• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم ادب نامہ

پروین شاکر: سندھو دریا کی محبت میں ایک نظم

Online Editor by Online Editor
2023-05-07
in ادب نامہ
A A
پروین شاکر: سندھو دریا کی محبت میں ایک نظم
FacebookTwitterWhatsappEmail

نصرت زہرا حسین

پروین شاکر کی شاعری میں موجود درد مندی اور کھرا پن ان کو ایک رجحان ساز شاعرہ بناتے ہیں حالانکہ ان کی شاعری ایسی نہیں جسے چوراہوں پر پڑھا جائے یا جلسوں کی زینت بنایا جائے اور جسے سننے کے بعد اہل جلسہ اور مجمع میں جوش و خروش پیدا کیا جائے تاہم اس کے باوجود ان کی شاعری ایک طلسم ہے۔ جسے آپ جب پہلی بار پڑھتے ہیں تو تاعمر اس کے حصار سے باہر نہیں آ سکتے۔ ہم نے ان کے فن پر۔ ایک تحقیقی مقالے کے دنوں میں ان کی شاعری کے ان پہلووں کو بھی دیکھا کہ جو وطن، زمین اور اس کی اساس میں پیوست ہیں جو غالباً ان کے فنی ارتقا کے لیے محققین کا موضوع بنیں گے۔ ان کا اخری مجموعہ انکار اپنے اندر ماہ تمام کی سی حیثیت رکھتا ہے جسے انہوں نے 1990 میں طبع کیا۔ اس کتاب کے طبع ہونے کے دو برس بعد وہ مزید تعلیم کے لئے امریکہ گئیں جہاں فاضل وقت میں وہ دو یونیورسٹیوں اور ایک کالج میں جنوبی ایشیا کا ادب پڑھاتی رہیں۔ اس دوران ان کے ایک کورس انچارج پروفیسر مارون کالپ جو پریس، سیاست، اور پبلک پالیسی کے مضامین پڑھاتے تھے وہ پروین کی بہت قدر کرتے تھے اور انہیں بہت ذہین سمجھتے اپنے ایک حوالہ جاتی مضمون میں انہوں نے لکھا کہ پروین سیاسیات میں گہری دلچسپی لیتی اور جلد تصورات کو سمجھ جاتی اس کے ساتھ آپ کسی بھی موضوع پر بات کریں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت کر چکی ہے اور اس کا مطمح نظر واضح اور صاف ہوتا ہے جس میں ابہام نام کی کوئی چیز دریافت نہیں کی جا سکتی۔
یہی وجہ ہے کہ وہ جو لکھتی اسے فوراً پذیرائی اور توجہ حاصل ہوتی اس کا بیشتر کلام اجتماعی حافظوں کا حصہ بن چکا ہے۔ پروین شاکر کی زیر نظر نظم سندھو دریا کی محبت کئی حوالوں سے اہم ہے ایک حوالہ تو یہ کہ ان کا اپنا تعلق سندھ سے ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں انہوں نے سندھ کے باسیوں کو درپیش مشکلات کو بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیا ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں قومیت کی بنیاد پر بہت سے مقامات پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تو اس وقت بھی انہیں بڑے صوبے سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی تعصب کا نشانہ بنایا گیا تاہم انہوں نے اپنے ٹیلنٹ کی بنیاد پر کامیابیاں حاصل کیں اس ضمن میں ان کی محنت ہی ان کا سب سے بڑا میرٹ رہی۔
سندھو دریا کی محبت میں ایک نظم
ہریالی دریا کے دونوں جانب ہوتی ہے
وہ پہاڑوں اور میدانوں میں بہتے ہوئے
پتھروں اور پھولوں سے یکساں سلوک کرتا ہے
مچھلیاں پکڑتے ہوئے
کبھی کسی مچھیرے سے اس کا ڈومیسائل نہیں مانگتا
بلکہ شکریے کا انتظار کیے بغیر آگے بڑھ جاتا ہے
ہوا اور بادل کی طرح مہربان اور بے نیاز
مگر جب اس کے کنارے پر رہنے والے
اس کے پانیوں میں نفرتیں ملانے لگیں
اور بچوں اور پھولوں کو
والیوں اور مالیوں کا شجرہ دیکھ کر
پانی کا پرمٹ جاری کرنے لگیں
اور یہ سلسلہ بہت دیر تک چلتا رہے
تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے
کہ ایسے موقعوں پر
دریا اپنا جغرافیہ تبدیل کر لیتے ہیں
میرا خیال ہے
ہمارے لیے
فی الحال ایک موہنجوداڑو کافی ہے۔
ان کی وطن پرستی اور وفاداری پر ایک مہر اثبات ان کی محبانہ نظمیں پڑھ کر بھی ثبت ہوتی ہے۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

پاکستان میں شیعہ اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف سرینگر میں احتجاج

Next Post

امرتا پریتم کا’’آخری خط‘‘

Online Editor

Online Editor

Related Posts

خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

2024-11-17
ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

2024-11-17
کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

2024-11-13
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

2024-11-03
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں

ادب ، نقاد اور عہدِجنگ میں ادبی نقاد کا رول

2024-11-03
موبائل فون کا غلط استعمال !

موبائل فون!

2024-10-20
Next Post
امرتا پریتم کا’’آخری خط‘‘

امرتا پریتم کا’’آخری خط‘‘

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan