تحریر:ڈاکٹرافضل مصباحی
اردوزبان وادب کی ترویج واشاعت میں خواتین کاکردارتاریخی حیثیت کاحامل ہے۔ خواتین نے شعری ونثری تمام اصناف میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔اس لئے اردوناول نگاری کی تاریخ بھی خواتین کی تخلیقات کاتذکرہ کئے بغیرمکمل نہیں ہوسکتی ہے۔ خاتون ناول نگاروں کی لمبی فہرست ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ خواتین نے مردوں کے بعداردومیں ناول نگاری کاآغازکیا، لیکن جب سے انھوں نے اس کی طرفپیش قدمی کی؛ عورتوں کے مسائل ناول میں شدت کے ساتھ زیربحث آنے لگے۔اس کامطلب یہ ہرگزنہیں ہے کہ مردناول نگاروں نے خواتین کے مسائل پربحث نہیں کی ہے، ہاں اتناضرورہے کہ خواتین تخلیق کاروں نے فطری طورپرجس اندازمیں عورتوں کے مسائل کوپیش کیا؛اس کی اپنی علیحدہ شناخت ہے۔ خاتون ناول نگاروں نے اپنے موضوعات میں تعلیم نسواں، خانگی زندگی کے مسائل، عورتوں کی آزادی، صبروایثار، اہل خانہ کے لئے ان کی قربانیاں، پاکدامنی،مردوں کے مظالم، عورتوں کی اصلاح، سماجی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی میں عورتو ں کی اہمیت، انھیں آگے لانے کی جدوجہد،عورتوں کی نفسیات اورکشمکش وغیرہ کواپنے ناولوں میں جگہ دیہے۔یہی سبب ہے کہ بہت جلدوہ دوربھی آگیاجب خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ اپنی تخلیقات کالوہامنواناشروع کردیا۔زیرنظرمقالہ میں جن خاتون ناول نگاروں اوران کے ناول پربحث کی گئی ہیں؛ ان میں ساجدہ زیدی،ڈاکٹرصادقہ نواب سحرؔ، ترنم ریاض،آشا پربھات، ڈاکٹر نسرین بانو، ڈاکٹر خوشنودہ نیلوفر،جیلانی بانو،نوشابہ خاتون، شائستہ فاخری، قمرجمالی،فرح دیبااور ثروت خان وغیرہ شامل ہیں۔
ساجدہ زیدی کاناول ‘مٹی کے حرم’ ۲۰۰۰ء میں منظرعام پرآیااور خوب مقبول ہوا۔ ‘مٹی کے حرم’ میں انھوں نے وقت کی حقیقت کو جس طرح واضح کیاہے، یہ انہی کاحصہ ہے۔اس میں وہ ایک فلسفی کی حیثیت سے سامنے آئی ہیں۔اسے پڑھ کراندازہ ہوتاہے کہ ان کے نزدیک زندگی کسی منصوبے کانام نہیں بلکہ زندہ رہنے کانام زندگی ہے۔اس ناول میں زندگی کی تگ ودو، آرزوؤں، محبتوں اور محرومیوں کی ایک طویل داستان ہے جوجیتے جاگتے کرداروں کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔اس میں جذبات کاتلاطم، انسانی ارواح کی کربناک تصویراور سماج کے متوسط طبقے کی ایک دردناک داستان ہے، سماجی عدم مساوات اور طبقاتی چپقلش کو جس اندازمیں مصنفہ نے پیش کیاہے، اسے پڑھ کرپورامنظرنامہ نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگتاہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ ناول نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہے، جو اسے گمراہی سے بچانے میں کلیدی کرداراداکرسکتاہے۔ڈاکٹرشہاب ظفراعظمی لکھتے ہیں:
