تحریر:عبدالعزیز
اسلام تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے۔ اسلام میں ”عورت اور مرد دونوں پر تعلیم حاصل کرنا یکساں فرض ہے“۔ حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ لڑکوں پر فرض ہے لڑکیوں پر فرض نہیں ہے۔ یہ بھی نہیں کہا گیا کہ لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم سے مرصع کیا جائے لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھا جائے۔ فائدے اور ضرورت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو عورتوں کی تعلیم مردوں سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر ایک کامیاب مرد کے پیچھے اس کی ماں کی بہترین تربیت اور بیوی کی حمایت اورساتھ ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلی اور بہترین درس گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم ہی تھا جس سے نہ صرف صحابیہؓ فائدہ اٹھاتی تھیں بلکہ اکثر و بیشتر صحابہ کرامؓ بھی پردے کی آڑ سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ عورتوں کے متعلق سارے مسائل ادھورے رہ جاتے اگر حضرت عائشہؓ اپنے عالمانہ فرائض کی ادائیگی نہیں کرتیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا عرب کی عظیم ترین تاجروں میں سے ایک تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں ’مدینہ مارکیٹ‘ کی دیکھ بھال کے لئے ایک خاتون کو ایک اعلیٰ عہدہ پر مقرر کیا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ خواتین مردوںکے ساتھ میدانِ جنگ میں بھی شریک رہتی تھیں اور اپنی استطاعت کے مطابق ضروری کام انجام دیا کرتی تھیں۔ عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھنے والے نہ صرف عورتوں کے مخالف ہیں بلکہ اسلام ، شریعت، عدل و انصاف اور انسانیت کے خلاف ہیں۔
طالبان نے اپنے ملک میں معجزاتی کام انجام دیا ہے اور تاریخ میں ان کا نام سنہرے حرفوں سے درج رہے گا کہ اپنے وقت کی سب سے بڑی طاقت کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہوئے۔ تقریباً 20 سال تک امریکہ کی جارحیت، بربریت کا وہ مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔ آخر کار امریکہ کو بڑے آبرو ہوکر افغانستان سے جانا پڑا۔ یہ طالبان کا کمال ہے مگر اس کمال میں اللہ کی نصرت اور مدد شامل حال ہے۔ اس وقت جو خبریں آرہی ہیں اس سے پتہ چل رہا ہے کہ طالبان خواتین کو اعلیٰ تعلیم دینے سے روک رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ان کے داخلے پر پابندی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہندستان اور پاکستان اور دیگر ملکوں کے علماءطالبانی حکومت کو قرآن و سنت میں سمجھائیں کہ عورتوں کے لئے تعلیم کس قدر ضروری ہے۔
اسلام جہالت کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے: اسلام جہالت کو کس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے یہ جاننا ضروری ہے۔ اسلام جہالت کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے کیونکہ علم کی ضد جہالت ہے۔ علم روشنی ہے اور جہالت تاریکی ۔ روشنی آتے ہی تاریکی دور ہوجاتی ہے۔ علم و ایمان لازم و ملزوم ہیں اسی طرح جہالت و کفر لازم و ملزوم ہیں۔ قرآن نے جہالت کے انہی تباہ کن نتائج کی بنا پر اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے جہالت اور ایمان کو ایک دوسرے کی ضد قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ جاہلوں کے پاس اگر فرشتے بھیج دئیے جاتے اورمردے ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام موجودات کو ان کی آنکھوں کے روبرو لاکر جمع کردیا جاتا تب بھی وہ ایمان نہ لاتے۔ (111:6)
حضرت نوح علیہ السلام کے علمی و عقلی دلائل جب ان کی قوم پر کوئی اثر نہ ہواتو انہوں نے اس کا سب سے بڑا سبب یہی بیان کیا کہ مجھے نظر آرہا ہے کہ تم وہ لوگ ہو جو جہالت میں مبتلا ہو۔ (39:11)
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم بھی جہالت کی وجہ سے ایمان لانے سے قاصر رہی تھی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے کفر پر جمے رہنے کا سبب ان کی جہالت بیان کیا تھا (117:37)۔ جہالت اتنی تباہ کن اور خوفناک چیز ہے کہ شعور لاشعور میں بھی اس سے ہوشیار رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا فلاتکون من الجاھلین (35:6)
”دیکھو ان میں سے نہ ہوجاﺅ جو حقیقت کا علم نہیں رکھتے “۔
جہالت کی انہی تباہ کاریوں کا نتیجہ تھا کہ حضرت موسیٰؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر جہالت سے پناہ مانگتے تھے۔ (97:2)
قرآن سے یہ بات صریحاً واضح ہوجاتی ہے کہ جہالت کفر سے بھی بری چیز ہے اس لئے اکثر جگہوں پر جاہلوں کو لاعلاج قرار دیتے ہوئے ان سے اعراض کرنے کی ہدایت کی گئی ہے (واعرض من الجاھلین ) (198:7)
قرآن مجیدنے جہالت کی شدید مذمت اس لئے بھی کی ہے اس کی موجودگی میں ایمان کا حصول تو درکنار عام انسانی سطح کا حصول بھی ناممکن ہے۔ قرآن نے علم و عقل سے بیگانہ لوگوں کو حیوان سے بد تر قرار دیا ہے بلکہ یہاں تک کہا کہ وہ حیوانوں میں سے بد ترین قسم کے حیوان ہیں ۔(22:8)
قرآن نے بتایا کہ جو لوگ اسلام کی بالادستی قبول کرلیتے ہیں لیکن عقل کے کورے ہوتے ہیں علم سے نسبت نہیں رکھتے ۔”جاہل گنوار کہتے ہیں ہم ایمان لائے۔آپ فرما دیجئے کہ تم ایمان تو نہیں لائے لیکن یوں کہو کہ ہم نے مخالفت چھوڑ کر اسلام کی بالادستی قبول کرلی ہے ایمان ہمارے دلوں میںداخل نہیں ہوا ہے۔ (الحجرات14:49)
اس نظریہ کی اللہ نے قرآن مجید میں مزید وضاحت یوں فرمائی ہے:”جاہل گنوار کفرو نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور ان کی حالت اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ وہ ان حدود کی حکمتوں کو نہ سمجھیں جنہیں اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے۔ (97:9)
حرف آخر: آخر میں اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ علمی دھماکوں کے اس دور سے اہل ایمان کو خاص طور سے متاثر اور مرعوب ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ کامل حقیقی اور غیر محدود علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ تعالیٰ کی ذات مبارکہ کو حاصل ہے (انما العلم عنداللہ)
سر آئزک نیوٹن جسے اسحاق نیوٹن بھی کہاجاتا ہے جو بابائے سائنس(Father of Science) بھی کہلاتے ہیں کہاتھا
I seem to myself like a child before the knowledge of the occean collecting pebbles and shells at the seashore, what I know is very little and what do not know is very much.
میں بحرمعلومات کے سامنے ایک ایسے بچے کے مانند ہوں جو سمندر کے کنارے بیٹھ کر سیپ اور گھونگھے چن رہا ہو اور بحرمعلومات کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہواور حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ میں جانتا ہوں وہ بہت کم ہے اور جو نہیں جانتا ہوں وہ بہت زیادہ ہے۔“
پوری دنیا مل کر آج بھی کل بھی یہی کہنے پر مجبور ہے جسے اسحاق نیوٹن نے اپنی زندگی کے آخری زمانے میں کہا تھا۔
