تحریر:ڈاکٹرجی ایم بٹ
یہ کمال اتاترک کا ترکی ہوتا تو زلزلہ آنے کی دسیوں وجوہات بیان کی جاتیں ۔ہم کہتے کہ آفت گناہوں کے بوجھ کی وجہ سے نازل ہوئی ۔ سیکولر ترک کے اندر تباہ کن زلزلے کے لئے بے حیائی اور بے پردگی اس کا سبب مانے جاتے ۔ اس زمانے میں گھر تباہ اور لوگ مارے جاتے تو اسلام سے دوری اس کی وجہ قرار دی جاتی ۔ آزاد خیالی کے دور میں اتنی بڑی مصیبت نازل ہوتی تو شراب خانوں اور قحبہ خانوں کو اس کا ذمہ دار مانا جاتا ۔ پھر ہم اسلام کی طرف واپس آنا اس کا واحد حل قرار دیتے ۔ لیکن پچھلی دو دہائیوں سے یہ صورتحال تو نہیں ۔ ترکیہ واحد ملک ہے جہاں اسلام کی سرپرستی کی جاتی ۔ جہاں کی مسجدیں آباد ہیں ۔ جہاں اسلامی دستور نافذالعمل ہے ۔ جہاں اسلامی عبادات کا بہت زیادہ چلن ہے ۔ وہاں اب بے پردگی نہیں بلکہ خاتون اول بھی نقاب اوڑھ کر ہی گھر سے نکلتی ہے ۔ داخلی اور خارجہ پالیسی کے لئے اسلام بنیادی محرک سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود وہاں زلزلہ آیا ۔ یہ کوئی معمولی بھونچال نہیں ۔ کم شدت والا زلزلہ نہیں ۔ بلکہ پوری شدت کے ساتھ زمین ہلادی گئی ۔ گھر اجاڑ دئے گئے ۔ بستیاں الٹ دی گئیں ۔ اب تک 15000 ہزار کے لوگوں کے مارے جانے کی اطلاع ہے ۔ صدر نے خود اعتراف کیا کہ انتظامی کوتاہی ہوئی ہے ۔ اس اعتراف سے ہلاکتوں کا مداوا نہیں ہوسکتا ہے ۔ ایک بار پھر بجلی گری تو بیچارے مسلمانوں پر ۔ عام اور نچلی سطح کے مسلمانوں پر نہیں ۔ بلکہ صحیح معنوں میں مسلمان کہلانے والے لوگوں پر آفت آگئی ۔ وہ لوگ جو اسلام کی حفاظت کی خاطر ووٹ دیتے ہیں ۔ جنہوں نے اسلام کی حفاظت کے لئے فوج کی مداخلت کے سامنے سینے تان دئے اور فوجی انقلاب کو ناکام بنایا ۔ امریکہ اور یہود کی سازش قرار دی جانی والی کوششوں کو ناکام بنایا ۔ اسلام کے یہی محافظ آج زندگی کی سرگرمیوں میں مصروف تھے ۔ اپنے گھروں میں بیٹھے تھے ۔ کوئی رنگ رلیاں نہیں منارہے تھے ۔ جام جم کی محفلوں میں مصروف نہیں تھے ۔ گانے اور ناچنے میں مصروف نہیں تھے ۔ اس کے باوجود انہیں اللہ نے گھیر لیا اور سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔
کسی ایسے ملک میں کوئی چھوٹی یابڑی آفت آجائے جہاں اسلام دشمنی یا اہانت رسول کے واقعات پیش آتے ہیں تو علما اسے اللہ کا غضب اور اسلام سے نفرت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔ بڑی ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے کہ یہ ان پر اللہ کی طرف سے ان کے گناہوں کی شامت اعمال ہے ۔ پرانی قوموں کی تاریخ دہرائی جاتی ہے ۔ ایسے موقعوں پر قرآن کی جو آیات بیان کی جاتی ہیں اور جو احادیث پیش کئے جاتے ہیں ۔ ان کی حقیقت اور دانشمندی سے انکار نہیں ۔ لیکن پس منظر سے بے خبری بلکہ جان بوجھ کر من پسند تاویلات کی وجہ سے کبھی سب کچھ الٹ پلٹ کر رہ جاتا ہے ۔ حال ہی میں فرانس میں قرآن پاک کے نسخے جلائے گئے ۔ زلزلہ جب آنا ہی تھا تو انہی اللہ اور قرآن کے دشمنوں پر آنا تھا ۔ اس طرح کی غضبناک حرکت پر بھی وہ لوگ بڑے اطمینان سے زندگی گزار رہے ہیں ۔ وہاں مکھی یا مچھر کا پر بھی اس وجہ سے نہیں کاٹا گیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں آخرت میں اس کا جواب دینا ہوگا ۔ قرآن جلانے سے اللہ کی شان میں کوئی فرق آتی ہے نہ اہانت رسول سے شان نبی میں رتی بھر اثر پڑتا ہے ۔ ایسی حرکتوں سے اسلام مٹ جاتا ہے نہ مسلمانوں کے ایمان میں کوئی فرق آتا ہے ۔ البتہ علما کی کم علمی اور بے خبری پر ضرور افسوس ہوتا ہے ۔ یہ لوگ اسلام سے واقف ہیں نہ قدرت کے نظام سے جانکاری رکھتے ہیں ۔ ان کی سوچ کے دیوالیہ پن پر ضرور حیرانی ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ اسلامی تعلیمات کے من مانے مطالب نکال کر پھر انہیں بھرے مجمعے میں پیش کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود کہ اللہ کے رسول نے ایسی کوئی تعلیم دی ہے نہ صحابہ نے ایسے معنی و مطالب کہیں پیش کئے ۔ اصحاب رسول سے بڑھ کر کون دین کی تعلیمات سے باخبر ہوسکتا ہے ۔ ان کے دور میں بھی سیلاب آئے ۔ زلزلے آئے ۔ وبائی بیماریاں پھیلیں ۔ صحابہ نے ان آفات سے عبرت حاصل کرنے کی ضرور نصیحت کی ۔ لیکن کہیں ان کی وجوہات اور اسباب کو لوگوں کی بے عملیوں سے نہیں جوڑا گیا ۔ کسی صحابی نے اس کے لئے لوگوں کے اعمال کو ذمہ دار قرار نہیں دیا ۔ ہمارے علما کا یہ وطیرہ ہے کہ ہر ایسے موقعے پر یہی اعلان کرتے ہیں کہ ان کی ذات سے دوری کی وجہ سے ایسی آفات نازل ہوتی ہیں ۔ باور کرایا جاات ہے کہ جو لوگ بچ گئے ہیں علما کی نیکیوں اور ان کی پرہیز گاری کی وجہ سے بچ پائے ۔ ورنہ سب کچھ تباہ و برباد ہوجاتا ہے ۔ یہ صرف زبان کی حد تک نہیں ۔ بلکہ یہ نام نہاد علما واقعی اس زعم میں ہیں کہ روئے زمین پر ان سے بہتر کوئی مخلوق نہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ دین کے علم سے یہی لوگ واقف ہیں اور سچے عبادت گزار یہی مدرسوں کے پالے پوسے لوگ ہیں ۔ ذہنی دیوالیہ پن کے شکار یہ لوگ بڑی غلطیوں فہمیوں کا شکار ہیں ۔ ورنہ انہیں جرات نہ ہوتی کہ قرآن اور احادیچ کی من مانی تاولیں پیش کرتے ۔ اپنی علم و دانش اور نیکیوں کی نمائش کرتے ۔ اسلام پر قبضہ جماکر کسی کو اس طرف آنکھ اٹھانے کی اجازت نہ دیتے ۔ آج ایک بار پھر ان کے مبلغ علم کی نشاندہی ہوئی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں لوگ اور سامعین بھی ایسے ملے ہیں جو ان کی باتوں کو عین دین سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ دین کچھ اور ہے ملازم کچھ اور ۔