‘‘کافی حدتک تقسیم ہندکے پس منظرمیں لکھاجانے والایہ ناول اپنے تسلسل کے اعتبارسے جگ بیتی بلکہ آپ بیتی کے قریب ہے، جس میں معاشرے کو محض زوال پذیردکھاکرحق محنت اداکرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ فسادات سے کیمپوں کی زندگی تک کی منظرکشی میں پس منظرکو پوری طرح سامنے رکھ کرزندگی کانفسیاتی مطالعہ پیش کیاگیاہے۔اپنے نفسیاتی تجزیے کے تحت مصنفہ نے ان تمام محرکات اور حقائق کاباریک بینی کے ساتھ مطالعہ کیاہے جوسرسری نگاہ ڈالنے والوں کی شناخت میں ہرگزنہیں آسکتے۔نئی نسل کوحسن پرواز، آزادی اور کائنات کے ہرذرے کے ساتھ خالق کائنات سے محبت سکھانے کاعزم اس ناول کو زندگی کی حقیقی مسرتوں کی تلاش میں اس منزل سے ہمکنارکرتاہے جس کی جستجومیں رائیگاں جانے والے فلسفوں اور ہدایتوں سے یہ دنیاآج بھی خالی نہیں’’۔ ۱
خاتون ناول نگاروں نے دہشت گردی کے موضوع پربہت کچھ لکھاہے۔اس کی ایک بڑی وجہ دہشت گردی سے عورتوں اور بچوں کا سب سے زیادہ متاثرہوناہے۔جہاں کہیں فسادات ہوتے ہیں اور دہشت گردی کی واردات انجام دی جاتی ہیں، وہاں عورتیں کئی طریقے سے مظالم کاشکارہوتی ہیں۔ شوہروں اور سرپرستوں کی عدم موجودگی سے عورتوں کاجیناکس طرح حرام ہوجاتاہے؛ اس کا صحیح اندازہ ان عورتوں کو ہی ہوسکتاہے، جو ان حالات سے دوچارہوچکی ہیں۔چنانچہ عورتوں کے متاثرہونے کی وہ تمام صورتیں کچھ خاتون ناول نگاروں کی تحریروں میں نمایاں طورپردیکھی جاسکتی ہیں۔کئی ناولوں میں کشمیرکے حالات بھی زیربحث آئے ہیں۔یہ وہ خطہ ہے جو تقریباً نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے دہشت گردی کاشکاررہاہے اور آج بھی یہاں آئے دن دہشت گردی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔مرنے والوں میں زیادہ ترمردہوتے ہیں اور ان پررونے اور آنسوبہانے کے لئے عورتیں اور بچے زندہ رہ جاتے ہیں ؛ جو پوری زندگی روتے روتے بسرکردیتے ہیں۔ان کے دردکو اور یہاں کے سیاسی اور سماجی حالات اور یہاں رہنے والوں کے مسائل کو ترنم ریاض نے اپنے دونالوں میں تفصیل سے پیش کیاہے۔ان کے ناول میں عورتوں کے مسائل خوب زیربحث آئے ہیں۔یوں تو کشمیرکے مسائل پرعلی امام نقوی نے اپنے ناول ‘بساط’میں بھی بحث کی ہے، لیکن کرشن چندرکے بعد ترنم ریاض نے کشمیرکی خواتین کے مسائل کاتذکرہ اپنے پہلے ناول‘مورتی’(2004ء)میں قدر تفصیل سے کیاہے۔ ان کی پیش کش کااندازدلکش اورخوبصورت ہے۔ اس میں موجودہ دور کی ترقی یافتہ خواتین کے اہم مسائل کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے ۔ ناول میں ایک فنکارعورت کی نفسیات، جذبات، کشمکش، اس کی اپنی شناخت، آزادی اور حیثیت کا مسئلہ زیربحث آیاہے۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس کی کہانی فن اور خاتون فنکارکے اردگردگھومتی ہے اور اسے کس طرح کی دشواریوں کاسامناکرناپڑتاہے اور اپنے وجودکو ثابت کرنے کے لئے کیاکچھ کرناپڑتاہے، اسے دلچسپ پیرائے میں بیان کیاگیاہے۔
نئی صدی کے بدلتے مختلف منظرناموں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے جوناول منظرعام پرآیااس کی تخلیق کارصادقہ نواب سحرؔہیں۔‘کہانی کوئی سناؤمتاشا’ پہلی بار ۲۰۰۸ء میں شائع ہوااور اب تک اس کے متعددایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس سے کتاب کی مقبولیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ناول اپنی طرف قارئین کو راغب کرتاہے ۔اس کتاب نے طویل داستان نگاری کی یادتازہ کردی ہے۔ ناول میں کہانی سنانے کے فن کوجس خوبصورتی کے ساتھ بروئے کارلایاگیاہے اور ایک کہانی سے دوسری اوردوسری سے تیسری……آخرتک درجنوں کہانیاں جس خوبی کے ساتھ تخلیق کی گئی ہیں؛ یہ اپنے آپ میں ایک آرٹ ہے۔خاص بات یہ ہے کہ سماج میں آئے دن جس طرح کی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور عورتوں کو جن مصائب و آلام کاسامناہے، انھیں دلچسپ پیرائے میں بیان کیاگیاہے۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ سماج کی تمام عورتوں کو جن پریشانیوں کاسامناہے وہ تمام پریشانیاں ایک ‘متاشا’جو اصل کردارہے؛ اس میں یکجاہوگئی ہیں۔‘مشکلیں اتنی پڑیں کہ آساں ہوگئیں’کے مصداق وہ ان تمام پریشانیوں کو جھیلتے ہوئے معاشرے کی خارداروادیوں سے اپنے دامن کوبچاتے ہوئے آگے بڑھنے کاحوصلہ رکھتی ہے، جسے اس کے والدکے دوست اوررشتے کے‘ کاکا’ موقع پاتے ہی سفاک انسان کی طرح تارتارکردیتے ہیں۔عورت ذات جب اپنوں سے زخم کھاتی ہے تو زیادہ ٹوٹ جاتی ہے۔ہندوستانی معاشرے کایہ بہت بڑاالمیہ ہے کہ جب یہاں کوئی لڑکی پیداہوتی ہے توخوشی کی بجائے غم کاماحول ہوتاہے۔اس کے ساتھ ہرطرح کی زیادتیوں کو رواسمجھاجاتاہے۔ اس کاآغازاس کے والدین اور خون کے رشتہ داروں سے ہوتاہے اور رفتہ رفتہ ان زیادتیوں کاسلسلہ درازہوتاجاتا ہے۔ وہ جیسے جیسے زندگی کے ایام جیتی ہے ویسے ویسے اسے نئی نئی آزمائشوں اور امتحانات سے گزرناپڑتاہے، یہاں تک کہ جینے اور مرنے کافیصلہ لینے کاحق بھی اس سے چھین لیاجاتاہے۔کچھ ایسی ہی صورت حال کاسامنا‘متاشا’کوہے، جس سے پریشان ہوکروہ گھربارچھوڑکردوسرے شہروں میں رہنے لگتی ہے۔ الگ الگ شہروں میں رہنے پرمجبور متاشا اپنوں اورغیروں کے مظالم کو برداشت کرتے ہوئے وہ ایک پانچ بچوں کے باپ اوراپنے سے دوگنی عمرکے مردسے شادی کافیصلہ کرتی ہے اور اس کے ساتھ کامیاب ازدواجی زندگی بسرکرتی ہے۔شوہرکی موت کے بعد پھرپریشانیوں کاسلسلہ شروع ہوتاہے جو آخری وقت تک جاری رہتاہے۔ہمارے سماج میں ماں باپ، بھائی بہن، چچاچچی، ماموں ممانی اور دیگررشتہ داروں کے ہاتھوں ایک لڑکی کو کن کن پریشانیوں کاسامنارہتاہے؛ اس کی پوری تفصیل اس ناول میں موجودہے۔ ناول کابیانیہ اندازدل کوچھولیتاہے۔ ناول میں درمیانہ طبقے کے لوگوں کی زندگی کانقشہ دلچسپ پیرائے میں کھینچاگیاہے۔مرکزی کردارمتاشااپنوں اور غیروں کے مظالم کاشکارہوکربھی حسن سلوک اور اخلاقی قدروں کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہے۔ناول میں خواتین کے لئے ایک پیغام بھی ہے کہ سماجی مظالم کو سہتے ہوئے وہ کس طرح ایک کامیاب زندگی کی بنیادڈال سکتی ہیں۔ناول میں سماج کے مختلف کرداروں، مختلف مقامات اور طرح طرح کے حالات کاذکرملتاہے، جوکہانی کو آگے بڑھانے میں مددگارہوتے ہیں اور قارئین ان سے محظوظ ہوئے بغیرنہیں رہتے ہیں ۔اس کتاب کو پڑھ کرشاعری کے حسن اور نزاکت کابھی لطف ملتاہے۔ناول میں کٹروادی ہندوگھرانے کو بحث کاموضوع بنایاگیاہے اور اس کے تمام رسوم و رواج کو بیان کرنے میں ذرہ برابربھی جھجھک سے کام نہیں لیاگیاہے۔ناول کااسلوب دلکش، زبان سہل، مکالمے دل پذیراور عام قاری کی سمجھ میں آنے والے ہیں۔
