تحریر: جی ایم بٹ
مسلمان اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اسلام اپنے ماننے والوں سے نماز ، روزہ ، زکوات اور ایسی ہی عبادات کا تقاضا کرتا ہے ۔ یہی اصل اسلامی حیات ہے ۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان دن میں پانچ وقت کی نماز ادا کرنے والے کو اصلی مسلمان سمجھتے ہیں ۔ ان کا اپنے بارے میں بھی یہی خیال ہے اور دوسروں کو بھی اسی معیار پر پرکھتے ہیں ۔ جو کوئی پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے مکمل مسلمان کہلاتا ہے ۔ یہ واحد عبادت ہے جو کھل کر کی جاتی ہے ۔ حج بھی ایسی ہی عبادت ہے ۔ لیکن ہر کسی پر فرض نہیں ۔ اس کے بجائے ہر بالغ مسلمان پر نماز فرض ہے ۔ اسی تناظر میں کسی کے ایمان اور دین کو پرکھا جاتا ہے ۔ حدیث نبویﷺ میں بھی آیا ہے کہ مومن اور کافر میں فرق نماز ہے ۔ نماز کے بعد اپنا دین ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ہے ۔ اس کے بعد یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ میں اسلام کا خیر خواہ اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہوں ۔ بلکہ حق یہ ہے کہ نمازوں کا پابند شخص بڑا ہی پرہیزگار اور نیک سیرت انسان قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کی عزت کی جاتی ہے اور اسلام کے تناظر میں اس کو بڑا ہی اعلیٰ درجے کا مسلمان سمجھا جاتا ہے ۔ یہی اسلام کی کل اثاث بن کر رہ گئی ہے ۔ لوگوں کا قصور بھی نہیں ہے ۔ انہیں یہی تعلیم دی گئی ہے ۔ علما نے یہی بتایا ہے ۔ مولویوں نے یہی سمجھا یا ہے ۔ نماز کو اسلام کی بنیاد کہا گیا ہے ۔ اس بنیاد کو جو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہے وہی اسلام کا پاسدار اور محافظ ہے ۔ اس کے بعد کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی ۔ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اسلام عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات بہتر بنانے کی تعلیم بھی دیتا ہے ۔ بلکہ معاشرتی اور سماجی زندگی کے اطوار کو ہی اصل اسلام مانا گیا ہے ۔ مولویوں نے یہاں بھی ایک بڑی بد دیانتی کی ہے ۔ ان کی نظر لباس کا تراش خراش اصل معاشرتی زندگی ہے ۔ کھانے پینے کے آداب کسی کے اندر ایمانی حرارت کا اظہار ہیں ۔ سلام بجالانے اور دعائیں دینا اسلام کا اصل غرض و غایت بنایا گیا ہے ۔یہ سب چیزیں یقینی طور بڑی اہم ہیں ۔ لیکن دیانت داری یہ ہے کہ اسلام معاملات کو اس سے زیادہ اہم مانتا ہے ۔ نماز کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں منافق نمازوں کے بڑے پابند تھے ۔ بلکہ اولین دور میں مسجد نبوی کے علاوہ جو مسجد بنائی گئی وہ نماز کے لئے اور نماز کی سہولت کے لئے تعمیر کی گئی ۔ وہاں تو نماز ہی ادا کی جاتی تھی ۔ نماز کی آڑ میں اسلام کے خلاف سازشیں بھی تیار کی جاتی تھیں ۔ یہ رسولؐ کا زمانہ تھا ۔ جب اس زمانے میں نماز مکمل دین نہیں تھی تو آج یہ کیسے اصل دین بن گئی ۔ یہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ہے ۔
اسلام نے زندگی گزارنے کے لئے جو احکامات دئے ہیں وہ ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ بلکہ یہی اجتماعی زندگی ہی اصل معیار ہے ۔ تجارت میں کوئی شخص کس قدر کھرا ہے اس کا ایمان اتنا ہی مضبوط ہے ۔ رشتہ داروں کے ساتھ کس طرح کے معاملات ہیں یہی ایمان کا مظہر ہے ۔ لین دین میں کس قدر دیانت ہے یہی ایمان کی کسوٹی ہے ۔ آخرت میں صرف نماز کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہوگا ۔ بلکہ نمازوں کی حالت دیکھ کر اللہ ان سے کہے گا کہ ایک طرف ہوجائو ۔ روزوں ، زکوات اور حج کو کہا جائے گا کہ آج فیصلہ ان عبادات کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر ہوگا ۔ اسلام یہی ہے کہ دنیا کو کیسے چلایا جاتا ہے ۔ کمائی کیسے کی جاتی ہے ۔ اخراجات کیا ہیں ۔ معاملات کس نوعیت کے ہیں ۔ اٹھنا بیٹھنا کیسا ہے ۔ اسلام کی خدمت کا کیا حال ہے ۔ بلکہ حال اور چال کیا ہے ۔ اس طرح کی اسلامی ہدایات کو نظر انداز کرکے مسلمانوں کو ایک ایسے راستے پر ڈالا گیا ہے جو کسی طور اللہ کا پسندیدہ راستہ ہے نہ نبی پاک ؐ اس کی ہدایت دی ہے ۔ پیغمبر کی اپنی زندگی ایسی تھی نہ ان کے صحابہ صرف نماز تک محدود تھے ۔ یہ بڑا جھوٹ ہے کہ نماز کسی کی بزرگی ، دین پسندی اور نجات کا وسیلہ ہے ۔ وہاں تو معیار کچھ دوسرا ہے ۔ اسلام صرف نماز تک محدود ہوتا ۔ پانچ فرض نمازوں اور دوسرے نوافل تک محدود ہوتا تو ابو جہل اور ابو لہب کو ایسے اسلام سے کوئی خوف نہ ہوتا ۔ وہ نمازوں سے نہیں بدکتے تھے ۔ وہ نمازوں سے ناراض نہیں تھے ۔ وہ نمازوں سے خوف زدہ نہیں تھے ۔ وہ اسلام کے اس اصل معیار سے خوف زدہ تھے جو آج غائب کیا گیا ۔ وہ اسلام جو پوری زندگی کے اندر تبدیلی لانے پر زور دیتا تھا ۔ جہاں تجارت کا اپنا معیار تھا ۔ شادی بیاہ کے اپنے طور طریقے تھے ۔ دوستی اور دشمنی کے اپنے اصول تھے ۔ دوستی اور دشمنی کے لئے اپنی ہدایات تھیں ۔ جرم اور سزا کا اپنا دستور تھا ۔ انہی باتوں سے یہ لوگ ڈرتے تھے ۔ نمازوں پر ان کا کیا اعتراض ہوسکتا تھا ۔ یہ سب کل تک ایک ہی خدا کو مانتے تھے ۔ اکٹھے حج اور طواف کرتے تھے ۔ رسول ؐ نے ان عبادات کی بنیادیں نہیں بدلی تھیں ۔ بلکہ کعبہ کا احترام اب بھی برقرار تھا ۔ حج کا رواج آج بھی بحال تھا ۔ حاجیوں کے قافلوں پر کوئی روک ٹوک نہ تھی ۔ پھر جھگڑا کس بات اور لڑائیاں کس وجہ سے ۔ یہی کہ اسلام نے ایک نیا طرقیہ زندگی اپنانے پر زور دیا ۔ وہاں پہلے کی طرح غصب نہیں تھا ۔ لوٹ مار نہیں تھا ۔ اونچ نیچ نہیں تھی ۔ آج یہ سب باتیں اسلام سے نکالی گئی ہیں ۔ آج کا اسلام ابو جہلوں اور ابو لہبوں کی دسترس میں ہے ۔ اس پر منافقوں کا راج ہے ۔ اس پر لٹیروں کی حکومت ہے ۔ یہ ان لوگوں کی تحویل میں ہے جو لوگوں کو دو دو ہاتھ لوٹتے ہیں ۔ زکوات کے ٹکڑوں پر پلتے ہیں ۔ خیرات مستحقوں سے چھین کر اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہیں ۔ یتیموں کے نوالے ان سے لے کر اپنے لاڈلوں میں بانٹتے ہیں ۔ اجتماعی ملکیت کو ذاتی میراث بنانے میں لگے ہوئے ہیں ۔ نوابوں کی زندگی گزارنے والے یہ لوگ اسلام کے بغیر کوئی احکامات اس وجہ سے ماننے کو تیار نہیں کہ ان کی پہلی ضرب انہی مولویوں پر پڑتی ہے ۔ نماز ہی واحد آلہ ہے جو ان کے لوٹ کھسوٹ کو جائز بنانے کا آلہ ہے ۔ نماز پڑھ کر اس کی آڑ میں امت اسلامیہ کو لوٹنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ اسلامی لباس اور اسلامی عبادت ۔ یہی سارا اسلام ہے ۔ پھر جو کچھ من میں آئے کرتے جائو ۔ آپ بڑے مومن اور اعلیٰ درجے کے ولی اللہ ہیں ۔
