تحریر:غزل کاشمیری
امانت کے موضوع پرکچھ سوچنے اور بات کرنے کے لئے قرآن کریم میں سورہ الاحزاب کی آیت ۷۲؍ پر نظر ڈال لینا ضروری ہے:
’’ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا ۔‘‘
’’اس امانت‘‘ کی تفسیر میں بے شمار اقوال ہیں ۔ ایک رائے ہے کہ اس سے مراد عقل ہے۔ بعض نے کہا اس سے مراد توحید ہے۔ بعض نے کہا اس سے مراد تمام وظائف ِ دینی ہیں ، اور بعض نے کہا اس سے مراد اطاعت ِ خداوندی ہے۔ ان تمام اقوال میں کوئی تناقض نہیں ہے۔ سب کا خلاصہ یہی بنتا ہے کہ امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض ہیں ۔ گویا اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرائض پورے نہ کرنا سب سے بڑی خیانت ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’اے ایمان لانے والو، جانتے بُوجھتے اللہ اور اس کے رسُولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو۔‘‘ (الانفال:۲۷)
اللہ تعالیٰ کے فرائض یا تو عقائد کی صورت میں ہیں مثلاً توحید، رسالت، آخرت وغیرہ یا اعمال کی صورت میں ، مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ، یا پھر معاملات کی صورت میں جو انسانوں کے مابین طے پاتے ہیں مثلاً تجارت، سیسات اور مدنی مسائل وغیرہ ۔ ان تمام میں کوتاہی کرنا خیانت ہے۔
اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز رکھی جائے تو اُسے بعیٖنہ لوٹانا امانتداری ہے۔ یہ چیز مادی و حسّی اور کثیف صورت میں بھی ہوسکتی ہے مثلاً روپے، کپڑے، گندم وغیرہ اور غیرمادی و غیرمرئی اور لطیف بھی ہوسکتی ہے مثلاً کسی شخص کو کوئی بھید بتایا جاے تو اُسے اپنے تک ہی محدود رکھنا امانتداری ہے، یا کسی کے ساتھ کوئی قول و قرار یا وعدہ وغیرہ کیا جائے تو اُسے پورا کرنا امانتداری ہے اور پورا نہ کرنا خیانت ہے۔ اسی کا دوسرا نام بے ایمانی اور بددیانتی ہے۔
کسی دوست کے بھید یا راز کو عیاں کرنا یا ملّی و قومی راز دشمنوں تک پہنچانا بھی خیانت ہے۔ قرآن پاک میں حضرت نوح ؑ اور حضرت لوط ؑ کی بیویاں ایک تو اپنے پیغمبر خاوندوں پر ایمان نہیں لائی تھیں ، دوسرے وہ ان کے بھید کافروں پر عیاں کردیتی تھیں ۔ اُن کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے:
’’وہ ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں ، مگر انہوں نے اپنے ان شوہروں سے خیانت کی۔‘‘
(سورہ التحریم:۱۰)
اسی سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اپنے قومی و ملی مصالح کے خلاف قدم اٹھانا بھی قوم کے ساتھ خیانت ہے۔ فتح مکہ سے قبل ایک صحابی حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے اہل مکہ کو اطلاع کردی کہ رسول اللہ ﷺ اُن پر چڑھائی کرنے آرہے ہیں ۔ اگرچہ وہ اس طریقہ سے مکہ میں رہائش پزیر اپنے رشتہ داروں کو بچانا چاہتے تھے اور مشرکین پر احسان دھرنا چاہتے تھے لیکن جب یہ خط راستے ہی میں پکڑ لیا گیا تو حضرت عمرؓ نے کہا : ’’اُس نے اللہ، رسولؐ اور مومنوں سے خیانت کی ہے۔‘‘(بخاری ، کتاب المغازی)
اسی طرح اگر کسی شخص کو کوئی عہدہ یا ذمہ داری سونپی جائے تو اُسے بطریق احسن پورا کرنا یا اس کی ذمہ داری سے برآ ہونا بھی امانت داری ہے اور اسے پورا نہ کرنا خیانت ہے۔ ایک بار حضرت ابوذر غفاریؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپؐ مجھے کسی عہدہ پر سرفراز کیوں نہیں کرتے۔ اس پر آپؐ نے حضرت ابوذرؓ کے کندھے پر تنبیہاً ہاتھ رکھ کر فرمایا:
’’اے ابوذر! تم کمزور ہو اور عہدہ تو ایک امانت ہے اور قیامت کے دن ندامت اور شرمندگی کا باعث بنے گا ۔ الّا یہ کہ جس نے اسے حقدار سمجھ کر لیا اور اس کے حقوق پورے کردیئے۔‘‘ (مسلم کتاب الامارہ، مسند احمد جلد۵)
اگر کسی شخص پر گھریلو معاملات کے سلسلے میں کوئی بھروسہ کیا جائے اور گھر پر اُسے کوئی ذمہ داری سونپی جائے تو اُسے پورا کرنا امانتداری ہے اور اس کی عزت و ناموس کو تار تار کرنا خیانت ہے۔ حضرت یوسف ؑ پر جب اتہام لگائے گئے تو آپؑ نے کچھ عرصہ بعد تحقیقات کراکے اپنی برأت ثابت کردی ۔ اس پر آپ نے فرمایا:
’’اِس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیز ِ مصر) یہ جان لے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کی خیانت نہیں کی تھی۔‘‘ (سورہ یوسف:۵۲)
اگر زبان سے کوئی اقرار کیا جائے اور دل میں اس کے خلاف رکھا جائے تو یہ بھی خیانت ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: ’’ اگر وہ آپ کے ساتھ خیانت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کر چکے ہیں ۔‘‘
(سورہ الانفال:۷۱)
یہ آیت منافقین کے بارے میں اتری تھی۔ ۴؍ہجری کا واقعہ ہے کہ بنو اُبیرق کے طعمہ بن بشیر نے ایک انصاری کی زرہ چرائی۔ جب اس کی تحقیق شروع ہوئی تو اس نے مالِ مسروق ایک یہودی کے ہاں رکھ دیا۔ قریب تھا کہ نبی پاک ظاہری شواہد کی بناء پر یہودی کو مجرم ثابت کردیتے مگر فوراًیہ وحی اتری:
’’ آپ خیانت کرنے والوں کی طرف داری میں بحث کرنے والے نہ بنیں ۔‘‘ (سورہ النساء:۱۰۵)
طعمہؔ منافق تھا، چنانچہ نبی پاک ؐ کا فیصلہ سن کر مکہ بھاگ گیا اور وہاں کافروں کے حلقہ میں شامل ہوگیا۔ گویا منافقت اور خیانت ایک ہی چیز ہے۔ ایک حدیث میں منافق کی تین نشانیاں بیان کی گئی ہیں :
’’جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو پورا نہ کرے ، اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔‘‘ (ریاض الصالحین، کتاب آلاداب)
دوسری روایت میں چوتھی نشانی بھی آتی ہے کہ جب جھگڑا کرے تو گالی دے۔
کسی معاہدہ یا عہد کو پورا نہ کرنا بھی خیانت ہے۔ سورہ الانفال کی آیت ۵۸؍ میں ارشاد ہے:
’’اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں ۔ ‘‘ یہاں خیانت سے مراد کسی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
یہود کے اخفائے احکام، جھوٹی قسمیں کھانے اور جھوٹی شہادتیں دینے کو بھی خیانت کہا گیا ہے:
’’آپ ان اہل کتاب کی جھوٹی قسموں اور اخفائے احکام پر برابر مطلع ہوتے رہتے ہیں سوائے چند ایک کے۔‘‘
(سورہ المائدہ:۱۳)
الغرض ہر قسم کی چالاکیاں ، مکاریاں ، دھوکہ باز، ہیرا پھیریاں اور غبن چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، سب کے سب خیانت میں شامل ہیں ، حتیٰ کہ لالچ اور طمع جیسی بیماریاں بھی خیانت ہی ہیں ۔ نبی پاک ؐ نے خائن کی یہ تعریف فرمائی ہے:
’’خیانت کار وہ ہے جس کا طمع پوشیدہ نہ رہ سکے، وہ معمولی سے معمولی چیز میں بھی خیانت ضرور کرے گا۔‘‘
(مسند احمد، جلد۴)
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
’’بے شک اللہ کسی خائن کافر نعمت کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘ (سورہ الحج:۳۸) ’’اللہ کو ایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو ۔‘‘ (سورہ النساء:۱۰۷) ’’بے شک اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘ (سورہ الانفال:۵۸)
خیانت کا دائرۂ کار محض عقائد، اعمال اور معاملات تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کی لپیٹ میں انسان کا اپنا جسم بھی آجاتا ہے مثلاً آنکھ، پیر، کان، زبان ، اور ہر ہر عضو کی خیانت ہوسکتی ہے اور بعض اوقات انسان اپنی مکمل ذات سے بھی خیانت کرتا ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ اپنے اعضاء کو غیرشرعی طریقے پر استعمال کرے ، دوسری صورت یہ ہے کہ جب وہ کسی سے خیانت کررہا ہوتا ہے تو وہ فی الحقیقت اپنے آپ سے خیانت کررہا ہوتا ہے ، کیونکہ اس خیانت کا وبال و ضرر اسی پر لوٹ کر آتا ہے۔ ایسے انسان کی پستی اور ہلاکت کا اندازہ کیسے لگایا جاسکتا ہے جو اپنی ذات کے ساتھ خیانت پر تُلا ہوا ہے۔ اس اخلاقی مرض سے نجات کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خدا کی دانا اور قادر ِ مطلق ہستی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے، جس کی شان یہ ہے کہ :
’’اللہ نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں ۔‘‘
(سورہ الغافر:۱۹)
خود حضور ؐ نے ہجرت سے قبل لوگوں کی امانتوں کو واپس کرنا فرض عین سمجھا ، حالانکہ اگر آپ ؐ امانتیں واپس نہ کرتے تو کوئی کافر آپ ؐ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا لیکن صادق و امینؐ نے خیانت کو شانِ انسانیت کے خلاف سمجھا اور حضرت علی ؓ کو تمام امانتیں واپس کرنے کاحضرت علی ؓ کو تمام امانتیں واپس کرنے کا حکم دیا۔ سورہ بقرہ ، آیت نمبر ۲۸۳؍میں ارشاد ہے:
’’اور اگر تم میں سے کوئی دوسرے پر اعتبار کرے تو جس کے پاس امانت رکھی جائے وہ اسے واپس کردے۔‘‘
قرآن پاک میں دو جگہ پر ارشاد ہوتا ہے:
’’مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس کرنے والے ہیں ۔‘‘
(سورہ المومنون:۸؍اور سورہ المعارج:۳۲)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو۔‘‘ (سورہ النساء:۵۸)
ابن عباس اور محمد بن خلیفہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم ہر برّ و فاجر مسلمان کے لئے ہے۔ امام قرطبی فرماتے ہیں : ’’یہ آیت امہات ِ احکام میں سے ہے، اس میں تمام دین و شرع کو سمویا گیا ہے ۔ اس کا عموم تمام لوگوں پر حاوی ہے۔‘‘
جہاں تک انسان کا خود اپنے ساتھ امانت داری کا تعلق ہے تو وہ اپنی ذات کے لئے وہی چیزپسند کرے جو دین و دنیا کے لحاظ سے انفع (بہت زیادہ نافع) و اصلح (نہایت صالح، خوب تر) ہو۔ وہ شہوت و غضب کے طوفان کی لپیٹ میں آکر کسی ایسی چیز کو پسند نہ کر بیٹھے جو اُس کی آخرت کے لئے ضرررساں ثابت ہو۔ نبی پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ’’تم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اور ہر ایک سے اُس کی ماتحت چیزوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ امانتداری کا معاملہ اس قدر عظیم ہے کہ حق جل شانہٗ نے کئی بار قرآن پاک میں ذکر کیا ہے اور حضورؐ نے فرمایا : ’’اس شخص کا ایمان ہی نہیں جس میں امانتداری نہیں ہے۔‘‘
مخلوق خدا کے ساتھ ایمانداری کو ہم زیادہ واضح انداز میں یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ ایک انسان یا تو کسی گھرانے کا فرد ہے مثلاً بھائی ہے، بیٹا ہے یا باپ ہے۔ ان تمام حیثیتوں کے فرائض بطریق احسن پورا کرنا امانتداری ہے۔ اس کے بعد وہ پورے معاشرے کا ایک فرد ہے ۔ تمام معاشرتی فرائض پورا کرنا امانتداری ہے۔ مزید آگے بڑھیں تو پورے شہر یا ملک کا ایک باشندہ ہے لہٰذا اس پر شہری فرائض کو پورا کرنا واجب ہے ملک کے دستور اور قوانین کا احترام کرنا امانتداری ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو قرآن کی رُو سے وہ خیانت کار تصور ہوگا۔