ہندوسماج میں عورتوں کے ساتھ جورویہ اپنایاجاتاہے، اس کے بارے میں صادقہ نواب سحرؔ کے علاوہ ثروت خان نے بھی اسے موضوع بحث بنایاہے۔ فرق صرف اتناہے کہ صادقہ نواب سحرؔ نے ایک ہندولڑکی کو اس کے سماج میں اور بیرونی دنیامیں کس طرح کی پریشانیوں کوسامناکرناپڑتاہے اسے پیش کیاہے تو ثروت خان نے ہندو سماج کی بیواؤں پرعورتوں ہی کے ذریعہ مذہبی اور سماجی روایتوں کی سخت گیری اور مظالم کی نقاب کشائی کی ہے۔ثروت خاں نے ‘اندھیراپگ’میں ہندوبیوہ عورتوں کو سماج میں کس حیثیت سے دیکھاجاتاہے اور انھیں کن کن دشواریوں کو جھیلنے پرمجبورکیاجاتاہے اس پرکھل کربحث کی ہے۔ثروت خاں اور صادقہ نواب سحرؔکے ناولوں کو پڑھ کراس نتیجے پرپہنچناآسان ہے کہ متعدد خاتون ناول نگاروں نے مسلم معاشرے سے باہر نکل کر غیر مسلم سماج کی عورتوں کے مسائل کو موضوع سخن بناکرتمام خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کوداستانی شکل دینے کاتاریخ ساز قدم اٹھایاہے۔‘اندھیرا پگ’ (۲۰۰۵ء)نے راجستھان کے قصباتی ہندو سماج کی بیوہ عورتوں کی رسم و رواج میں محبوس زندگی کو پیش کر کے ناول کو ایک نئی جہت عطا کی ہے ۔ اس کا قاری پرتادیراثر رہتاہے۔پروفیسروارث علوی لکھتے ہیں:
‘اندھیراپگ’ ثروت خاں کی پہلی ناول ہے اور اس قدرکامیاب کہ ان کی تخلیقی صلاحیت کالوہامنواتی ہے۔جس میں بیوہ کی بپتاتانیثی بغاوت میں بدل جاتی ہے۔بیوہ کی بپتاکے بیان میں راجستھان کے پروہتوں کی حویلیوں کانقشہ نازیوں کے کیمپوں کی یاددلاتاہے۔اس فرق کے ساتھ کہ نازیوں کا ظلم دشمنوں کاتھااور نفرت کے جذبہ کے تحت تھا جبکہ بیوہ بیٹی پرظلم اپنوں کاتھااور سماجی مجبوری اور رسم ورواج کی غلامانہ پابندی کے سبب تھا’’۔ ۳
تکلیف اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب عورتیں اپنوں کے ہاتھوں مظالم کاشکارہوتی ہیں۔ ہندوستانی سماج میں عام طورپر ایساہی ہوتاہے، جب اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کی عزت تارتارکی جاتی ہے۔ ‘اندھیرا پگ’میں بیکا نیر(راجستھان کاایک مشہورشہر) سے پچاس کیلو میٹر کے فاصلے پر یہاں کے راجپوتوں اور پروہتوں کی حویلیوں میں بیوہ عورتوں کے ساتھ ہونے والے مظالم، یہاں کی زندگی اور تہذیب ، اس کے آس پاس کی قصباتی زندگی ، قدامت پسندی اور رسم و رواج کی پابندی کو پیش کیاگیا ہے۔ اس ناول میں ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیب کی جھلک دکھائی پڑتی ہے؛ جہاں جدید تہذیب فرسودہ سماجی نظام کے خاتمے کے لئے برسر پیکار ہے ۔ناول کا موضوع خواتین کے مسائل سے تعلق رکھتاہے۔یہ موجودہ دور کی ترقی یافتہ خواتین اور قدیم سماجی رسم و رواج کی پابندیوں، قدامت پسندی، ظلم و جبر اور عورتوں کی ناقدری کے درمیان تصادم، کشمکش اور پھر بغاوت کا اعلان ہے۔ثروت خاں‘گفتگو!آپ سے’میں خودلکھتی ہیں:
‘‘اس ناول کو تحریری شکل دینے سے قبل میرے ساتھ بھی کچھ ایساہی ہوا، جب میں جیسلمیرگئی، وہاں کے کلچر، تہذیبی اقداراور ثقافتی نظام سے متاثرہوئی۔جب میں بیکانیرگئی، جب میں جودھپورگئی، اتناکچھ اتنے قریب سے دیکھاکہ گویاایک ایک کردار، ایک ایک واقعہ، ایک ایک مکالمہ سے میری پہچان ہورہی ہے۔ملاقات ہورہی ہے۔ ان کے رہن سہن، طورطریقے، رسم ورواج، سماجی و تہذیبی اموراور ان کے اصول وضوابط کی پاسداری میں کوشاں افرادکو اپنے اردگرددیکھ کرمیں حیران رہ گئی، لگا، تبدیلی ہے کہاں؟’’ ۴
مصنفہ کی مذکورہ تحریرسے ناول میں قدیم وجدیدتہذیب کی کشمکش کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنفہ نے ایک ایک کردارکو قریب سے دیکھاہے، تب جاکراتنی بیش قیمت تخلیق قارئین کی خدمت میں پیش کرنے میں کامیابی ملی۔
ترنم ریاض کاناول ‘برف آشنا پرندے’ ۲۰۰۹ء میں منظرعام آیا۔ آج ترنم ریاض ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی تخلیقات سے نسلیں استفادہ کرتی رہیں گی ۔ ‘برف آشنا پرندے’ کے موضوعات‘ مورتی’ سے جداہیں۔ گرچہ دونوں میں کشمیرمسئلہ کااحاطہ کیاگیاہے لیکن الگ الگ طریقے سے ۔ ‘مورتی’ میں مصنفہ نے کشمیری خواتین کو جن مسائل کاسامناکرناپڑتاہے؛ وہ مرکزی کردارکی شکل میں سامنے آیاہے، جب کہ ‘برف آشنا پرندے’میں علمی مسائل، تعلیمی اداروں سے منسلک پروفیسروں اور دانشوروں کی زندگی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔موضوع کے اعتبارسے گرچہ یہ نیانہیں ہے، لیکن ترنم ریاض نے جس خوبصورتی کے ساتھ پیش کیاہے؛ وہ لائق ستائش ہے۔اس کانام ہی اتناخوبصورت ہے جو ہرقاری کو اس کے مطالعے کی دعوت دیتاہے۔‘برف آشنا پرندے’کے استعاراتی مفہوم پرغورکریں تو کئی طرح کے خیالات ذہن میں آتے ہیں۔کشمیرکابرفیلاماحول، اس ماحول میں محبوس پرندے بلندفضاؤں میں پروازکی تمنائیں دل میں جگائے سردمہری کاشکارہیں۔اس میں ترنم ریاض نے خوبصورت لفظوں کاجو تانابانابناہے،وہ قابل دید ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:
‘‘نرم خو، حلیم اور حسین کشمیریوں کی زمین، دانشوروں، فنکاروں اور دستکاروں کاخطہ، ریشم وپشم، زعفران زاروں اور مرغزاروں کی سرزمین۔ پہاڑوں، پانیوں اور وادیوں کا مسکن، یہ کشمیر، جنت بے نظیر، جس کی پانچ ہزارسال پرانی تاریخ موجودہے، جس کی مثال شایدہی دنیامیں کہیں ملے’’……
‘‘قدیم ترین زبان وتہذیب کا مرکزکشمیر، رشیوں، منیوں کاکشمیر، شیخ العالم اورلل دیدکاکشمیر، شاکھیہ منی کی پیشین گوئی کابودھ گہوارہ کشمیر، کشیپ رشی اور پرورسین کا کشمیر، للتادتیہ کااور سوئیہ کاکشمیر، اشوک، کشنک، کلہن اور بڈشاہ کاکشمیر، حبہ خاتون کاکشمیر، ارنی مال کاکشمیراور شایدموسیٰ اور عیسیٰ کی منتخب آرام گاہ بھی یہی کشمیر……’’ ۵
مذکورہ اقتباسات کے بارے میں عابدسہیل لکھتے ہیں:
‘‘ کوئی گھماؤ پھراؤ نہیں، کوئی پیچ نہیں۔ سب کچھ گویاعیاں ہے۔ موسموں، منظروں، مرغزاروں، پانیوں، وادیوں اور فنکاری کاحسن اور دانش وری اس کے نام، اوروہ بھی پانچ ہزاربرس سے، اس طرح کہ ہرفکردوسرے فکرسے جدا، لیکن دوسرے کومسترد کئے بغیرنہ صرف اپنی جگہ قائم، بلکہ شاداں وفرحاں، ہررنگ یکتااور ہرخوشبو بے نظیر، ایک سالمہ بناتے ہوئے جس میں کچھ بھی کسی پرخط تنسیخ نہیں کھینچتا۔یہ ہے وہ پانچ ہزارسالہ سانچہ جس میں اہل کشمیرڈھالے جاتے رہے ہیں۔ اس میں پوراماضی، اس کی ثقافت، مذہب، یگانگت، بے گانگی، سب کچھ شامل ہے اور وہ بھی جو بتائے، جتائے اور نظرآئے بغیراہل کشمیرکے پورپورمیں بساہے اور ان کی سائیکی کاحصہ ہے’’۔ ۶
یہ وہ وسیع کینوس ہے، جس میں پانچ ہزارسال کی یادیں سمائی ہوئی ہیں۔ان یادوں کو خوبصورت لفظوں کاجامہ پہناکربہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیاگیاہے۔وہ یادیں گرچہ اب تاریخ کاحصہ بن چکی ہیں، موجودہ کشمیرمیں وہ یادیں پوری طرح خاکسترکی جاچکی ہیں، لیکن پیراےۂ اظہارسے بالکل محسوس نہیں ہوتاہے کہ وہ یادیں اب موجودہ کشمیرکاحصہ نہیں ہیں۔یہ سفیدوادیوں کی کہانی ہے جو اخروٹ، آلوبخارے،سیب، آلوچے اور خوبانی کی خوشبوؤں کوفضامیں بکھیرتی ہیں اور جھرنوں کے برفیلے پانی پتھروں کے درمیان سے راہیں بناکرجب گزرتے ہیں تو سب کو سیراب کرتے جاتے ہیں،لیکن اس جنت نظیرکشمیرکوجیسے کسی کی نظرلگ گئی ہو، جس کی وجہ سے جگہ جگہ چنگاریاں سلگتی ہوئی معلوم پڑتی ہیں اور اب سردآب کی بجائے کھولتے ہوئے پانی سے فضامیں گرمی کااحساس ہوتاہے جو پورے ماحول کو گرم کئے بغیرنہیں رہتاہے۔ مصنفہ نے آزادی کے بعد اب تک کشمیرنے جس دردکوجھیلاہے اور یہاں کے لوگوں نے جن مصائب وآلام کوبرداشت کیاہے؛ انھیں کبھی اشاروں اور کنایوں میں تو کبھی واضح لفظوں میں دنیاکے سامنے پیش کردیاہے۔ پروفیسردانش اور پروفیسرسمیرگھوش کی شکل میں جو کردارسامنے آئے ہیں؛ وہ بہت سی یادیں چھوڑجاتے ہیں۔ساڑھے پانچ سو صفحات پرمشتمل اس ناول کے اصل کرداردوہیں، شیبااور کشمیر۔شیباکے سامنے اس کی پوری زندگی ہے اور کشمیرکے سامنے اس کا مستقبل۔ کشمیرکی بیٹی ہونے کے ناطے ترنم ریاض کو ان دونوں کرداروں کے امکانات کا بخوبی اندازہ ہے۔اکیسویں صدی کے ناولوں میں مجموعی طورپرترنم ریاض کے مذکورہ دونوں ناولوں کو اہم مقام حاصل ہے اور ادیبوں اور نقادوں نے اس کی طرف خاص توجہ دی ہے۔
جیلانی بانوکے ناول‘ایوان غزل’کااضافہ شدہ ایڈیشن ۲۰۱۲ء میں منظرعام پرآیا۔ اس سے قبل یہ ناول ۲۰۰۳ء میں شائع ہواتھا، جسے مصنفہ نے ہرطرح کی اغلاط سے َپربتایاہے۔اس لئے میں۲۰۱۲ء کے ایڈیشن کو نگاہ میں رکھ کرتجزیاتی مطالعہ کرنے کی جرأت کررہاہوں۔ ناول کاموضوع سقوط حیدرآباداور تقسیم ہندکاالمیہ ہے۔ جیلانی بانوکاشمار اردو کے مشہورومعروف ناول نگاروں میں ہوتاہے۔ انھوں نے اپنے ناول کے ذریعے معاشرے کے سیاسی ، تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے مختلف گوشوں کو اجاگرکیاہے۔حیدرآبادکی زندگی کے نقوش ان کے ناولوں میں نمایاں ہیں۔‘ایوان غزل’ کاآغاز گاندھی جی کی تحریک سول نافرمانی سے ہوتاہے اور ملک کی تقسیم کے المناک حادثے پرختم ہوجاتاہے۔