تحریر:علامہ ابتسام الٰہی ظہیر
انسانوں کی ایک کثیر تعداد زندگی کی حقیقت اور اپنے مقصدِ تخلیق پر غور نہیں کرتی۔ انسان بالعموم اپنے جبلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو صرف کرتا رہتا ہے۔ مال کو اکٹھا کرنا، اپنے اور اپنی اولاد کے لئے اچھی خوراک، اچھے لباس اور اچھی رہائش کے حصول کے لئے تگ ودو کرنا اکثریت کا بنیادی مقصد بن چکا ہے۔ اگر انسان توجہ سے اپنی زندگی پرغور کرے تو اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ انسان کی زندگی مختلف طرح کی ناہمواریوں کا شکار ہے۔ انسان کو کبھی مالی مشکلات،کبھی مختلف طرح کی بیماریوں ،کبھی پھلوں ، کھیتیوں اور کاروباری نقصان اور کبھی اپنے اعزہ واقارب کی جدائی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ان پریشانیوں سے نکلنے کے لئے ہر انسان اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق تگ ودو کرتا ہے اور کئی مرتبہ ان مصائب سے نکلنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے؛ تاہم کئی مرتبہ یہ مصیبتیں ، پریشانیاں اور بیماریاں طول پکڑ جاتی ہیں اور انسان لمبے عرصے تک ان مصائب میں مبتلا رہتا ہے۔کتاب وسنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مصیبتیں درحقیقت ہماری سوچ اور فکر کی اصلاح کرنے اور ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے آتی ہیں ۔ لیکن انسان بالعموم ان مصائب کے باوجود اپنی تگ ودو کے رُخ اور اپنی نگاہ کے زاویے کو درست نہیں کرتا اور مال کی کثرت اور دنیاداری میں مسابقت کے حوالے سے سرگرم رہتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ التکاثر میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں :’’تمہیں کثرتِ مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت سے) غافل کر دیا، یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے، ہرگز نہیں ! (مال و دولت تمہارے کام نہیں آئیں گے) تم عنقریب (اس حقیقت کو) جان لو گے، پھر (آگاہ کیا جاتا ہے:) ہرگز نہیں ! عنقریب تمہیں (اپنا انجام) معلوم ہو جائے گا۔‘‘ (۱۔۴)
دیکھنے میں آیا ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد دنیا کی زندگانی کو حرفِ آخر سمجھ لیتی ہے اور اپنے انجام کو یکسر فراموش کئے رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کی اس کوتاہ بینی کا ذکر سورۃ الاعلیٰ میں یوں فرماتے ہیں : ’’تم دنیاوی زندگی (کی لذتوں ) کو اختیار کرتے ہو، حالانکہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔‘‘
دنیا میں رہتے ہوئے دین اور دنیا میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور دنیا وآخرت کی بھلائی کیلئے سرگرم رہنا کسی بھی طور نامناسب نہیں بلکہ آخرت کو مقدم رکھتے ہوئے انسانوں کو دنیا کے حصول کے لئے بھی ساتھ ساتھ تگ ودو کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۲۰۱؍ میں مسلمانوں کی ایک بہترین دُعا کا ذکر فرماتے ہیں :’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘
اس کے مدمقابل دنیا کو حرفِ آخر سمجھ کر اپنی تمام تر جدوجہدفقط حصول ِ دنیا کیلئے صرف کر دینا اللہ تعالیٰ کی نظروں میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ فرما دیجئے: کیا ہم تمہیں ایسے لوگوں سے خبردار کر دیں جو اعمال کے حساب سے سخت خسارہ پانے والے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا اور (مرنے کے بعد) اس سے ملاقات کا انکار کردیا ہے سو ان کے سارے اعمال اکارت گئے پس ہم ان کیلئے قیامت کے دن کوئی وزن اور حیثیت قائم نہیں کریں گے۔‘‘
( سورہ الکہف:۱۰۳؍تا۱۰۵)
زندگی کی حقیقت جہاں باریک بینی سے کتاب وسنت کے مطالعے سے واضح ہوتی ہے وہیں انسان کی زندگی میں آنے والے نشیب وفراز بھی انسان کی رہنمائی اسی حقیقت کی طرف کرتے ہیں ۔ یہ دنیا ناپائیدار ہے اور یہاں کسی کو بھی دوام اور بقا حاصل نہیں ۔ اگر دنیا میں ہمیشہ کسی کو رہنا ہوتا تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبی کریمﷺ اس دنیائے فانی سے کبھی رخصت نہ ہوتے لیکن آپ ﷺ کی رحلت نے اس بات کو ثابت کیا کہ دنیا میں کوئی شخص ہمیشہ نہیں رہے گا۔
نجانے انسان دوسروں کو فنا کے گھاٹ اترتا دیکھ کر بھی اس کوتا ہ بینی کا شکار کیوں رہتا ہے کہ شاید میں ہمیشہ اس دنیا میں رہوں گا۔ انسان کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ ہمیں بھی جلد یابدیر اپنے پروردگار عالم کے پاس جانا ہو گا اور اُس کی بارگاہ میں جانے کے بعد ہمیں اپنے اعمال کے حوالے سے جوابدہ ہونا ہو گا۔ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جس کا حقیقی نتیجہ یومِ حساب کے دن ہر انسان کو تھما دیا جائے گا:’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعۃً کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں ۔‘‘(سورہ آلِ عمران: ۱۸۵) اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کے دن دائیں پلڑے کے بھاری ہونے کے بعد ہمیشہ کی کامیابی کی نوید سنائی اور بایاں پلڑا بھاری ہونے پر جہنم کے انگاروں کا ذکر کیا:
’’پس وہ شخص کہ جس (کے اعمال) کے پلڑے بھاری ہوں گے، تو وہ خوش گوار عیش و مسرت میں ہوگا، اور جس شخص کے (اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوں گے، تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ (جہنم کا گڑھا) ہوگا، اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ ہاویہ کیا ہے، (وہ جہنم کی) سخت دہکتی آگ (کا انتہائی گہرا گڑھا) ہے۔‘‘ (سورہ القارعہ:۶؍تا۱۱)
اِن آیات مبارکہ سے یہ بات سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ جو لوگ دنیا کے حصول کے لئے ہر جائز وناجائز ذریعے کو اختیار کرتے ہیں وہ ضرور بالضرور ناکام ہوں گے اور ان کے مدمقابل کامیابی اُنہی لوگوں کو حاصل ہو گی جو اس دنیا میں رہتے ہوئے اپنی خواہشات کو دباتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے پیشی کے احساس کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری رہنمائی کرے اور ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو دُنیا سے اِس انداز میں رخصت ہوں کہ اُخروی کامیابی کی نوید اُن کو بوقت رخصت ہی سنائی جا رہی ہو اور وہ ہمیں ناکام اور نامراد لوگوں میں شامل ہونے سے بچا لے، آمین !
