از:ڈاکٹر جی ایم بٹ
شیخ نورالدین جو کشمیر میں شیخ العالم ، نندہ ریشی اور علمدار کشمیر کے نام سے جانا جاتا ہے ایک منفرد شخصیت کا حامل ہے ۔ اس کی ذات کی طرح ان کی ولایت بھی دوسرے اولیا سے الگ ہے ۔ اپنی اس انفرادیت کی وجہ سے ان کا نام اور کام دونوں آج تک ہر کشمیری کے دل میں جگہ پائے ہوئے ہیں ۔ ان کا جو مقام عام لوگوں میں پایا جاتا ہے وہ اپنی نوعیت کا الگ مقام ہے ۔ گھر گھر ہی نہیں بلکہ ہر فرد کی زبان اور دل میں اس کا دبدبہ ہے ۔ کشمیر میں یقینی طور امیر کبیر ، شیخ عبدالقادر جیلانی اور مخدوم صاحب وغیرہ کا نام نظر انداز کرنا ممکن نہیں ۔ وادی میں قدم قدم پر آستانے اور زیارت گاہیں پائی جاتی ہیں ۔ ہر ایک کا اپنا مقام ہے ۔ مقامی یا علاقائی سطح پر ان سب کا عرس منایا جاتا ہے ۔ لوگ ان کو مخصوص ایام پر یاد کرتے ہیں ۔ ان کے مقبروں پر حاضری دیتے ہیں اور ادب واحترام کا اظہار کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود شیخ العالم کا اس وجہ سے الگ مقام ہے کہ ان کی شخصیت اور تعلیمات کا آج تک چرچہ ہے ۔ شیخ العالم کے زمانے میں لل دید کا نام پورے کشمیر میں زبان زد عام تھا ۔ تاہم یہ بھرم آخری ایام تک قائم نہ رہ سکا ۔ اس زمانے میں یہاں سنسکرت کا رواج کم ہونے لگا تھا ۔ کشمیری پنڈتوں نے دربار میں رسائی کے مقصد سے فارسی کو اختیار کیا تھا اور سنسکرت کو یکسر فراموش کیا جانے لگا تھا ۔ لل دید کی شاعری میں شیومت کا جو اثر تھا اس کے ساتھ سنسکرت کو نتھی کیا گیا تھا ۔ ایسی تشبیہات اور استعارات کا استعمال کیا گیا تھا جن کا ماخذ سنسکرت تھا ۔ جب آبادی کے بااثر اور پڑھے لکھے طبقے نے شیو مت اور سنسکرت کو خیر باد کہہ دیا تو لوگ جو پڑھے لکھے نہیں بلکہ کورے ان پڑھ تھے ان چیزوں سے الگ تھلگ ہوگئے ۔ اس درمیان جب انہوں نے شیخ العالم کا کلام سنا تو اس کے گرویدہ ہوکر رہ گئے ۔ یہاں تک کہ لل دید کے واکھ آہستہ آہستہ نظر انداز ہونے لگے ۔ اس کی جگہ شیخ العالم کے اشعار زبان زد عام ہونے لگے ۔ لل دید کا کلام اپنی ادبی شان و شوکت کے باوجود لوگوں کے دلوں سے اتر گیا اور اس کی جگہ کلام شیخ العالم نے لی ۔ کلام شیخ میں جہاں کشمیری زبان کی مٹھاس پائی جاتی تھی وہاں اس میں مذہبی اثرات اس قدر گہرے تھے کہ لوگوں نے اس کو کلام اللہ کا مقام دیا ۔ ان کا یہ کلام توحید اور تصوف دونوں طرح کے رنگ میں اس طرح رنگا تھا کہ ہر کسی کو اپیل کرنے لگا ۔ اس کے علاوہ شیخ العالم نے ایک مشن اپنا کر اس کی تبلیغ شہر و گام کرنے کا عزم کیا ۔ انہوں نے اپنے گھر سے شروع کرکے پورے کشمیر تک یہ تعلیمات پھیلادیں ۔ اس طرح سے ایک تبلیغی مشن کے ذریعے انہوں نے جہاں اسلام کی تعلیمات کو عام فہم انداز میں لوگوں تک پہنچادیا وہاں اپنے کلام کی تشہیر بھی کی ۔ ان کا کلام آج بھی کسی کشمیری شاعر کا پڑھا اور سنایا جانے والا سب سے مشہور کلام ہے ۔
شیخ العالم کے کلام ، تعلیمات اور اس سے بڑھ کر ان کے ذاتی اوصاف کا چرچا ان کی حیات کے زمانے تک محدود نہیں رہا بلکہ آج تک پوری آب و تاب سے موجود ہے ۔ آج بھی ان کا نام بڑی عزت سے لیا جاتا ہے اور کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ ان کے کلام میں مین میخ نکالے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ اسلام کے ترجمان شاعر علامہ اقبال کو اس کے مقام سے نیچے لانے کی مسلسل کوششیں ہورہی ہیں ۔ ان کے اپنے وطن پاکستان میں ترقی پسندوں کا ایک ایسا گروہ پایا جاتا ہے جو نہ صرف ان کی شاعری کو شاعری ماننے سے انکار کررہاہے بلکہ ان کے افکار کی نفی بھی کرتا ہے ۔ اس کے بجائے شیخ العالم کی ہمہ گیر شخصیت آج بھی قابل تعظیم مانی جاتی ہے ۔ شاید پہلے سے زیادہ آج ان کی تعظیم کرنے والے پائے جاتے ہیں ۔ ان کے عرس پر ہر سال جتنے لوگ جمع ہوجاتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے نام کو عوام کے دلوں سے کھرچنا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ شیخ العالم نے اسلام کے ایک سچے مبلغ کے طور مصنوعی اسلام کی نہیں بلکہ صحیح اسلام کی ترویج کی ۔ انہوں نے عام لوگوں تک جو اسلام پہنچایا وہ کسی لحاظ سے بھی کمزور یا کھوکھلا اسلام نہیں تھا ۔ اسلامی مبلغوں کے اندر عام طور پر یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کو وقت کے تقاضوں اور حالات کی موافقت کے حوالے سے پیش کرتے ہیں ۔ صوفیا کا یہ خاص طریقہ رہاہے کہ کسی کنٹرورسی میں پڑے بغیر انہوں نے اسلام کو بہت ہی نرم سانچے میں ڈال کر پیش کیا جہاں لڑائی جھگڑوں کی ہر گز کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ اس کے بجائے شیخ العالم نے جگہ جگہ اور بستی بستی مزاحمتی حلقے موجود پائے ۔ ان سے نمٹتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ شکم پرستوں کے پھیلائے ہوئے اسلام سے انکار کرتے ہوئے انہوں نے خالص دین کو قریہ قریہ پھیلایا ۔ ان مزاحمتی حلقوں نے ان کو اپنے کام سے روکنے کی کوشش کی ۔ بڑے پیمانے پر رکاوٹیں ڈالیں ۔ یہاں تک کہ وقت کے حکمران کے پاس شکایات درج کرکے انہیں گرفتار کروایا ۔ اس کے باوجود کامیابی حاصل نہ ہوئی اور اللہ کے اس ولی نے اسلام کو اپنی اصل شکل میں عام لوگوں تک پہنچانے کا عزم کیا ۔ وہ معجزاتی طور اپنے اس مشن میں کامیاب ہوئے ۔ آپ بہ ظاہر کوئی بڑی علمی شخصیت نہ تھے ۔ ان کی پاس کوئی تعلیمی ڈگری نہیں تھی ۔ کسی استاد سے قرآن کا سبق پڑھا نہیں تھا ۔ نہ بخاری و مسلم کے حجم سے واقف تھے ۔ اس کے باوجود انہوں اعلائے کلمۃاللہ کا کام انجام دیا اس میں توحید خالص کا اصل مغز اور عاشق رسول کا صحیح جذبہ پایا جاتا ہے ۔ تصوف کی مٹھاس اور شاعری کا پورا ترنم پایا جاتا ہے ۔ اس ذریعے سے کشمیر کے لوگ پہلی بار اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس ہوئے اور وہ اسلامی جذبے سے مانوس ہوگئے ۔ اس سے پہلے یہاں واقعی اسلام کے حق میں ایک لہر پیدا ہوگئی تھی اور خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر یہاں اسلام نے پوری آبادی وک اپنے زیر اثر لے لیا تھا ۔ تاہم یہ لوگ اسلام کے ظاہری حسن سے واقف تو تھے لیکن ان کا باطن اب تک کہیں اور گرو تھا ۔ علمدار کشمیر نے یقینی طور اسلام کا علم تھام کر اس کو بلند کرنے کا حق ادا کیا ۔ انہیں بلا وجہ علمدار نہیں کہا جاتا ۔ بلکہ حضرت عباس ؓ کے بعد آپ واحد بندہ خدا ہیں جن کو اس لقب سے نوازا گیا ۔ لوگوں کی اپنے اس خیر خواہ کے ساتھ آج تک جو عقیدت پائی جاتی ہے وہ بلا سبب نہیں بلکہ اس کی ٹھوس دلیل ہے اور اس عقیدت کی بنیادیں بہت ہی مضبوط ہیں ۔ محبان اولیاء کے لئے یہ بات بڑی اہم ہے کہ سائنس ، ٹکنالوجی اور بنیاد پرستی کے اس دور میں جبکہ مذہبی اقدار اپنی اہمیت کھورہی ہیں کشمیر میں نہ صرف دینداری کا رجحان بڑھ رہاہے بلکہ آج بھی سب سے بڑا طبقہ اولیاء اللہ کا حامی اور پرستار ہے ۔ اس درمیان شیخ العالم کے کلام کی گونج ہر فکر اور ہر مکتبہ کے منبروں اور محرابوں سے سنی جاتی ہے ۔