ناول کاکینوس حیدرآبادکے ٹوٹتے بکھرتے جاگیردارانہ نظام کے ساتھ ساتھ تہذیبی داستان کواپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔جیلانی بانوکے یہاں احساس کاتیکھاپن اورسماجی شعورکی پختگی نظرآتی ہے۔ جیلانی بانونے اپنی تحریرپرجذبات کوحاوی نہیں ہونے دیاہے۔یہ ان کی تحریرکی اہم خوبی ہے۔انھوں نے جس زوال پذیرنظام کاذکرکیاہے؛ اس کے نمائندے احمدحسین اور واحدحسین جیسے لوگ تھے؛جو خوداس نظام کی خستہ حالی کاسبب بنے۔اردوفکشن کی تاریخ میں جیلانی بانوکامقام متعین کرتے ہوئے پروفیسروہاب اشرفی لکھتے ہیں:
‘‘ اردوفکشن کی تاریخ میں کتنے ہی لوگ ڈوبے اور ابھرے۔ کچھ تو ایسے ہیں جنھوں نے ایک آدھ تخلیق سے سب کو چونکادیا۔ کچھ پانچ دس نگارشات کے بعد کسی اور طرف مڑگئے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس کی تاریخ میں نہ صرف اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی بلکہ جیسے جیسے وقت گزرتاگیا؛ان کی ادبی شخصیت مصفیٰ ومجلیٰ ہوتی چلی گئی۔ان کے بغیراردوفکشن کی تاریخ مکمل ہونے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔فکشن کے لکھنے والے مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں۔کچھ نے تاریخی عوامل کو اپنی تخلیق کاپس منظربناکررکھاہے، کچھ نے مارکسی ازم کوپکڑکراس کی ترویج واشاعت کاموقف اختیارکررکھاہے، کچھ دیہاتوں سے جڑے ہوئے ہیں توکچھ شہری زندگی کی پیچیدگیوں سے اپنارشتہ استواررکھنا ضروری سمجھتے ہیں، لیکن ایسے میں کوئی ایسی روشن لکیرابھرتی ہے تو کہیں قیدنہیں ہوتی اور سرتاسراپنی تخلیقات سے زندگی کے مختلف اور متنوع دھاروں کونہ صرف سمیٹتی ہے بلکہ انہیں منوربھی کرتی چلی جاتی ہے۔ایسے لکھنے والوں کی تعداد یقینا بہت مختصرہے اور اس بہت مختصرتعدادمیں جیلانی بانو کاقدبہت نمایاں ہے’’۔ ۷
‘ایوان غزل’ میں حیدرآباد کے سیاسی انتشار اور یہاں کے ہنگامی دورکو محسوس کیاجاسکتاہے۔ تقسیم ملک کی وجہ سے یہاں ہونے والے فسادات اور خونریزی کے دردناک مناظرکاجیلانی بانونے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیاہے۔ اس لئے ان کی تحریرحقیقت کاآئینہ معلوم ہوتی ہے۔ایوان غزل میں قدیم وجدید اسالیب کاخوبصورت امتزاج ہے۔ناول میں دکن اور خاص طورپرحیدرآباد کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کااحاطہ کیاگیاہے اور یہاں کے بدلتے ماحول کانقشہ کھینچاگیاہے۔ اس میں واقعات اور کردارکے ساتھ ساتھ زبان وبیان کی دلکشی کاخاص لحاظ رکھاگیاہے، جس کی وجہ سے قارئین کی دلچسپی برقراررہتی ہے۔جیلانی بانونے‘ ایوان غزل’ میں غزل کی ایسی انجمن سجائی ہے جس کو پڑھ کرقاری متاثرہوئے بغیرنہیں رہتاہے۔ اس لئے کہ اس انجمن میں کسی غم کومئے بنایاگیاہے اور کسی دل کوجام ۔ جب معاملہ اس حدتک حساس ہوتو تحریرکیوں کردلکش نہیں ہوسکتی ہے؟
