تحریر:مدثر احمد قاسمی
صحیح العقل انسان اپنی زندگی میں پر کیف مقام حاصل کرنے اور معرفت الٰہی سے لطف اندوز ہونے کے لئے روحانیت کا سفر طے کرتا ہےلیکن عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اس سفر میں کچھ لوگ صحیح راستے کا انتخاب نہیں کرپاتے ، کچھ صحیح راستے کا انتخاب تو کرتے ہیں لیکن بیچ ہی میں بھٹک جاتے ہیں اور کچھ ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو روحانیت کے اس سفر میں منزل تک پہنچ پاتے ہیں ۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ ایک عام انسان کو کس طرح پتہ چلے کہ روحانیت کا صحیح معیار کیا ہے؟ اس سوال کا بہت ہی آسان اور صاف جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر اس کی طرف اس جگہ رہنمائی کردی ہے جہاں پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور اس سے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے ۔‘‘ (آل عمران:۱۶۴)
زیر بحث موضوع کے سیاق و سباق میں اس آیت کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے چونکہ دنیا میں انسانوں کو اس لئےبھیجا ہے کہ وہ اپنے مالک حقیقی کو پہچانیں ،اس کی اطاعت کریں اور اس طرح حقیقی روحانیت سے لذت آشنا ہوں ؛ اس لئےاللہ تعالیٰ نے نبیوں کو تمام انسانوں کو معرفت الٰہی کا جام پلانے اور ان کے قلب کو صیقل کرنےکے لئےبھیجا۔ لہٰذا خاتم نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر قیامت تک روحانیت کے باب کا معیار یہ قرار پایا کہ انسان علوم الٰہیہ سے اپنے آپ کو لیس کرے اور اس کی روشنی میں قلب کی صفائی کا کام کرتا رہے۔ اس طرح اس سفر میں جو جس قدر آگے بڑھے گا وہ روحانیت کے اسی قدر بلند مقام پر پہنچے گا۔
ذکر کردہ باتوں کے آئینے میں جب ہم عام انسانوں کی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک عجیب بے تر تیبی نظر آتی ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ روحانیت کے حصول میں بہت سارے لوگوں کی نیت تو درست ہوتی ہے لیکن وہ علوم الٰہیہ کی روشنی میں تزکیہ قلب کے بجائے گمراہ کن افکار کا شکار ہو جاتے ہیں جو بظاہر نظروں کو خوشنما لگتے ہیں لیکن انجام کار کے اعتبار سے ہلاکت خیز ثابت ہوتے ہیں ۔ایسے لوگ خود تو ضلالت کی وادی میں پہنچتے ہی ہیں لیکن ساتھ میں بہت سےدوسرے لوگوں کو بھی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ۔ روحانیت کے باب میں بے تر تیبی کا شکار دوسری جماعت وہ ہے جو ہے تو صحیح راستے پر لیکن ان کے اعمال ان کو ہدف اصلی سے قریب کرنے کے بجائے دور کر دیتے ہیں ۔اس کو ہم ایک مثال سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں ۔ تزکیہ قلب اور معرفت الٰہی کے ذریعے روحانیت کے بلند مقام تک پہنچنے کیلئےنماز ایک بہترین عمل ہے؛ لیکن ہم یہ مقام اس نماز سے حاصل نہیں کرسکتے جس میں بظاہر مسجد میں ہوتے ہیں لیکن ہمارا دل و دماغ مسجد سے باہر کہیں گھوم رہا ہوتا ہے اور اسی طرح یہ مقام اس نماز سے بھی حاصل نہیں کر سکتے جس نماز میں معیت ِ الٰہی کے تصور کے بجائے ہم دنیاوی کارو بار کے حساب و کتاب میں کھوئے رہتے ہیں ۔ بہت سارے لوگ روحانیت کے باب میں مذکورہ دونوں صورتوں سے دوچار ہوتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ زندگی میں لطف نہیں ہے یا زندگی سکون و اطمینان سے خالی ہے۔ یاد رکھئے!ایسے تمام لوگوں کو زندگی میں سکون حاصل کرنے کیلئے صحیح راستے کا تعین کرنا ہوگا اور روحانیت کی منازل طے کرانے والے اعمال سے روزمرہ زندگی کو منور کرنا ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں سکون پیدا کرنے اورروحانی کیفیت حاصل کرنے کے لئےاپنی فکر کو صحیح سمت پر ڈالنا ہوگا اور اس کے لئےیکسوئی حاصل کرنی ہوگی بصورت دیگر تمام تر آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود ہم پریشانی اور گھٹن محسوس کریں گے اور ایک بے کیف زندگی بسر کریں گے۔ہمیں اس سلسلے میں کتاب اللہ، سنت رسول اللہ اور علمائے ربانی سے ضرور رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔
