
اگر یہ کہاجائے کہ دکن میں صوفیاکرام کا سکہ بادشاہوں،حکمرانوں اور عوام و خواص پر یکساں چلتا تھا، اورآج بھی چلتا ہے تو بجا نہ ہوگا۔کیونکہ پروفیسر عبد القادر سہروردی نے اپنی کتاب اردو کی ادبی تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت زین الدینؒ نے محمدشاہ بہمنی کو تلقین کی کہ وہ شراب نوشی ترک کردے، تو اس نے نہ صرف خود شراب پینا چھوڑ دیا بلکہ اپنی حدود سلطنت میں مئے نوشی کو ممنوع قرار دے دیا۔ فیروز شاہ بٍہمنی کے عہد میں حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒبھی دکن تشریف لائے۔ آپؒ نے عوام الناس کی رشد وہدایت کے لئے تقریر،درس وتدریس اوروعظ ونصیحت کے علاوہ کئی کتابیں تحریر فرمائی جن میں شکارنامہ، تمثیل نامہ، خلاصہ توحید، تلاوت الوجود وغیرہ کے علاوہ خواتین کے لئے چکی نامہ تحریرکرکے عوام وخواص اور مرد وزن کو اسلامی تعلیمات سے بخوبی واقف کرایا۔
حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھنے والوں کی آج بھی کوئی کمی نہیں ہے، گلبرگہ اور آس پاس کے اضلاع بلکہ ٍٍٍکرناٹک، تلنگانہ، مہاراسٹروغیرہ سمیت پورے دکن میں بے شمار ایسے لوگ ملتے ہیں جو ان کی تعلیمات پر نہ صرف عمل کرتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کے نام بھی ٍحضرت کے نام پر رکھتے ہیں۔ آپ کو باآسانی بندہ نواز، گیسو دراز، خواجہ وغیرہ ناموں کے کئی کئی لوگ ایک ہی شہر میں مل جائیں گے۔حضرت گیسو دراز ؒ اور ان کے بے شمار شاگرد صوفیائے کرام کی تعلیمات کا اثریہ ہے کہ فصیل بند شہر بیجاپور کے ایک اوٹو ڈرائیور محمد قاسم کے ساتھ کچھ لمحہ اس کے اوٹو پر گزارنے کا موقع ملا۔ بیجاپور شہر کے گاندھی چوک سے شاہی پارک کے درمیان قاسم اپنے اوٹو سے دن رات میں کئی چکرلگاتے ہیں اورسخت محنت کے ذریعہ حاصل ہونے والی آمدنی سے وہ اپنے اوٹو اور گھر والوں کی پروریش کرتے ہیں۔ دورانِ سفر راجیش کمار نامی مسافرکی منزل آگئی مگر وہ اپنے فون پر اس قدر محو گفتگو تھاکہ اس نے ڈرائیورکو کرایہ سے کہیں زیادہ پیسہ دے کر اپنے راستے چل پڑا۔ مگر جب قاسم نے پیسوں کا حساب کیا تو اپنی گاڑی سڑک کنارے روک کر راجیش کو آواز دی اور اس کا زیادہ پیسہ اسے واپس کردیا۔میں پچھلی سیٹ پر بیٹھایہ ماجرہ دیکھ رہا تھا، میں نے قاسم کو سوالیہ انداز میں مشورہ دیا کہ آپنے پیسے واپس کیوں کردیا؟ رکھ لیتے۔ محمد قاسم نے برجستہ جواب دیا جناب ہمارے مذہب نے ہمیں حرام کی کمائی سے منع کیا ہے، ہمارے اسلاف نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ حرام کی کمائی سے حلال کارزق بھی ہم پر حرام ہوجاتا ہے، ہماری ساری محنت بے برکت ہو جاتی ہے، حرام کی کمائی رزق حلال کو بھی برباد کردیتی ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں کہ صرف مساجد میں بیٹھ کر قرآن و حدیث کی باتیں مسلمانوں کے درمیان کی جائے، بلکہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام اور اسلاف کی درست تعلیم کا عملی مظاہر بازاروں، سڑکوں اور عام دنیوی معاملات میں کیا جائے۔ حالانکہ یہ سب کوئی نئی بات نہیں ہے مگر ہم جیسے ہندوستانی مسلمانوں نے اس کو نیا بنادیا ہے۔اب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پیاری اور زندگیوں کو سنوارنے والی باتیں صرف مساجد و مدارس میں پڑھائی اور بتائی جارہی ہیں۔ بہت ہوا تو سوشل میڈیا پر کسی نے کچھ پوسٹ کردی۔ مگر میرے مذہب نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا تھا، اس لئے اللہ نے اپنے نور کوبشری لباس دے کر دنیوی معاملات سمجھانے، بتانے اور کرکے دیکھانے کے لئے دنیامیں بھیجاتھا۔اور ہم لوگوں کا حال یہ ہے کہ بس کسی طرح سے دنیاوی مال ودولت اکٹھا کی جائے، ہم تقریباً روزانہ ہی کسی نہ کسی کے موت کی خبریں سنتے ہیں،آئے دن قبرستان جاکر اپنے پیاروں کو دفن کرتے ہیں۔مگر دنیا کی محبت اللہ اس کے رسول اور اولیاء کرام کی محبت پر بھاری نظر آتی ہے۔ بھائی صاحب!ہم لوگوں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ حرام کی کمائی جیب میں ڈال کر حلال گوشت تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
آوٹو ڈرائیور محمد قاسم کی باتیں سن کر خاموشی کے علاوہ میرے پاس کئی راستہ ہی نہیں تھا۔ میری گردن پر میراسر بُوجھ لگنے لگا، جب سر جُھکا تو شاعر مشرق علامہ اقبال کا شعر یاد آگیا کہ”اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی، جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی”
