از:منصور الدین فریدی
میں سنجیو صراف صاحب کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں جنہوں نے ہم سب کو ریختہ جیسا تحفہ دیا ،ان کے شوق اور خدمت کو سلام ۔ میں ریختہ کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں ،یہ تو بے مثال ہے،دنیا میں ایسا ملک بھی ہے جس کی اردو سرکاری زبان ہے،اس کے علاوہ اور بھی ممالک ہیں خواہ امریکہ ہو یا کینیڈا ہو ،مگر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوسکی کہ اردو کے نام پر کچھ ایسا ٹھوس کا م کرسکے ۔ آج اردو کے نام پر کچھ بھی تلاش کرنا ہو تو ہم سب ریختہ کی ویب سائٹ کا رخ کرتے ہیں ۔یہ ہے کامیاب ریختہ کی ،اردو کے ہر مسئلہ کا حل ریختہ ہے۔
یہ الفاظ اور تاثرات ہیں ممتاز شاعر اور دانشور جاوید اختر کے جو انہوں نے راجدھانی میں جشن ریختہ 2023 کے افتتاحی تقریب میں ظاہر کئے۔ انہوں نے سنجیو صراف کے اس کارنامہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ اب جشن ریختہ ایک پہچان بن گیا ہے ،لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں ،کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ کیا ہے۔میں ممبئی ایرپورٹ پر تھا تو کئی لوگوں نے سلام دعا کی اور پورے جوش و اعتماد کے ساتھ کہا کہ ۔۔۔ آپ جشن ریختہ میں شرکت کے لیے دہلی جارہے ہیں ۔
جاوید اختر نے کہا کہ جشن ریختہ اب زندگی کا حصہ ہے اور اردو والوں کے لیے ایک انمول تحفہ ہے۔
ہر سال محفل لوٹنے کا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں جاوید اختر
اس موقع پرریختہ فاونڈیشن کے بانی سنجیو صراف نے افتتاحی تقریب میں سب سے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا پسند کیا کہ اس بار جشن ریختہ میں داخلہ مفت کیوں نہیں تھا؟ انہوں نے پہلے یہ شعر پیش کیا کہ
دیوانے اتنے جمع ہوئے شہر بن گیا
جنگل کے حق میں جوش و جنون زہر بن گیا
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال جشن ریختہ میں کورونا کے بعد زبردست بھیڑ ہوئی تھی،بھیڑ اس قدر زیادہ ہوگئی تھی کہ اس کے لطف میں کمی آگئی تھی ۔اس لیے مشورے کی بنیاد پر ٹکٹ کا نظام نافذ کیا گیا ہے
سنجیو صراف نے کہا کہ ریختہ کی کامیابی یہ ہے کہ پچھلے سال کے دوران ویب سائٹ پر دو کروڑ افراد نے دستک دی ،جس نے ریختہ کو دنیا کی سب سے بڑی اردو لغت بنا دیا ۔یہی نہیں ریختہ نے ابتک تین لاکھ کتابوں کو اسکین کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے
اس مرتبہ میر تقی میر کو خاص طور پر یاد کیا گیا ہے ۔ سنجیو صراف نے کہا کہ ریختہ نے اب اردو اور شاعری سیکھنے کے لیے ’ایب‘ لانچ کئے ہیں جو نئے شاعروں کے لیے بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ کسی نے کہا تھا کہ
شعر اچھا برا نہیں ہوتا
یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا
انہوں نے اپنی شریک حیات ہما خلیل کی تعریف کی اور کہا کہ جشن ریختہ میں جو بھی خوشگوار تبدیلیاں محسوس کرریں گے وہ ہما خلیل کی ہی دین ہیں ۔
سنجیو صراف نے اپنی تقریر میر تقی میر کے اس شعر کے ساتھ کی کہ ۔۔۔
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
جشن ریختہ میں حسب روایت امذا لوگوں کا سیلاب
اس سال جشن ریختہ میں داخلہ فیسلاگو کی گئی جبکہ مرکزی ہال میں نصف حصہ ٹکٹ والوں کے لیے بک رکھا گیا تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ ریختہ فاونڈیشن کا یہ قدم مہنگا پڑ سکتا ہے اور جشن ریختہ کی رونق متاثر ہوسکتی ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ میجر دھیان چند نیشنل اسٹیڈیم میں عاشقان اردو کی بھیڑ نے سیلاب کی شکل اختیار کی ۔کسی کو ریختہ فاونڈیشن کے اس فیصلے سے کوئی شکایت نظر آئی نہ تکلیف۔
دلی کے ناظم اختر نے کہا کہ جشن ریختہ اب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے آپ پیسے کی بنیاد پر نہیں تول سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ اگر ٹکٹ کی قیمت ادا کرنے سے ریختہ کی بنیاد مضبوط ہوگی تو یہ ہم سب کے لیے بھی بہتر ہوگا ۔ ایک اور ریختہ پریمی امیش کمار نے کہا کہ میں طالب علم ہوں لیکن مجھے ٹکٹ کے لیے تین سو روپئے ادا کرنے میں کوئی شکایت نہیں ۔ ہم سب کو یہ دیکھنا چاہیے کہ آخر ایک پلیٹ فارم پر ہمیں بیک وقت کیا کیا مہیا کرایا جارہا ہے ۔ ہر کسی کی دلچسپی کا سامان موجود ہے ۔یہ ایک عظم خدمت اور سروس ہے۔ انجوائے کریں ۔
