از: محمد انیس
اردو اخبارات ورسائل میں دو قومی نظریہ اور ملک کی تقسیم پر بہت کم مضامین آتے ہیں ۔ اگر کبھی آتے بھی ہیں تو جناح کے کارناموں سے بات شروع ہوکر علامہ اقبال کے کلام پر بات ختم ہوجاتی ہے ، درآنحالیکہ اسلامی نقطہ نگاہ سے دو قومی نظریہ اور تقسیم کی سیاست میں خامیاں ہی خامیاں ہیں۔ دو قومی نظریہ اور اس کے نتیجے میں ملک کی تقسیم کے فلسفے کو سمجھنا بے حد ضروری ہے’ کیونکہ ہندوستانی سیاست میں اس کے اثرات آج بھی بہت زیادے ہیں۔ اس حوالے سے میں یہاں چند نکات پیش کرونگا ۔
١. آسان اور مختصر لفظوں میں دو قومی نظریہ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک الگ قوم ہے۔ وہ کسی دوسری قوم کے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ یہی نظریہ ‘ نظریہ پاکستان میں منتقل ہوکر ملک کی تقسیم کا سبب بنا۔
٢. مگر دو قومی نظریہ قرآن کے نظریہ قومیت سے ٹکراتا ہے. اس لئے کہ جغرافیائی یا علاقائی بنیاد پر مسلمان ایک الگ قوم نہیں ہے ۔ مکہ اور مدینے میں جو قومیت مسلمانوں کی تھی وہی قومیت کفار کی تھی ۔ چنانچہ اسلام کا قومی نظریہ یہقرار پاتا ہے کہ ایک علاقے یا خطے میں رہنے والے تمام لوگ ایک قوم ہیں خواہ ان کا مذہب الگ الگ کیوں نہ ہو۔ اس لئے تمام انبیاء نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "اے میری قوم کے لوگو "۔ حضرت نوح علیہ السلام کو لوگوں نے مسترد کردیا۔ پھر بھی انہوں نے لوگوں سے کہا ‘اے میری قوم کے لوگو۔’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تمام مشرکین مکہ سے کہا کہ ‘اے میری قوم کے لوگو۔ اس کی نمایاں مثال قرآن میں جگہ جگہ دیکھی جاسکتی ہے ۔ اسلام کے اس وسیع اور فطری نظریہ سے کارنبوت اور دعوت الی اللہ کے دروازے کھلتے ہیں۔ اسی سے یہ ممکن ہوجاتا ھے کہ آپ کارنبوت یا دعوت الی اللہ کا کام حسن خوبی کے ساتھ تمام لوگوں میں انجام دیں اور خیر امت کے لقب کا حق ادا کریں ۔ لیکن مسلم لیگ نے مسلمانوں سے کہا کہ تم ایک علحدہ قوم ہو۔ تم ہندؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ یہ رومانی اور فرقہ وارانہ خیال مسلمانوں کو بہت پسند آیا اور وہ دیوانہ وار جناح کے پیچھے چل دئے’ جس طرح کے بانسری والے کے پیچھے تمام چوھے چلے تھے ۔
اس زمانے میں مذہبی قیادت کلی طور پر جمعیت علماء کے ہاتھ میں تھی ۔ مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے "متحدہ قومیت اور اسلام” کے عنوان پر کتاب لکھی جس میں موصوف نے ثابت کیا کہ مسلم لیگ کا دوقومی نظریہ پوری طرح غیر اسلامی ہے ۔ دوسری اہم بات موصوف نے یہ کہی کہ تقسیم سے مسلمانوں کی پوزیشن کمزور ہوگی کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک ایک مسلمان ہجرت کرکے پاکستان چلا جائے ۔ لیکن افسوس کہ ان کی ایک نہ چلی۔ مسلم لیگ کے جذباتی نعروں کے سامنے لوگوں نے جمیعت علماء کے سنجیدہ پیغام کو مسترد کردیا ۔
