تحریر :مدثر احمد قاسمی
انسانی زندگی میں آرزوؤں اور تمناؤں کی کوئی انتہا نہیں ہے، اسی لئے یہ انسانی فطرت میں ہے کہ وہ بہتر سے اور بہتر اور زیادہ سے اور زیادہ کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسی انسانی فطرت کو ایک حدیث میں مثال کے ذریعے سمجھایا گیا ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر آدمی کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو اسے ایک تیسری وادی کی خواہش ہو گی اور اس کا پیٹ کسی چیز سے نہیں بھرے گا سوائے مٹی سے۔‘‘ (ترمذی)
اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ انسان جب تک قبر میں نہیں چلا جاتا، تب تک وہ زیادہ سے زیادہ کے لئےتگ و دو کرتارہتا ہے۔مذکورہ پس منظر میں ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف زیادہ سے زیادہ کی تلاش انسانی فطرت ہے وہیں دوسری طرف دین فطرت نے اس انسانی فطرت کو درست سمت دینے اور صحیح منزل اور مقام تک پہنچانے کے تعلق سے واضح رہنمائی بھی کی ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے دین فطرت اسلام نے بنی نوع انسان کو یہ بات سمجھائی ہے کہ دنیا کی زندگی فانی ہے اور یہاں کی اکثر چیزوں سے انسان دھوکے میں پڑجاتا ہے، جن سے بچنا اس لئےضروری ہے تاکہ آخرت کی لافانی زندگی سنور جائے۔ چنانچہ قرآن مجید میں مثال دے کر دنیا کی بے ثباتی اور یہاں کی چیزوں کے نقصانات کو سمجھایا گیا ہے جن کے لئے انسان دوڑ میں لگا رہتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘‘ (الحدید:۲۰)
ایک نکتے کو یہاں اجاگر کرنا بہت ضروری ہے کہ اسلام میں آگے بڑھنے سے منع نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس میں استثناء بھی ہے، چنانچہ وہ چیزیں جن سے آخرت کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی سنورے ان کے لئےآخری حد تک کوشش کرنا مستحسن قرار دیاگیا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے سورہ الحدید کی آیت نمبر۲۱؍ سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے:’’(اے بندو!) تم اپنے رب کی بخشش کی طرف تیز لپکو اور جنت کی طرف (بھی) جس کی چوڑائی (ہی) آسمان اور زمین کی وسعت جتنی ہے، اُن لوگوں کیلئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ، یہ اللہ کا فضل ہے جسے وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔‘‘
اس پہلو کی مزید وضاحت ایک حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حسد صرف دو صورتوں میں جائز ہے؛ ایک تو یہ کہ کسی آدمی کو اللہ تعالی قرآن سے نوازے اور وہ دن رات اس (کی تلاوت اور تعلیم و تدریس) میں لگا رہے اور دوسرا وہ شخص جس کو اللہ مال عطا کرے اور وہ دن رات اسے (وجوہ خیر میں ) خرچ کرتا رہے۔“(بخاری)
زیر بحث سیاق و سباق میں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی تعلیم و تعلم کے میدان میں اور مال و دولت میں اخلاص نیت اور انتفاع عام کیلئےایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہے تو اس کی اجازت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اب تک کی معروضات سے غلط فہمی کا شکار ہوکرہم اپنے روز مرہ کے معمولات میں سست پڑ جائیں اور کاروبار جہاں سنوارنے والے اعمال میں پست ہمتی کا مظاہرہ کر بیٹھیں ۔ یاد رکھئے! اسلام نے ہر میدان عمل میں ہمارے لئےایک معیار مقرر کر دیا ہے؛ چنانچہ اگر ہم کھانے پینے کی بات کرتے ہیں تو اسلام نے اس بات کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ انسان اس حد تک ضرورتگ و دو کرے کہ وہ اپنے لئےاور اپنے ماتحتوں کے لئےحلال رزق کا انتظام کر لے، ایسا نہ ہو کہ انسان اس باب میں ناکارہ ہوکر بیٹھا رہے اور بھیانک انجام تک پہنچ جائے۔ اسی طرح اگر ہم دینی معلومات کی بات کریں تو اس باب میں عام انسانوں کے لئےمعیار یہ ہے کہ وہ کم از کم اتنا علم ضرور حاصل کریں جس سے وہ حلال و حرام میں تمیز کر سکیں ؛ اگر کوئی اس معیار تک نہیں پہنچتا ہے تو وہ یقیناً اپنے لئےہلاکت کو دعوت دیتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں کس کام کے لئےکس حد تک آگے جانا ہے، اسلام نے واضح طور پر بتلا دیا ہے۔ اس لئےاس مسابقتی دور میں ہماری سب سے پہلی ضرورت ہر میدان میں اسلام کی تعلیم کو جاننا اور سمجھنا ہے، اگر ہم اس میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو ترقی کے صحیح معیار تک بآسانی پہنچ جائیں گے اور دنیا کے لئےایک مثال پیش کریں گے۔
