
میرج اسسٹنس اسکیم ان غریب بالغ لڑکیوں کے لئے سال 2015 میں شروع کی گئی تھی جو غربی کی سطح کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہیں اور شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہیں۔ اس اسکیم کے تحت حکومت ان لڑکیوں کو 25000 روپے فراہم کرتی تھی تاکہ بآسانی یہ لڑکیاں شادی کرسکیں۔ حال ہی میں لیفٹینیٹ گورنر جموں کشمیر’منہوج سنھا‘ نے اس اسکیم کو 25000/- روپے سے بڑھا کر 50000/- کردیا ہے۔ لیکن زمینی سطح پر اس اسکیم کا نقشہ مختلف نظر آتا ہے۔ کئی دنوں کی محنت کے بعد غریب طبقہ اس درخواست کو مکمل کرتا ہے اور اس انتظار میں رہتا ہے کہ ہمیں ہمارا حق ملے گا۔ کئی ماہ کے انتظار کے بعد یہ جواب ملتا ہے کہ کاغذات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر کسی دوسری وجہ سے آپکی درخواست رد ہوچکی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جموں کشمیر کے دیگر علاقاجات میں جہاں کہیں بھی غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں انہیں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ ہر اسکیم سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کیونکہ وسائل نہ ہونے اور معلومات کی کمی کی وجہ سے وہ کسی دفتر تک رسائی حاصل نہیں کرپاتے ہیں۔ دفتر کے آفسران بھی ان اسکیموں کا پرچار عوامی حلقوں میں نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہ طبقہ ان اسکیموں سے محروم رہ جاتا ہے۔
ضلع پونچھ میں بھی غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے وہ لڑکیاں جن کے پا س وسائل نہیں اس اسکیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔ صرف انہیں لوگوں کو اس کا فائدہ ملتا ہے جن خاندان کے تعلقات آفسران کے ساتھ اچھے ہوتے ہیں۔ عام عوام کو محرومی اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ضلع پونچھ کے گاؤں کھنیتر سے تعلق رکھنے والے باغ حسین،عمر 60 سال اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔میں نے مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالا انہیں بڑا کیا۔ بیس سال قبل ایک ایکسیڈینٹ کے دوران میں شدید زخمی ہوگیا اور میرے دونوں بازوں اور قمر ٹوٹ گئی۔ میں بیساکھی کے سہارے پر کھڑا ہوتا ہوں۔ میری دو جوان لڑکیاں ہیں۔ میرے پاس لوگ میری بیٹیوں کا رشتہ مانگنے آتے ہیں لیکن میرے پاس پیسے نہیں کہ میں اپنی بیٹیوں کی شادی کے اخراجات برداشت کرسکوں۔‘ جب ان سے میرج اسیسٹنس اسکیم کے تعلق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ’مجھے اس اسکیم کے بارے میں کوئی بھی جانکاری نہیں ہے اور نہ ہی مجھ تک اس اسکیم کے تعلق سے کسی نے کوئی جانکاری فراہم کی ہے۔ جب میں نے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھا تو میرا سہارا کوئی بھی نہیں ہے۔ میرا ایک بیٹا تھا جس کے سہارے میں جیتا تھا اور جوانی کی عمر میں بیمار ہوگیا اور اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔“پونچھ ضلع کی تحصیل منڈی کے ایک رہاشی محمد لطیف کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیٹی کی شادی سے قبل میرج اسیسٹنس اسکیم کے لئے آن لائن درخواست جمع کروائی تھی۔ آج میری بیٹی کی شادی کو ایک ماہ گزر گیا لیکن مجھے اس اسکیم کا فائدہ نہیں ملا۔
