تحریر:مدثر احمد قاسمی
انسان اپنی زندگی میں کبھی کچھ ایسا کام کرلیتا ہے جس کا نتیجہ سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان وہ کام خود ساختہ نظریئے کی بنیاد پر کرتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ اس طرح کے کاموں میں ایک بکثرت انجام پانے والا کام دوسروں کے بارے میں بلا وجہ کوئی رائے قائم کر لینا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کے ظاہری احوال کو دیکھ کر یہ سوچ لینا اور مان لینا کہ فلاں شخص بہت بدمزاج ہے، غصے والا ہے اور اسی وجہ سے قابل نفرت ہے۔ حالانکہ جس شخص کے تعلق سے ہم یہ نظریہ رکھتے ہیں، جب ہم اس سے بلا واسطہ معاملہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات کھلتی ہے کہ یہ شخص تو بہت نرم دل، خوش مزاج اور محبت کئے جانے کے لائق ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم دوسروں کے حوالے سے خود ساختہ منفی رائے قائم کرکے نہ صرف اپنا دنیاوی نقصان کرتے ہیں بلکہ اپنی آخرت اور عاقبت بھی خراب کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ پر غور کریں اور اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں:’’اے ایمان والو ! بہت سارے گمانوں سے بچو ؛ کیونکہ بعض گمان (یعنی بدگمانی) گناہ ہوتے ہیں اور ٹوہ میں نہ پڑا کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کیا کرو ، کیا تم میں سے کسی کو یہ بات اچھی لگے گی کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ؟ اس سے تم نفرت کرتے ہو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔‘‘ (الحجرات:۱۲)
اس آیت کریمہ سے ہمیں اس بات کا واضح علم ہوتا ہے کہ اگر ہم بلا وجہ کسی کے تعلق سے غلط رائے قائم کرتے ہیں تو ہم گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر ہم حقوق العباد کو پیش نظر رکھ کر معافی نہیں مانگیں گے اور تو بہ نہیں کر یں گے تو ہمیں آخرت میں سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمؐ نے بھی ہمیں اس روحانی بیماری سے بچنے کی تاکید کی ہے۔
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کر تے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’ بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
آج اگر ہم معاشرے کا جائزہ لیں تو بدگمانی کے تعلق سے ایک عجیب منظر ہمارے سامنے یہ ہوگا کہ شاذ و نادر ہی لوگ اس بیماری سے محفوظ نظر آئیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سماج کا ہر طبقہ دوسرے طبقے کے تعلق سے بدگمان ہے۔ کہیں تو ہمیں علماء کے تعلق سے دنیا پرستی کے شکوے نظر آئیں گے اور کہیں دانشوروں کے حوالے سے بد دیانتی کا لیبل نمایاں نظر آئے گا، کہیں میاں بیوی کے درمیان شک کی نظریں ہوتی ہیں تو کہیں والدین اور بچوں کے درمیان ناانصافی کا شکوہ سنائی دیتا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو جو کسی بھی معاشرے کے تانے بانے کو بکھیرنے کیلئے کافی ہے۔
اس صورتحال میں ہم اپنے معاشرے کو کس طرح ترقی اور کامیابی کے راستے پر گامزن دیکھ سکتے ہیں؟اس بدگمانی کا علاج کیا ہے؟ اس سوال کا جواب علمائے ربانیین نے یہ دیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ہر کام اللہ کیلئے کرنے کا عادی بنائیں اور اپنی خواہشات کو دین متین کے تابع کردیں، اس کے بعد ہم (ان شاء اللہ) کسی کے تعلق سے غلط رائے قائم کرنے اور بدگمان ہونے سے پہلے اللہ اور رسولؐ کے حکم کو ضرور دیکھیں گے اور اس طرح بدگمانی کے گناہ میں مبتلا ہونے سے بچ جائینگے۔
اسی نکتے کو ایک اور زاویئے سے حسن بصریؒ نے اس طرح سمجھایا ہے کہ’’ دو خیالات ہر انسانی دل میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ایک خیال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے جو انسان کو نیکی اور سچائی کی طرف راغب کر تا ہے اور دوسرا خیال شیطان کی طرف سے آتا ہے جو انسان کو حق اور بھلائی سے روکتا ہے۔ جس شخص کا دل بدگمانی میں مبتلا ہو ،شیطان اس کیلئے کینہ، بغض اور ٹوہ جیسے گناہ سرزد کروانے کیلئے راہ ہموار کرتا ہے۔‘‘
کیا ہی بہتر ہو اگر ہم اپنی بدگمانی کو خوش گمانی سے بدل لیں کیونکہ اس صورت میں ہمارا یہ عمل بھی عبادت شمار ہوگا، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ حسن ظن رکھنا حسن عبادت میں سے ہے۔‘‘ (ابوداؤد)
