تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
ماہ صیام بڑے خیر و برکت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ لوگوں نے اپنے طور بڑی کوشش کی کہ اس مہینے کے ادب و احترام کا خیال رکھا جائے ۔ اس دوران جو روزہ دار تھے انہوں نے اس کے فیض و برکت سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کی ۔ جو کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکے انہوں نے بھی اس کے حدود کا پورا خیال رکھتے ہوئے اس کی برکات سے فیضیاب ہونے کی کوشش کی ۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ مہینہ ہمارے لئے مغفرت اور اللہ کی خوش نودی کا باعث بنے گا ۔ آخرت میں اس کی وساطت سے نجات مل جائے گی ۔ ماہ صیام کے روزے اصل میں اسی غرض سے رکھے جاتے ہیں تاکہ آخرت میں یہ سرخ روئی کا باعث بنیں ۔ باقی اس کا کوئی دوسرا غرض و غایت نہیں ۔ ایسا نہ ہوتا تو آدمی لوگوں کے درمیان روزوں کا مظاہرہ کرکے تنہائی میں آرام سے کچھ کھا پی سکتا تھا ۔ لیکن ایسا نہیں کیا جاتا ہے ۔ یہی روزوں کا مقام ہے کہ ان سے اللہ کے خوف کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے ۔ اللہ کی ذات پر ایمان رکھنے کے علاوہ ایک مسلمان اس کی شان کا بھی اعتراف کرتا ہے ۔ پورے ایک مہینے روزے رکھ کر یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ ہماری عیاں زندگی کے علاوہ پوشیدہ حالات سے بھی باخبر ہے ۔ اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ اللہ ہمارے دلوں تک کے حال جانتا ہے ۔ لہذا زندگی اسی کے فرمان کے منابق گزاری جائے ۔ ماہ رمضان اس کی تربیت کرتا ہے اور اس کے عملی مظاہرے کا مطالبہ کرتا ہے ۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جبکہ خوف خدا محض زبانی اظہار تک محدود ہوکر رہ گیا ہے مسلمان بڑی حد تک ماہ صیام میں اس کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ لیکن بدقسمتی یہ تصور آہستہ آہستہ سکڑتا جارہا ہے اور اسلام ایسے ہی چند رسوم کا نام بن کر رہ گیا ہے ۔ نماز ، روزہ اور حج جیسی عبادات انجام دینے کے بعد آدمی خود کو اللہ کا سب سے محبوب بندہ سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ مسجدوں کے بھرجانے کے بعد سڑکوں اور چوراہوں پر نماز ادا کی جاتی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو نماز کی اہمیت کا احساس ہے ۔ اس کے باوجود یہ کہنا بے جا نہیں کہ نماز کا عملی زندگی پر زیادہ اثر نظر نہیں آتا ہے ۔ نماز محض کمر جھکانے یا ماتھا ٹیکنے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا ایک واضح مقصد ہے کہ نماز برائیوں سے دور اور نیکیوں کے نزدیک کرتی ہے ۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ بار بار سمجھانے کے باوجود نماز کا ہماری عملی زندگی پر کچھ زیادہ اثر نظر نہیں آتا ہے ۔ یہی حال روزوں کا ہے ۔ روزے یقینی طور رکھے جاتے ہیں ۔ روزوں کے ایام کے دوران بیشتر ہوٹل اور دوسرے ایسے تمام مراکز بند رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود روزوں کا مزاج کہیں نظر نہیں آتا ہے ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ روزے فاقوں اور پیاس کا نام نہیں ۔ اللہ انسان کو بھوکا رکھنا اور پیاس سے تڑپانا نہیں چاہتا ہے ۔ اللہ کا یہ منشا نہیں کہ آدمی کھانا ترک کرکے اور پیسا رہ کر تڑپتا رہا ۔ اتنا کچھ اللہ کو پسند نہیں ۔ بلکہ اللہ ایک ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے جو پورا سال ایک مسلمان کا آئیڈیل بنا رہے ۔ اس ایک مہینے کے دوران جس نظم و ضبط کا خیال رکھا گیا وہ محض ایک مہینے تک محدود نہیں ہونا چاہئے ۔ حلال چیزوں کو صبح سے شام تک ترک کرکے اللہ کے آڈر کی پاسداری کرکے ماہ صیام کے بعد اللہ کے احکامات کو ترک نہیں کرنا ہے ۔ ایسا کیا گیا تو ماہ صیام کے دوران اللہ کے احکامات کی پابندی کچھ زیادہ وقعت نہیں رکھتی ۔ ایک مسلمان جب ماہ صیام کے دوران ہر اچھی اور نیک خواہش بھی اللہ کی خوشی کے لئے ترک کرنے پر تیار ہے ۔ تو کیا وجہ ہے کہ ماہ صیام کے ختم ہوتے ہی وہ اللہ کا کوئی حکم ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ ماہ صیام میں حلال سے کنارہ کشی کی جاتی ہے ۔ ماہ صیام کے بعد یہی روزہ دار مسلمان حرام کمائی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ۔ ماہ صیام کے دوران جن حدود کا خیال رکھا جاتا ہے ماہ صیام ختم ہوتے ہی تمام حدود وقیود کو تہس نہس کیا جاتا ہے ۔ ماہ صیام کے دوران ضرورت مند وں کے لئے سحری اور افطاری کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ ماہ صیام کے بعد ان ہی غریبوں کا حق مارا جاتا ہے ۔ ان کی کمائی پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ۔ ان کی جیبیں کاٹی جاتی ہیں ۔ ان سے ان کی کمائی چھین لینا کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ وہ جو ماہ صیام کے دوران بڑھ چڑھ کر غریبوں کی خدمت میں حصہ لیتے ہیں ماہ صیام ختم ہوتے ہی استحصال کا ہر طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمیں ماہ صیام کے روزوں کا کچھ پتہ ہے نہ ان کے مقصد سے کوئی غرض ہے ۔ ماہ صیام میں ہم یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم جیسا نیک اور سچا مسلمان کوئی نہیں ۔ یہ مہینہ ختم ہوتے ہی تما م ایسے کاموں سے ہمارا رشتہ کٹ جاتا ہے ۔ یہ کھوکھلا پن ہی اصل میں منافقت ہے ۔ ہمارے لئے منافقت مدینے کے چند لوگوں تک محدود تھی ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ ہمارے کرتوت ہمیں اسی صف میں شامل کرتے ہیں ۔ آج ہم بڑی دوڑ دھوپ کرتے ہیں کہ کسی طرح سے حج کا ٹکٹ مل جائے ۔ حج کی سعادت نصیب ہوجائے ۔ لیکن حج سے واپسی پوری طرح شرمندگی کا باعث بن جاتی ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ ہماری ذات پر ایسی عبادات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ سب یہی ہے کہ ہمارے اندر بہت حد تک مدینے کے منافقوں کے اثرات موجود ہیں ۔ ہم اسلامی عبادات کے لئے دوڑ پڑتے ہیں ۔ لیکن ان سے حاصل ہونے والے اثرات کو قبول نہیں کرتے ۔ اسلامی عبادات محض پوجا پاٹ نہیں ۔ بلکہ عملی زندگی اک پرتو ہیں ۔ اس سے ماورا عبادات کی کوئی اہمیت نہیں ۔ آج ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ عید منائیں ۔ ماہ صیام کے بعد عید کی آمد یقینی طور خوشی کی باعث ہے ۔ ماہ صیام کی رخصتی ملال کا باعث ہے ۔ لیکن ہمیں ماہ صیام سے کچھ حاصل ہوا نہ عید کی خوشیوں میں شامل ہوکر کچھ ملنے والا ہے ۔ سب بے اثر ، بے مقصد اور بے فائدہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ناکامی ہمارا مقدر ہے ۔
