تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
کئی ہفتوں سے اطلاع آرہی ہے کہ کشمیر سے بڑی تعداد میں زائرین عمرہ اور زیارت کے لئے جارہے ہیں ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ ائر پورٹ پر ان زائرین کا رش لگا ہوا ہے ۔ وہاں کام کرنے والے اہلکار حیران ہورہے ہیں کہ اتنی تعداد میں لوگ کیسے اس مقدس سفر پر جارہے ہیں ۔ پچھلے ایک سال کے دوران ایسی ایجنسیوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے جو خواہش مند لوگوں کو اس سفر پر لے جاتے ہیں ۔ پہلے ایسی کمپنیاں صرف سرینگر اور کچھ بڑے قصبوں میں پائی جاتی تھیں ۔ لیکن اب دوردراز علاقوں میں بھی اس طرح کے ادارے قائم کئے گئے ہیں جو لوگوں کو ایسی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ اگرچہ کئی ایسے اداروں کے بارے میں پتہ چلا کہ بڑے پیمانے پر لوگوں سے فراڈ کر رہے ہیں ۔ حال ہی میں کچھ زائرین نے الزام لگایا کہ انہیں عراق میں بے یار و مددگار چھوڑا گیا ۔ کھانا دیا گیا نہ کوئی دوسری سہولت مہیا کی گئی ۔ مغربی ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں نے انہیں دانہ پانی فراہم کیا جس سے وہ اپنے ہوش ٹھکانے رکھ سکے ۔ ایسا نہ ہوتا تو نہ معلوم ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آتا ۔ اس کے باوجود بڑے پیمانے پر لوگ اس سفر پر جارہے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ہر روز کم از کم پچاس ساٹھ مسافر سرینگر کے آئر پورٹ سے اس سفر پر روانہ ہوتے ہیں ۔ ایسے مسافروں میں کوئی کمی آنے کے بجائے ان میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔
عمرہ اور دوسرے مقدس مقامات کی ایارت کے لئے جانا بہت ہی حوصلہ افزا بات ہے ۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ زمین کی سیر کریں اور پرانی قوموں کا انجام دیکھ کر اپنے لئے زندگی گزارنے کا طریقہ متعین کریں ۔ مغربی ممالک میں رہنے والوں کے اندر ہماری نسبت اس چیز کا زیادہ شوق پایا جاتا ہے ۔ ہمارے یہاں لوگ زیادہ سے زیادہ حج یا عمرہ کا شوق رکھتے ہیں ۔ اس کے بعد سب کچھ سمیٹ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ اس کے پس پردہ ایک مذہبی جذبہ کارفرما ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس طرح کا شوق پالتے ہیں اور ہر وقت ایسے سفر کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں ۔ اسلام میں اس کی تاکید کی گئی ہے اور عمرہ و حج کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مشرق و مغرب اور جنوب و شمال حجاز مقدس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ۔ حالانکہ یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ ایسے سفر کے بعد لوگوں میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ہے ۔ حج کا فریضہ یا عمرہ کی سعدات حاصل کرنے کے بعد بھی لوگ سچے اور پکے مسلمان نہیں بن پاتے ہیں ۔ ھاجی تو بن جاتے ہیں لیکن حج کا اثر قبول نہیں کرتے ہیں ۔ اس دوران یہ بات دیکھنے کی ہے کہ لوگ جو زاد راہ لے کر اس مقدس سفر پر جاتے ہیں ان کا ذریعہ معاش کیا ہے ۔ ان کے آس پاس صورتحال کیا ہے ۔ عمرہ اور حج صرف مال دار لوگوں کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے پس پشت جہاں دوسرے بہت سے عوامل کارفرما ہیں وہاں یہ بات بھی ایک محرک ہے کہ مال دار لوگ کنجوس اور ذخیرہ اندوز نہ بن جائیں ۔ اپنے سرمایے کو بچابچا کر نہ رکھیں اور اپنے مال کے ڈھیر نہ لگائیں ۔ اللہ اور اس کے رسول کا منشا ہے کہ پیسہ گھروں میں جمع رہنے نہ دیا جائے بلکہ یہ بازار اور تجارتی منڈیوں میں گردش میں رہنا چاہئے ۔ پہلے صدقہ و زکوات کو فرض قرار دیا گیا ۔ پھر حج و عمرہ کی تاکید کی گئی ۔ تاکہ مال کا کچھ نہ کچھ حصہ امیروں کی تجوریوں سے نکل کر غریبوں تک پہنچ جائے ۔ لیکن بدقسمتی سے یہ مال امیروں کی جیبوں سے نکل کر امیروں کے ہی بینک کھاتوں میں جمع ہوجاتا ہے ۔ اس کی گردش سے عام لوگوں کو نہیں بلکہ سرمایہ داروں کو ہی فائدہ ملتا ہے ۔ یہاں امیر لوگ لوٹتے ہیں پھر عرب شیخ بڑے آرام سے اپنے لئے کمائی کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ اس چکر کے بیچ غریب لوگ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہتے ہیں ۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے ۔ علما ہماری سماجی زندگی اور پسماندہ طبقوں کی ضروریات کو دیکھنے کے روا دار نہیں ۔ ان کا اپنا کھیل تماشہ امیروں کے مشغلوں سے چلتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ساری توجہ امیر لوگوں پر لگی ہوئی ہے ۔ ان کے چونچلے اٹھانا علما کے لئے پہلی ترجیح ہے ۔ امیروں کو رجھانا اور انہیں اپنے جال میں پھنسانا ان کا اولین کام بن گیا ہے ۔ غریبوں پر وقت ضایع کرنے کو یہ لوگ تیار نہیں ۔ ورنہ کیا بات ہے کہ یہاں کم سن بچے خود کشی کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں ۔ اپنے گھر کی حالت زار انہیں دریائوں میں چھلانگ لگانے اور پھانسی پر لٹکنے پر مجبور کرتی ہے ۔ علما ان واقعات سے ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ لوگ بڑی تعداد میں حج اور عمرہ کے لئے جاتے ہیں ۔ اس دوران ان کی بغل میں موجود ایک غریب گھرانہ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی دینے کی سکت نہیں رکھتا ۔ کیا عمرہ کرنے اور حج کا فریضہ اناجم دینے کے بعد ہم اپنے ہمسایوں کے حقوق سے مبرا ہوجاتے ہیں ۔ کیا نمازوں اور روزوں کی ادائیگی سے ہم قیامت کے دن بستی کے حاجت مندوں کے بارے میں حساب لینے سے چھوٹ جائیں گے ۔ دین تو یہ بات نہیں مانتا ۔ اللہ کے رسول نے ایسی کوئی چھوٹ نہیں دی ہے ۔ دین میں اس طرح کا کوئی Discount نہیں ۔ حج کے بعد کوئی بھی شخص نماز کو ترک نہیں کرسکتا ۔ نماز ادا کرنے سے روزوں میں کوئی چھوٹ نہیں ملتی ۔ اسی طرح حج اور عمرہ کے بعد لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں کوئی تساہل قابل قبول نہیں ۔ بلکہ ایسے لوگوں سے زیادہ باز پرس ہوگی ۔ جو لوگ بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے حج اور عمرہ کے لئے جاتے ہیں ۔ ان کے ہمسایے آہیں بھر بھر کر اللہ سے اپنی محرومی کی شکایت کرتے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر غریب خود کو بڑا ہی بے بس اور کمزور محسوس کرتے ہیں ۔ اس کا سبب اور ذمہ دار ہو لوگ ہیں جو ان سے آنکھیں بند کرکے مقدس اسفار پر جاتے ہیں ۔ شاید ایسا کرنا اللہ کی بارگاہ میں قابل قبول نہیں ۔ اسلام کے ابتدائی زمانے سے لے کر اولیا اللہ اور صوفیا کے زمانے تک ایسی روایات نہیں تھیں ۔ ان کے یہاں حج کے لئے جمع کیا گیا سرمایہ ہمسایوں کی بھوک مٹانے پر خرچ ہونا ایک سعادت سمجھا جاتا تھا ۔ نصف صدی پہلے ایسی ہی کہانیاں سنائی جاتی تھیں اور اس کو جائز سمجھا جاتا تھا ۔ لیکن اب جو دین کا نیا ایڈشن پایا جاتا ہے وہاں لوگوں کے حقوق دن دہاڑے پامال کئے جاتے ہیں ۔ بس حج اور عمرہ کا سرٹفکیٹ ہوتو جنت کا پروانہ یہی سب کچھ ہے ۔ باقی اللہ جانے اور اس کا رسول ۔
