تحریر:یاور حبیب ڈار
میں نے خواب میں ایک خوشنما زندگی جیسے گزاری لج بابا کا میں۔ دراصل میں کشمیر یونیورسٹی جا رہتا تھا۔ سرینگر پہونچ کر اس مقام پر مجھے ایک رات گزر جاتی ہے۔ ان گھر والوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا جیسے کہ میں ان کا اپنا بیٹا تھا۔ ان کا گھر بھی بہت اچھا تھا۔ ایک لمحہ کے لیے میں گھر سے باہر نکلا تو اس گاؤں کو غور سے دیکھتا ہوں جیسے یہ جنگلوں کے بیچ میں پڑتا تھا یعنی جیسے کوئی وادی ہو جو چاروں طرف جنگل سے گھیری ہوئی اور بیچ میں یہ خوبصورت گاؤں پڑتا ہے۔ یہاں کے لوگ گاڑیوں میں اکثر سواری بلحاظ تفریح کرتے نظر آتے ہیں۔ ان گھر والوں کی بھی ایک گاڑی ہوتی ہے جسکا ایک ڈرائیور بھی ہوتا ہے جسے میں پہلے انہی کا بچہ سمجھ رہا تھا لیکن یہ ایک یتیم تھا جسے یہ گھر والے پال پوس رہے تھے۔ گاڑی میں قیام کے دوران مجھے ایک بچہ کہتا ہے کہ جناب کیا پرندے بھی نسل کشی کرتے ہیں۔ یہ منظر اس نے ایک طوطے کو دیکھ کر مجھ سے کہا جو جماع کر رہے تھے اور میں نے مزید اس پر گفتگو کی جیسے میں تعلیم دینے پر معمور کیا گیا تھا۔ ایک اور بات اس گاؤں کے بچے جب بھی تفریح کے لیے نکلتے تھے تو وہ جنگل سے بنیچے گھروں کی طرف نیم برہنہ بھاگے آرہے تھے۔ اس گاؤں تمام گھر بہت ہی قریب قریب بنایۓ گیے تھے لیکن یہاں مرد,عورتیں اور بزرگ دکھائی نہیں دیتے تھے بلکہ ان گھروں کے در و دیوار کھلے رہتے ہیں۔اس گاؤں میں ایک بڑا اسکول بھی تھا, کھلا کوئی بچہ اسکول میں نہیں, اس کے آگے ایک ندی سی دکھ رہی تھی اور اسی ندی کے اردگرد یہاں کے لوگ گول گول چکر لگاتے تھے گاڑی میں یہ جیسے ان کا روزکا معمول تھا اور کوئی رسم تھی۔ جس گھر میں میں ایک رات قیام کرتا ہوں اس کا سرپرست/ خاندار بھی گاڑی میں گاؤں کی گول گول چکر لگا کر واپس آجاتا ہے۔ ہم بھی واپس جاتے ہیں یہ تمام منظر دیکھ کر اور گھر والے مجھے چائے پلاتے ہیں۔ اب میں اٹھنے لگا تو فون بھی ساتھ اٹھاتا ہوں اندھیرا ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے کا فون اٹھاتا ہوں, واپس اندر جاتا ہوں اپنا فون لے جانے کے لیے لیکن پھر سے کسی دوسرے کا فون۔ بالآخر اپنا فون لے کر آتا ہوں ۔دل کا مسمم ارادہ ہے کہ میں ایک اور رات اسی گھر میں گزاروں گا ۔ اور اس کے بعد واپس اپنے گھر چلا جاؤں گا۔ مختصراً اس گھر اور گاؤں نے میرے اندر ایک گھر کرلیا اور ایسا لگا جسے میں وہاں کا مقامی و پشنتی باشندہ ہوں۔
ہندوارہ
