تحریر:محمد علی
قرآن کا ایک تاریخی نسخہ، جسے 200 سال قبل انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے ایک امام نے اپنے ہاتھ سے نہایت نفاست اور صفائی سے تحریر کیا تھا، آج بھی کیپ ٹاؤن میں موجود مسلمانوں کے لیے باعث فخر ہے۔ یہ تاریخی نسخے کیپ ٹاؤن کی ایک مسجد میں انتہائی احتیاط اور حفاظت سے رکھا ہوا ہے۔اس نسخے کو ہاتھ سے انتہائی خوش خط انداز میں تحریر کرنے والے امام کو ولندیزی (ڈچ) نوآبادکاروں نے افریقہ کے جنوبی حصے سے جلاوطن کر دیا تھا۔
قران کے اس قدیم اور تاریخی نسخے کو اوول مسجد کی تعمیرِ نو کے دوران مسجد کے بالائی حصے سے نکالا گیا تھا جہاں اسے کاغذ کے ایک بیگ (لفافے) میں لپیٹ کر رکھا گیا تھا۔ مسجد کی تعمیر نو کا یہ کام 1980 کی دہائی کے وسط میں ہوا تھا۔محققین کا خیال ہے کہ امام عبداللہ ابن قاضی عبدالسلام، جنھیں پیار سے ’توان گرو‘، یا ’ماسٹر ٹیچر‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، کو ولندیزی مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے کی سزا کے طور پر سنہ 1780 میں انڈونیشیا کے جزیرے ٹیڈور سے سیاسی قیدی کے طور پر کیپ ٹاؤن بھیجا گیا، جہاں انھوں نے اپنی یادداشت کی مدد سے قرآن کا یہ نسخہ ہاتھ سے تحریر کیا تھا۔
مسجد کمیٹی کے ایک رکن قاسم عبداللہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’قرآن کا یہ نسخہ مسجد کے بالائی حصہ (یا پرچھتی) سے انتہائی گرد آلود حالت میں ملا تھا۔‘ان کے مطابق ’قرآن کے اس نسخے کی حالت دیکھنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک سو سال سے اسی مقام پر موجود تھا۔‘مسجد کی تعمیر نو کے کام میں مصروف لوگوں کو ’ایک ڈبہ ایسا بھی ملا جس میں سے ’توان گرو‘ کے ہاتھ سے لکھی چند مذہبی تحریریں بھی ملی ہیں۔‘
جلد کے بغیر قرآن کا یہ نسخہ بے شمار صفحات پر مشتمل ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر اچھی حالت میں تھا، سوائے ابتدائی چند صفحات کے جن کے کنارے پھٹے ہوئے تھے۔عربی رسم الخط میں واضح طور پر قابل فہم خطاطی کے لیے استعمال ہونے والی سیاہ اور سرخ سیاہی جس کا استعمال کیا گیا، اتنا وقت گُزر جانے کے بعد اب بھی بہت اچھی حالت میں تھی۔
مقامی مسلم کمیونٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اس قدیم نسخے اور عظیم ورثے کو کیسے محفوظ رکھا جائے، جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ سنہ 1694 میں تحریر کیا گیا تھا۔ اُن کے لیے اس بات کو یقینی بنانا بھی اہم تھا کہ کیسے قرآن کے اس تاریخی نسخے کی چھ ہزار سے زیادہ آیات پر مشتمل تمام صفحات کو صحیح ترتیب میں رکھا جائے۔یہ کام مولانا طحہ کران (مرحوم) نے اپنے ذمے لیا، جو کیپ ٹاؤن میں قائم مسلم جوڈیشل کونسل کے سربراہ تھے، اور اُن کا اس کام میں کئی مقامی علما نے ساتھ دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ قرآن کے اس تاریخی نسخے کے صفحات کو ترتیب میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی جلد کا کام تین سال میں مکمل کیا گیا۔
اس کے بعد سے قرآن کے اس تاریخی نسخے کو اُس ’اوول مسجد‘ میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس مسجد کو بھی ’توان گرو‘ نے سنہ 1794 میں تعمیر کیا تھا اور یہ موجودہ جنوبی افریقہ کی پہلی مسجد ہے۔اس تاریخی اور نایاب نسخے کو چرانے کے لیے 10 سال قبل تین ناکام کوششیں ہوئی تھیں، جس کے بعد اس کی حفاظت کی نگران کمیٹی نے اسے مسجد کے سامنے ایک ایسے ڈبے میں رکھ دیا جس پر آگ اور گولی اثر انداز نہیں ہو سکتیں۔
’توان گرو‘ کے سوانح نگار، شفیق مورٹن کا خیال ہے کہ توان گرو نے پانچ میں سے پہلے نسخے کی تحریر روبن جزیرے پر قید کے دوران لکھنی شروع کی، یہ وہی قید خانہ تھا جہاں نسل پرستی کے خلاف آواز بلند کرنے والی مشہور شخصیت نیلسن منڈیلا کو بھی سنہ 1960 سے سنہ 1980 کی دہائی میں قید کیا گیا تھا۔خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر صفحات یا کاپیاں انھوں نے اُس وقت لکھیں تھیں جب ان کی عمر 80 سے 90 سال کے درمیان تھی، اور ان کے کارنامے کو زیادہ قابل ذکر سمجھا جاتا ہے کیونکہ عربی ان کی مادری زبان نہیں تھی۔
مسٹر مورٹن کے مطابق ’توان گرو‘ کو دو مرتبہ روبن جزیرے پر پابند سلاسل رکھا گیا، پہلی مرتبہ سنہ 1780 سے سنہ 1781 تک جب اُن کی عمر 69 برس تھی، اور دوسری مرتبہ سنہ 1786 سے سنہ 1791 تک۔مسٹر مورٹن مزید کہتے ہیں ’مجھے یقین ہے کہ گرو کے قرآن لکھنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے گرد موجود قیدیوں کے حوصلے اور ایمان کو مضبوط کرنا چاہتے تھے۔‘
اُن کے مطابق ’انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ اگر وہ قرآن کا ایک نسخہ لکھیں گے تو وہ اس سے اپنے لوگوں کو تعلیم اور شعور دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی انھیں استقامت کا درس اور سبق بھی دے سکتے ہیں۔‘’اگر آپ ولندیزی تاریخ کا جائزہ لیں تو اُس وقت استعمال ہونے والا کاغذ اور جو کاغذ ’توان گرو‘ نے قران کا نسخہ تحریر کرنے کے لیے استعمال کیا، اُن میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’توان گرو اپنے لیے بانس سے شاخوں سے خود قلم بناتے اور سیاہ اور سُرخ سیاہی نوآبادیاتی حکام سے حاصل کرنا اُن کے لیے آسان تھا۔‘شیخ اویسی، جنوبی افریقی اسلامی تاریخ کے ایک اُستاد ہیں جنھوں نے کیپ ٹاؤن میں ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآنی نسخے پر وسیع تحقیق کی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ توان گرو کو یہ نسخہ لکھنے کی تحریک اُس وقت کے حالات کو دیکھ کر ہوئی، وہ مسلمان قیدیوں اور غلاموں میں اپنے مذہب کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔اُن کے مطابق ’یہ وہ وقت تھا جب ولندیزی نوآبادیاتی حکام بائبل کی تبلیغ کر رہے تھے اور مسلمان غلاموں کا مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر دوسری جانب توان گرو قرآن کے نسخے تحریر کر رہے تھے، بچوں کو سکھا رہے تھے اور انھیں حفظ کروا رہے تھے۔‘مزید یہ کہ ’توان کا یہ عمل لچک اور استقامت کی کہانی بیان کرتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی تعلیم کی سطح کو ظاہر کرتا ہے جنھیں کیپ ٹاؤن میں غلاموں اور قیدیوں کے طور پر لایا گیا تھا۔‘توان گرو نے 613 صفحات پر مشتمل عربی زبان میں ایک اور کتاب بھی لکھی جس کا عنوان تھا ’المعرفة والايمان والاسلام‘ یعنی ’ایمان اور مذہب کا علم‘۔‘
یہ کتاب، اسلامی عقائد کے لیے ایک بنیادی رہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیپ ٹاؤن کے مسلمانوں کو ان کے عقیدے کے بارے میں سکھانے کے لیے 100 سال سے زیادہ عرصے تک اسی کتاب کا استعمال بھی ہوتا رہا ہے۔یہ کتاب اب بھی اچھی حالت میں موجود ہے اور راکیپ خاندان کے قبضے میں ہے، جو توان گرو کی اولاد میں سے ہیں۔ کیپ ٹاؤن کی نیشنل لائبریری میں بھی اسی کتاب کی ایک نقل رکھی گئی ہے۔شیخ اویسی کا مزید کہنا ہے کہ ’اپنے عقیدے سے متعلق جو کچھ انھیں یاد تھا وہ انھوں نے تحمل سے لکھا، ان کے مطابق یہ سب کرنے کا مقصد دیگر مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کرنا اور اُن کی اسلامی اصولوں کے مطابق رہنمائی کرنا تھا۔‘توان گرو کے ہاتھ سے لکھے گئے قرآن کے پانچ نسخوں میں سے تین کے حوالے اب بھی موجود ہیں۔ اوول کی مسجد میں ایک کے علاوہ باقی دو ان کے خاندان کی ملکیت ہیں جن میں ان کی پڑنواسی بھی شامل ہیں۔
قرآن کے اس تاریخی نسخے کی تقریباً ایک سو کاپیاں یا نقول تیار کی گئیں جن میں سے ایک اپریل میں یروشلم میں مسجد اقصیٰ کی لائبریری کے حوالے کی گئی، جو مذہبِ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ تاہم ان میں سے کچھ کو کیپ ٹاؤن آنے والے معززین کو بطور تحفہ دیا گیا۔مئی 2019 میں جنوبی افریقہ میں ایک مسلم سیاسی جماعت ’الجماعہ‘ کے رہنما گنیف ہینڈرکس نے پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر حلف اٹھانے کے لیے اس قرآن کی ایک نقل کا استعمال کیا۔ولندیزیوں کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ توان گرو جنھیں جنوبی افریقہ میں جلاوطن کیا گیا وہ نادانستہ طور پر مذہبِ اسلام کو دنیا کے اس حصے میں پھیلانے کا محرک ثابت ہوں گے۔ کیپ ٹاؤن میں اب مسلمان کیپ ٹاؤن کی کُل 46 لاکھ کی آبادی کا پانچ فیصد ہیں۔
مسٹر مورٹن کے مطابق ’جب وہ کیپ ٹاؤن آئے، تو ’توان گرو‘ نے دیکھا کہ مذہبِ اسلام کی حالت کافی خراب ہے اس لیے اُن کے پاس کرنے کو بہت کام تھے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’میں یہاں یہ کہوں گا کہ جو پہلا قران انھوں نے لکھا اسی کی وجہ سے آج یہاں مسلمان زندہ ہیں اور اس معاشرے میں پروان چڑھ رہے ہیں۔‘