آشاپربھات کاناول ‘جانے کتنے موڑ’ ۲۰۰۹ء میں منظرعام پرآیا۔یہ وہ تخلیق کارہیں جواردو اور ہندی دونوں زبانوں میں طبع آزائی کرتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کی تحریرمیں دونوں زبانوں کاخوبصو رت امتزاج نظرآتاہے۔اس ناول میں ایک غریب خاتون کی کہانی پیش کی گئی ہے جو اشرافیہ طبقہ کے خودساختہ اصولوں کی بھینٹ چڑھادی گئی ہے۔جب وہ ان اصولوں کو مانتی ہے تو سماج اسے سرآنکھوں پربیٹھانے کے لئے تیار رہتا ہے اور جب وہ ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اس کااپناخونی رشتے دار بھی اس کاجانی دشمن ہوجاتاہے۔ایک ایسی خاتون جسے اپنے جذبات اور احساسات کو تاک پررکھ کرجینے کے لئے مجبورکردیاجاتاہے، لیکن اس کی زندگی میں ایک ایساموڑآتاہے جب وہ ان اصولوں کو پامال کرتے ہوئے ایک ایسے ناخداکی طرف جانے کافیصلہ کرلیتی ہے جس نے ہرموڑپراس کاساتھ دیا۔ایک عورت جب آزادی کے ساتھ جیناچاہتی ہے توپورا سماج اس کادشمن کس طرح ہوجاتاہے، اس کانقشہ ناول میں بہت دلچسپ اندازمیں کھینچاگیاہے۔یہ ناول‘ لتا’نام کی ایک عورت کی کہانی پرمشتمل ہے جسے ہرلمحہ گھٹ گھٹ کرجینے پرمجبورہوناپڑتاہے۔ یہ سماج کس قدرخودسراور خود غرض ہوچکاہے کہ ایک عورت کی عزت و ناموس کی اس کی نگاہوں میں کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔صرف خاندانی جاہ وحشم کوبرقراررکھنے کے لئے ایک مجبورمحض انسان کے ساتھ اسے باندھ دیاجاتاہے اور پھراس کے ہی رشتہ داراسے غلط کام پرمجبورکردیتے ہیں، بلکہ ایساکرکے وہ لوگ اطمینان کی سانس لیتے ہیں لیکن یہ عورت ہرلمحہ گھٹ گھٹ کرزندگی بسرکرتی ہے اور جب حتمی فیصلہ لینے کاوقت آتاہے تو وہ سارے بندھنو ں کو توڑکرآگے بڑھ جاتی ہے۔اس طرح یہ ناول سماج کی ایسی خرابیوں کواجاگرکرتاہے جوکسی بھی مہذب دنیاکے لئے معیوب سمجھاجاسکتاہے۔
نئے قلم کاروں میں جن خواتین کے ناول منظرعام پرآئے ہیں؛ ان میں نیلوفر کے ‘آوٹرم لین ’ اور نسرین بانو کے‘ایک اورکوسی ’ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ ‘آوٹرم لین’ دلّی شہر میں رہ کر سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لئے مقابلاجاتی امتحانات کے دوران آنے والی دقتوں اور پیچیدگیوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ ایسامحسوس ہوتاہے کہ آوٹرلینمیں ڈاکٹرخوشنودہ نیلوفرنے جن پریشانیوں کاسامناکیاہے؛ انھیں دلچسپ پیرائے میں دنیاکے سامنے پیش کردیاہے۔ ۲۰۱۰ء میں یہ کتاب شائع ہوئی اور قارئین کی توجہ پانے میں کامیاب ہے۔‘ایک اورکوسی ’میں ایک ایسی خاتون کی زندگی کو پیش کیاگیاہے، جس کاشوہرشادی کے فوراً بعد بیرون ملک روزگارکے مقصدسے چلاجاتاہے۔ایک اور کوسی ناولٹہے۔ ڈاکٹرنسرین بانوکی یہ تخلیق۲۰۰۹ء میں منظرعام پرآئی۔
طوالت کے پیش نظردیگرتخلیقات جیسے ‘نیاشوفر’نوشابہ خاتون(۲۰۱۲ء)، ‘نادیدہ بہاروں کے نشاں’ شائستہ فاخری(۲۰۱۳ء)، ‘آتش دان’قمرجمالی(۲۰۱۴ء)،‘ صدائے عندلیب برشاخ شب’شائستہ فاخری(۲۰۱۴‘)اور‘ کڑواسچ’ فرح دیبا(۲۰۱۵ء )وغیرہ کو میں دوسرے مقالے لئے یہاں ترک کرتاہوں ۔ ان شاء اللہ دوسرے مقالے میں ان کتابوں پرکھل کربحث کی جائے گی اور ان کاتجزیاتی مطالعہ پیش کیاجائے گا۔
