وزیر اعلیٰ کا بون اینڈ جوائنٹ اور چلڈرن ہسپتال کا اچانک دورہ 

2024-12-25
مونیکا کوہلی جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مقرر

خواتین وکلا عدالت میں چہرہ ڈھانپ کر پیش نہیں ہو سکتیں: جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ

2024-12-23
معاشرتی بقا اَور استحکام کیلئے اخلاقی اقدار کو فروغ دیجئے

حسن سلوک کی جھلک

2024-12-20
وادی میں منشیات کے عادی افراد حشیش ، براون شوگر کا بھی استعمال کرتے ہیں

منشیات کی سونامی ! مرض کی دوا کیا؟

2024-12-20
صدر دروپدی مرمو نے مختلف ریاستوں کے گورنر مقرر کیے، بنواری لال کا استعفیٰ قبول کیا

جمہوریہ کی قیادت میں قوم وجے دیوس کے موقع پر 1971 کی جنگ کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کررہی ہے:مرمو

2024-12-17
Next Post

*علی گڑھ سے گزارشات علمائے جموں وکشمیر کے نام ۔۔۔۔۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan