تحریر:شاہنواز
بدلتے جموں وکشمیر میں ترقی کی رفتارتیز ہے۔ سڑکیں،پل،عمارتیں،راستے،پی ایم اے وائی اور دیگر کئی فلاحی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم ہر ایک کامیابی کی بنیاد یعنی تعلیمی شعبے کی بات کریں تو اس سمت ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔دیگر اضلاع کی طرح جموں وکشمیر کے ضلع ریاسی کے تعلیمی زون مہور، تعلیمی زون چسانہ اور تعلیمی زون ارناس میں 2003 تعلیمی نظام کو بہتربنانے کے لئے ”سروو شکشا ابھیان“ کی شروعات ہوئی تھی۔ اس کے تحت جموں وکشمیر میں ہزاروں اسکول کھولے گئے۔ اسی اسکیم کے تحت جموں کشمیر کے ضلع ریاسی میں بھی سینکڑوں ا سکولوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سال 2004سے ابھی تک سینکڑوں سرکاری اسکول ضلع ریاسی میں بغیر عمارتوں کے رواں دواں ہیں۔باوثوق ذرائع سے حاصل کئی گئی معلومات کے مطابق ضلع ریاسی کے تعلیمی زون ارناس میں 21اسکول، تعلیمی زون مہور کے 89 اسکول اور تعلیمی زون چسانہ کے 90اسکولوں میں اس وقت بھی بغیر عمارتوں کے تعلیمی سرگرمیاں چل رہی ہیں۔ان اعداد و شمار کے مطابق ضلع کے صرف تین تعلیمی زونوں کے لگ بھگ200 اسکول ایسے ہیں جو کہ بیس برس گزر جانے کے بعد بھی ایک عمارت کے منتظر ہیں۔ان اسکولوں میں (۱) گورنمنٹ پرائمری ا سکول ملک پورہ ٹکسن زون مہور،(۲) گورنمنٹ پرائمری اسکول اوچھا دیول زون مہور،(۳) گورنمنٹ پرائمری سکول ناریون لار زون مہور،(۴) گورمنٹ پرائمری اسکول راوی والا بدھن زون مہور،(۵) گورنمنٹ پرائمری اسکول پارلی والا بدھن زون مہور،(۶) گورنمنٹ پرائمری اسکول کنتھالی بدھن زون مہور،(۷) گورنمنٹ پرائمری اسکول ڈاکہ ہاڑی والا پنچایت بدھن اے زون مہور،(۸) گورنمنٹ پرائمری اسکول موری بدھن زون مہور، (۹)گورنمنٹ پرائمری اسکول بٹ محلہ انگرالہ زون مہور،(۱۰) گورنمنٹ پرائمری اسکول دھار زون چسانہ،(۱۱) گورنمنٹ پرائمری اسکول چوٹ زون چسانہ اور(۱۲) گورنمنٹ پرائمری اسکو بگھار زون ارناس شامل ہے۔ جوآج بھی ایک عددعمارت کے منتظر ہیں۔
قارئین یہ چند ایک اسکولوں کے نام میں نے آپ کی سماعتوں کی نظر کئے ہیں۔لیکن یہ تعداس سے بھی زیادہ ہے۔جب اس سلسلے میں زیڈ ای او مہور موہن لال سے بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ مہور تعلیمی زون میں 89اسکول بغیر عمارات کے اپنے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے بارہ اسکولوں کے لئے رقومات واگزار ہوچکی ہے۔لیکن ابھی عمارتیں تعمیر نہیں ہوئی ہیں۔وہیں جب چسانہ زون کے انچارج زیڈ ای اواشوک چوپڑہ (اُس وقت کے پرنسپل ہائر سکنڈری اسکو ل چانہ) سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ تعلیمی زون چسانہ میں 90اسکول بغیر عمارتوں کے کام کر رہے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بغیر عمارتوں کے یہ اسکول درختوں کے سائے، پڑوسیوں کے گھر اور شیڈوں میں آباد ہیں۔اسی ضمن میں جب زیڈ ای اوارناس کستوری لال سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے تعلیمی زون ارناس میں 21اسکول بغیر سرکاری عمارات کے اپنے تعلیمی سفر کو لیکر چل رہے ہیں۔ سینکڑوں سرکاری اسکولوں کی عمارتیں نہ ہونے پر بلاک مہور کی پنچایت ساڑھ لور کے سرپنچ محمد مشتاق کہتے ہیں کہ تعلیمی نظام کو لیکر سرکار جس طرح کے دعوے کررہی ہے اس سے قبل سرکار کو ملک کے ہر کونے، ہر گلی پر نظام تعلیم کو دیکھنا چاہئے تھا۔انہوں نے کہاکہ اگر سابقہ سرکاروں سے کوئی خامیاں رہیں تو موجود ہ اقتدار کو ان خامیوں کو درست کرنا چاہئے اور ان طلباء کے مستقبل کیلئے اقدامات کرنے چاہئے۔انہوں نے برسراقتدار افسران اور لیڈران سے اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ان طلباء کے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے اور ان اسکولوں کے لئے عمارت تعمیر کی جائے۔