تحصیل منڈی کے گاؤں بائلہ کے رہائشی محمد اسلم کہتے ہیں کہ ”میری پانچ بیٹیاں ہیں۔میں محنت مزدوری کرکے اپنی بیٹیوں کے اخراجات برداشت کرتا ہوں۔ میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ میری بڑی بیٹی کی ایک سال قبل شادی ہوئی ہے۔ میں نے اپنی بیٹی کی شادی سے قبل میرج اسیسٹنس اسکیم کے لئے پورے کاغذات تیار کئے لیکن میری فائل یہ کہہ کر رد کی گئی کہ میرا راشن کارڈ (APL) زمرے میں رکھا گیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں بھی اس اسکیم کا اتنا ہی حقدار ہوا جتنا ایک دوسرا باپ جسکی پانچ بیٹیاں ہیں،حقدار ہے۔ تو پھر مجھے کیوں اے پی ایل زمرے میں رکھا گیا ہے۔“ پونچھ کے علاقہ کلائی سے تعلق رکھنے والے محمد راشاد عمر ۲۳ سال سے جب بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ”میری بہن کا رشہ طے ہوگیا ہے۔ ہمارے پاس اتنی رقم نہیں کہ ہم اپنی بہن کی شادی کے اخراجات برداشت کرسکیں۔ میں معذور شخص ہوں اور میرے والدین بزرگ ہیں،کمانے والا گھر میں کوئی نہیں ہے۔ میں نے تین بار اپنی بہن کی شادے کے حوالے سے میرج اسیسٹنس اسکیم کے تحت فارم بھرے تاکہ ہماری امداد ہوسکے۔ لیکن افسوس کہ تینوں بار میرے کاغذات رد ہوگئے۔ اس وجہ سے بہن کی شادی میں بھی تاخیر کرنی پڑی۔“
اس حوالے سے ضلع سوشل ولفئیر آفسر پونچھ’موہندر پال سے بات کی تو انہوں کے کہا کہ”جو بھی اسکیم شروع ہوتی ہے اسے مرکز ی حکومت کی جانب سے لانچ کیا جاتا ہے۔ ہم اسے زمینی سطح پر لاگو کرتے ہیں اور عوام تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری جانب سے بیک ٹو ولیج پروگرام کے دوران ہر گاؤں اور ہر پنچائت میں لوگوں تک جانگاری پہنچائی گئی ہے۔اس کے علاوہ عوام کو سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم کے ذریعے سے جانگاری فراہم کی جاتی ہے۔“ میرج اسیسٹنس اسکیم کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ ”حکومت کی جانب سے آن لائن پورٹل اسی لئے شروع کیا گیا ہے تاکہ کام میں سرعت لائی جا سکے اور عوام تک انکے حقوق کو پہنچایا جاسکے۔ لیکن اکثر لوگ فارم بھرتے وقت غلطی کردیتے ہیں۔ میرج اسیسٹنس اسکیم کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے شادی کی تاریخ سے چالیس روز قبل امید وار اپنی درخواست آن لائن کرواسکتی ہے۔ اور اسکے بعد ہمیں فائل کی جانچ کرنی پڑتی ہے۔ اگر چہ فارم میں کوئی کاغذ غلط ہو یا فارم ادھورا ہو تو ہم وہ فارم واپس کرتے ہیں تاکہ امیدوار اس کاغذ کو مقررہ مدت کے اندر دوبارہ آن لائن کرسکے۔ فائل مکمل ہونے کی صورت میں ہم ضلع ترقیاتی کمشنر آفس میں فائل فاروڈ کرتے ہیں۔ جہاں سے ڈاریکٹر فائنانس کے دفتر میں فائل جاتی ہے اور ایک ماہ کی مدت میں امیدوار کے اکاونٹ میں رقم آجاتی ہے۔“ اب ہر تحصیل آفسر اور ہر پہچائت کے ممبران کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام تک مکمل جانکاری پہنچائیں تاکہ عوام کووقت پر صحیح جانکاری مل سکے اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اسکیموں سے غریب طبقہ سے تعلق سے رکھنے والے لوگوں کو ان اسکیموں سے فائدہ ہوسکے۔(چرخہ فیچرس)