خاکسار تحریک نے دو قومی نظریہ کی مخالفت کی ۔ اس کے لیڈر علامہ مشرقی نے کہا کہ جس طرح ماضی میں سیکڑوں سال تک ہندو مسلمان ساتھ رہتے آئے ہیں، اسی طرح ائندہ بھی ایک ساتھ رہیں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں پہلے سے متعدد مسلم اکثریتی صوبے موجود ہیں۔ اگر کوئی مسلمان ان صوبوں میں منتقل ہونا چاہے تو وہ آسانی سے نقل مکانی کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے ملک کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ لیکن جس طرح آج مسلمان قرآن اور سنت سےریادہ جذبات کے تابع ہوجاتے ہیں’اسی طرح اس زمانے میں بھی تھے ۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ جب ان کے رسول نے مشرکین کے درمیان رہ کر کارنبوت انجام دیا تو وہ کس بنیاد پر مشرکین سے الگ ہوکر گوشۂ عافیت میں جانے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ چنانچہ دعوت الی اللہ کے فریضہ کو چھوڑنے کا جو انجام ہونا چاہئے تھا وہی ہوا۔ 1971ء میں دو قومی نظریہ فیل ہوکر جب بنگلہ دیش بنا تو ہندوستان کی مداخلت سے قبل ہی پاکستان نے آرمی آپریشن کے ذریعے لاکھوں بنگالی مسلمانوں کو قتل کرچکا تھا۔ اس وقت بنگالی مسلمان انہیں اپنی قوم نظر نہیں آئی ۔ اردو بیلٹ کے مسلمان عام طور پر ان غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے ۔ وہ مسلمانوں کے ذریعہ مسلمانوں کی خونریزیوں کی عجیب عجیب توجیہ پیش کرتے ہیں۔
٣. مسلم لیگ کے مغالطہ آمیز دو قومی نظریہ کو سمجھنا اور اس کی عظیم غلطی کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی یہ ٹھیک ٹھیک طے ہوسکے گا کہ منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کو کس طرح کا لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا ۔ اس اہم نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے جناح جیسے کردار آج بھی ہمارے یہاں مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں جس کا سیاسی فائدہ آخرکار ہندو فرقہ پرستوں کو ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ ہندو فرقہ پرستوں کی کامیابی کیلئے مسلمانوں کی طرف ایک جناح کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے ہندوعوام الناس کو متحد کرنے میں انہیں مدد ملتی ہے ۔ اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی مسلم پارٹی کی پرشور موجودگی اور اس کی للکار کس طرح مسلمانوں سے زیادہ ہندو ووٹوں کو متحد کردیتی ہے ۔
٤. ملک کا بٹوارہ نہ ہوتا تو ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی توازن پر ہوتی ۔ موجودہ قلیل تناسب کے ساتھ ملک میں مسلمانوں کیلئے جذباتی، احتجاجی اور للکارنے والی سیاست feasible نہیں ھے ۔ اگر وہ ایسا طرزعمل اختیار کرتے ہیں تو اس کا سیاسی فائدہ لازمی طور پر ہندو فرقہ پرستوں کو ہوگا، مسلمانوں کو نہیں۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ھے کہ مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کو ساورکر کے ہندو مہاسبھا نے سپورٹ کیا تھا ۔ داد دین پڑیگی ہندو لیڈرشپ کو ، کہ انہوں نے یہ درست طور پر سمجھ لیا تھا کہ اگر ہندوستان میں ہندو مسلم آبادی کا تناسب 40: 60 برقرار رہا تو ان کے ہندو راشٹر کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا اور نہ وہ کبھی مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر پائیں گے ۔ انہیں یہ خطرہ بھی لاحق تھا کہ اسلام کے مساوات سے متاثر ہوکر ملک کے %26 اچھوت اسلام کی طرف جاسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو متحدہ ہندوستان میں وہ mass conversion کو روک نہیں پائیں گے اور مسلمان اکثریت میں آجائیں گے ۔