اسی سلسلے میں مہور کے ایک سماجی کارکن بشیر الدین نے بتایا کہ سب سے پہلے سرکار تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اتنے اسکولوں کے پاس اپنی ہی عمارت نہیں ہے تو ان میں زیر تعلیم طلباء کن مسائل و مصائب کا سامنا کرتے ہوں گے؟ بشیر الدین نے کہا کہ سرکار کو شعبہ تعلیم کو بہترین بنانے کے لئے اولین ترجیح پرکام کرنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ایک مقامی اشفاق حسین کہتے ہیں کہ اْن کے بچے زون مہور کے گورنمنٹ پرائمری ا سکول ملک پورہ ٹکسن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔جس کی اپنی عمارت نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو استاد تعلیم اچھی دے رہے لیکن ہمارے بچے بغیر عمارت کے اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ا ن بچوں کو دھوپ، گرمی، سردی،بارش یعنی ہر حال میں اپنے تعلیمی سفر کا رواں رکھنا ہوتا ہے۔انہوں نے مزیدکہاکہ سرکار کی جانب ظہرانہ، اسکالرشپ تو دیا جاتا ہے،جو قابل داد اقدامات ہیں لیکن اسکول کیلئے عمارت بنیادی لوازمات میں شامل ہے جو ہونی چاہئے۔ جس سے ہمارے بچوں کا تعلیمی سفر آسان ہو سکتا ہے۔اشفاق حسین نے مزید کہا کہ پنچایت بدھن اے میں پانچ سکول بغیر عمارتوں کے چل رہے ہیں۔وہیں سرپنچ زرینہ بیگم نے بتایا کہ ہمارے بچے کافی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک جانب ہم ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں چل رہے ہیں اور دوسری جانب ہمارے بچوں کوسر چھپانے کے لئے چھت ہی نہیں ہے۔ضلع ریاسی کے تین تعلیمی زنوں میں اسکولوں کی عمارت کی عدم دستیابی کے سلسلے میں ڈی ڈی سی وائس چیئر پرسن ریاسی ساجرہ قادر سے بات کی گئی تو انہوں اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ تعلیمی زونوں میں کافی سرکاری سکول ہیں جو ابھی بھی بغیر عمارتوں کے تعلیمی سفر کو لیکر روں دواں ہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ جہاں پر انتہائی اول فرست میں عمارتیں تعمیر کرنے کی ضرورت تھی تومہوراور چسانہ کے چند سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کے لئے اپنے کپیکس بجٹ سے رقومات واگزار کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی اپنی طرف سے مکمل کوشش کر رہی ہیں کہ متعلقہ علاقوں میں جتنا جلد ہو سکے اسکولوں کیلئے عمارتیں تعمیر کی جائیں۔
بغیر عمارتوں کے دو سوا سکولوں کے بارے میں جب چیف ایجوکیشن آفیسر، ریاسی سومیتا بالی سے بات کی گئی تو اْنہوں بتایا کہ کئی ایک مقامات پر سرکاری اسکول کو تعمیر کرنے کے لئے اراضی ہی نہیں ہے اور کئی اسکولوں کے لئے لوگوں نے اراضی دی ہے۔ لیکن وہ اسکولوں کے نام نہیں کی ہے بلکہ صرف فرد کاٹے گئے ہیں۔ جو لوگ سرکاری اسکولوں کے لئے اپنی ملکیت اراضی وقف کریں گے اْنہیں تحریراً لکھ کر دینا ہوگا کہ وہ سرکاری اسکول کے لئے وقف کی گئی اراضی کے عوض میں بعد میں معاوضہ یا سرکاری نوکری کا مطالبہ نہیں کریں گے کیونکہ جو لوگ سرکاری اسکولوں کے اراضی وقف کریں گے ان کے لئے محکمہ کے پاس سرکار کی طرف سے نہ کوئی معاوضہ ہے اور نہ ہی کوئی سرکاری نوکری دینے کا منصوبہ ہے۔ چیف ایجوکیشن افیسر موصوفہ نے بتایا کہ جہاں جہاں سے اْن کے نوٹس میں بات آئی ہے اورجہاں اراضی کا مسئلہ مکمل ہو اہے،وہاں عمارت تعمیر کروانے کے لئے شد و مد سے کوششیں جاری ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سرکار کی جانب سے نئی تعلیمی پالیسی کے تعلیمی میدان میں ایک نئی جہت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ لیکن ضلع ریاسی کے ان تین تعلیمی زونوں میں اسکولوں کی عمارات کی عدم دستیابی باعث تشویش ہے کہ آخر ان اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے تعلیمی معیار کا کیا حال ہو گا؟کیونکہ ان اسکولوں میں غریب بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان تین تعلیمی زونوں کے 200 کے قریب سرکاری اسکولوں کے ہزاروں طلاب کا مستقبل کیسا ہوگا؟
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ جن بچوں نے ان بیس برسوں میں ان دو سوا سکولوں سے تعلیم حاصل کی ہوگی اْنہوں نے کن حالات سے مقابلہ کیا ہوگااور اب کے زیر تعلیم طلباء ڈیجیٹل ہندوستان میں کن مصائب کا سامنا کر رہے ہوں گے؟قارئین دو دہائیوں سے یہ سرکاری اسکول عمارات کے منتظر ہیں۔ان سرکاری اسکولوں میں عمارات کی عدم دستیابی کی وجہ سے سینکڑوں طلاب شدت کی سردی اور گرمی،دھوپ،بارش یعنی ہر حال میں کھلے آسمان تلے یا کرائے کی عمارات یا پھر شیڈوں میں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔حیرت اس بات کی ہے کہ ایک جانب ہم ڈیجیٹل ہندوستان کی بات کر رہے ہیں، جی 20کی میزبانی کر رہے ہیں، سڑکیں اور شاہراہیں بنا رہے ہیں لیکن ان سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کے مستقبل کی جانب کوئی توجہ نہیں دے پا رہا ہے جبکہ اسی جانب خصوصی توجہ دئے جانے کی ضرورت ہے۔ (چرخہ فیچرس)