انسان نے جو کچھ حاصل کیا ہے یا آئندہ حاصل کرے گا وہ سب اللہ تعالیٰ کا عطیہ (Delegated) ہے۔ انسان کو جو محدود ذرائع حاصل ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے عطا کردہ ہیں۔ سماعت و بصارت اور تفکر کی قوتیں اسی نے دی ہیں ۔ انسان کے علم کے مطابق یہ واضح کردی گئی ہے کہ وہ صدیوں سے حاصل کردہ ترقیوں کے باوجود مستقبل میں ہونے والے انکشافات سمیت بہت ہی محدود ہے۔ خدا کے علم کامل کے سامنے رکھتے ہوئے انسان کی علم کی وہ نسبت بھی نظر نہین آتی جو قطرہ کو سمندر سے ہے۔ جب انسان کو صحیح معنوں میں اپنے علم قلیل کی محدودیت کا اندازہ ہوجائے تو لازمی طورپر طلب علم پیداہوگی پھر وہ علم کامل کے سرچشمہ سے استفادہ کرنے کے لئے کوشاں ہوگا اور اسی سے استفادہ کا وسیلہ تلاش کرے گا۔اپنے علم کی محدودیت کا شعور انسان کو اس جسارت بے جا سے روکنے کا ذریعہ ہے اپنی ناقص اور مشکوک معلومات پر نت نئے نظاموں اور تمدنوں کے غیرمتوازن ڈھانچہ کھڑے کرنے اور اس پر اندھا دھند انسانی قربانیوں اور محنتوں کی بھاری مقداریں صرف کرے اور پھر یکے بعد دیگرے خوفناک تباہی کے ساتھ توٹ ٹوٹ کر گرتے رہیں۔
اسلام کا تصور علم بتاتا ہے کہ انسانی علم کائنات میں خدائی اور کارفرمائی کا پارٹ ادا کرنے کے لئے کافی نہیں بلکہ اس علم کی محدود یت گواہ ہے کہ انسان بندگی و نیابت کے مقام پر وہ کسی بالاتر ہستی کے زیر ہدایت کام کرنے کے لئے پیداکیاگیا ہے۔
انتہائی کم وقت میں اسلام کے تصور علم پر مختصراً روشنی ڈالنے پر اکتفا کرتا ہوں مگر مجھے اس کا احساس ہے کہ حق ادا نہیں ہوگا ،جب تک وہ علم جو جہالت ، قیاس یا سائنسی تحقیقات پر مبنی ہے جس میں خدا بیزاری، آخرت سے انکار اور رسالت سے گریز کا فلسفہ پایاجاتا ہے اس پر نہ روشنی ڈالی جائے کیونکہ یہی چیزیں رائج ہےں جسے ہم رات دن دیکھ رہے ہیں، محسوس کررہے ہیں بلکہ اس کا تلخ گھونٹ سمجھ کر پی رہے ہیں اس لئے بغیر بیان کئے ہوئے بھی ہم سمجھ سکتے ہیں ، اسلامی اسکول کا تصور اسلامی نظامِ تعلیم یا اسلامی تصورِ علم سے ماخوذ اورمرتب ہوتا ہے ۔ بندہ ¿ رب کو اچھا اورصالح انسان بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسلامی اسکول کا قیام بڑے پیمانے پر کریں۔ اس میں کوتاہی کریں گے تو شاید ہی اللہ ہمیں معاف کرے کیونکہ ہم اچھی طرح اسلام اورجہالت سے واقف ہیں۔ اس موقعے پر یہی کہاجا سکتا ہے
’یک لحظہ غافل گشتم وصدسالہ ہم دور شد‘ (اگر ایک لحظہ ہم غافل ہوئے تو صدیوں پیچھے چلے گئے)
اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال دنیا کی ان نابغہ ¿ روزگار ہستیاں تھیں جنہوں نے اسلام کی زبردست خدمات کی تھیں اور قوم و ملت کے لئے اپنے قلم کی پوری طاقت لگادی مگر جب دیکھا کہ مغربی سیلاب رک نہیں پا رہا ہے ۔ کچھ لوگ کچھ بھی تو کہہ رہے ہیں تو پھر انہیں سراہنا شروع کیا۔اکبر نے کہا
میری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا …. خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
ملت کے نوجوانوں سے بھی کہا
شوق سے کالج میں پھلو پارک میں پھولو …. جائزہے غباروں میں اڑو چرخ کو چھولو
بس ایک سخن بندہ ¿ عاجز کا رہے یاد …. اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
علامہ اقبالؒ نے بھی اسی عبوری راستے (Transitive Period) کو اپناتے ہوئے اپنے بیٹے جاوید اقبال اور ملت کے دیگر نوجوانوں کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی تعلیم دی
جوہر میں ہو لا الٰہ تو کیا خوف …. تعلیم ہو گو فرنگیانہ
شاخ گل پر چہک و لیکن …. کر اپنی خودی میں آشیانہ
