تحریر:این اے مومن
شریعت کا بڑا بھاری حصہ دماغ اور سوچ سے وابستہ ھے ۔ عقل سے ماوراء جو چیزیں تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کم ھے۔ مگر پتہ نہیں کیوں عام مسلمان تو عام خاص علماء بھی دماغ اور critical analysis کو چھوڑ گئے ہیں ۔ یہ حضرات سوچنا اور سوال اٹھانے کو پاپ سمجھتے ھیں ۔ ابھی بھی شریعت کے اندر بہت سی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ نئی ضروریات اور اشکالات کو ترجیحی طور رفع اور حل کرنے کی اہمیت باقی ھے۔
نئی باتوں اور افکار کے خلاف ہی نہیں نئے سوالات پر بھی بندشیں عائد اور غیرضروری فتووں کی برسات ہورہی ھے۔ جب انڈیا کے مسلمانوں کو میڈیا اور سماج نے جھنجھوڑ دیا اور چلنا دشوار بنادیا تب کسی کسی جگہ پر وہ عقل سے سوچنے کی کوشش کرنے لگے ھیں ۔ کشمیریوں کو حالات کی تند و تیز تھپیڑوں نے جب کپڑے بھی تارتار کردیئے تب جاکر کسی کسی دماغ میں کوئی کوئی سوال ابھرنے لگاھے اور ماضی کی کوئی کوئی غلطی غلطی محسوس ہونے لگی ھے ۔ نقصان اور اتلاف نے کھوئی چیز کی قدر دلادی مگر جب کسی نے سوال کیا تھا اور جواب مانگا تھا کہ دائرے کے سفر اور اندھیری کی گمنام گھاٹی سے گزرنا کیا فائدہ دیتاھے تب فتوے لگے تھے اور تلوار اٹھی تھی۔ ۔۔۔۔۔ اب غیر وقت (کوو وکھتس ) میں سوچ بچار سے بھی مفلوج حالات اور بے بسی کو بدلا نہیں جاسکتاھے۔ کیونکہ قاعدہ قدرت ھے : لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ۔
ٹھیک یہی حالت عصر حاضر میں مسلمانوں نے موجودہ دور کے اسلام کی بھی کررکھی ھے۔ خود وہ زبوں حال اور بد حال تھے ہی، اسلام کو بھی ملاوں، سیاستکاروں اور مفادپرستوں نے رگڑ رگڑ کر اتنا گھسیٹا اور overuse یا مس یوز کیا ھوا ھے کہ اب اس کی شناخت بھی بدل گئی ھے اور اسے آنے والے وقت میں آوٹ ڈیٹ اور مس فٹ ہونے کا پورا خطرہ موجود ھے۔
اسلام کے اندرونی صفوں اور روائتی بیانیہ میں اتنا تضاد اور عدم استحکام پیدا کیا گیا ھے کہ اسے سلامتی کیساتھ پٹری پر واپس لانا اور نئے حالات کے مطابق اُورہالنگ کرنا ناممکن سا عمل دکھائی دیتا ہے۔
ایک جانب کا المیہ یہ ھے کہ شریعت کو زمانے کے تغیر پذیر حالات سے دور رکھا گیاھے اور سائنٹفک مائنڈ کے خلاف اسے بطور حریف پروموٹ کیا جاتاھے دوسری طرف بد نصیبی اور المناک حقیقت یہ ھے کہ روحانیت اور تصوف کو لٹیروں اور ٹھگوں کے حوالے کیا جاتاھے۔ کرپٹ ،بدنام ،بدکردار ، بے ایمان فروش اور بددیانت، دنیا پرستوں نے تصوف کا بینر آویزاں کرکے لوگوں کو سیاستدانوں کی طرح خریدنا اور فروخت کرنا شروع کیاھے۔ آج کوئی حقیقی صوفی دکھتا نہیں۔ حقیقی فقیر کو دنیوی حرص اور نمودونمائش پسند نہیں وہ خلوتوں میں زندگی گزارتاھے مگر ان کے نام پر ڈابر(دف) بجانے والے بڑے بڑے جوگہ، قراقلی اور درویشی کے لباس پہنے لوگوں کو نچاتے ہیں ، روپیہ اور دولت جمع کرتے ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ نہ شریعت کو update کیا جاتاھے اور نہ ہی تصوف یا روحانیت میں وہ اخلاص اور تقوی باقی رہاھے۔لہذا ہم دین کے نام پر بے دینی اور دنیوی اغراض کو فروغ دے رہے ہیں۔ شریعت میں سائنٹفک اپروچ اپناکر کڑے سوالات کی حوصلہ افزائی، جواب دہی اور جدید طریقوں کے مطابق دین کی تعبیر نہ کی گئی تو شریعت ایک سوکھے درخت کی طرح ہوا کے کسی بھی جھونکے سے زمین بوس ہوجائے گا۔ روحانیت اور تصوف کے مقدس دائرے سے جاہ پرست دلالوں اور ٹھگوں کو نکال باہر نہیں کیا گیا تو یہ ہندووں کے ڈھونگی باباوں کی طرح اسلام کو شرک اور دھرم ٹریڈ کا مرکز بنادے گا۔ اس کے ردعمل میں الحاد اور لادینیت کو عروج ملے گا اور یہی نئےمستقبل کی نئی تشکیل سازی ہوگی۔
