تحریر:غوث سیوانی
قدیم ہندوستانی روایات میں سے یہاں کے لوک گیت بھی ہیں۔ یہ لوک گیت عوام کے مزاج اور سوچ کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ شادی بیاہ ہوں یا بچوں کی پیدائش، فصل کی بوائی کا موسم ہو یا کٹائی کا، خواتین گھر میں چکی پیس رہی ہوں یا ہاتھ میں گودنے گدوارہی ہوں،بسنت کے موسم میں باغوں میں جھولے جھولنے کا موسم ہو یا برسات میں رم جھم پھواروں کا،گاؤوں میں گیت گائے جاتے ہیں اور اس میں خصوصی دلچسپی خواتین کو رہتی ہے۔ شادی کی ہر رسم کے ساتھ ایک گیت گایا جاتا ہے اور ایسے گیتوں کو تقریباتی یاسنسکار گیت کہتے ہیں۔یہ روایت ملک کی تہذیبی تاریخ کا حصہ رہی ہے اور ہر علاقے، ہر برادری اور ہر زبان کے لوگوں میں دیکھی گئی ہے۔
جوگیت قدیم دور سے چلے آرہے ہیں اور عوام کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں، ان میں ایسے گیتوں کی بھی کمی نہیں جنھیں خاص بزرگوں اور صوفیوں کی مدح میں گایا گیا۔ حالانکہ بعض گیتوں کے مضامین حمدیہ، نعتیہ ہوتے ہیں اور بعض میں اہل بیت اطہار کی منقبت ہوتی ہے مگر اسی کے ساتھ سینکڑوں ایسے لوگ گیت بھی رائج ہیں جن میں صوفیوں اور بزرگان دین کی مدح سرائی کی جاتی ہے۔ اس قسم کے گیت بھوجپوری، اودھی، پوربی، روہیل کھنڈی،بندیل کھنڈی، برج بھاشا، راجستھانی، کشمیری، گوجری، پنجابی اور سندھی سے لے کر بنگالی اور آسامی تک میں موجود ہیں۔ایسے ہی گیتوں میں شامل ہے وہ مشہور قوالی جسے اکثر قوالوں کو گاتے سنا جاتا ہے
آج رنگ ہے، ایمان کا رنگ ہے
مرے خواجہ پیا کے گھر رنگ ہے
میں نے پیر پایو نظام الدین اولیاء
نظام الدین اولیاء، علاء الدین اولیا
اترپردیش کے لوک گیتوں میں بیشتر مذہبی گیت حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت سید سالار مسعود غازی کے بارے میں ہیں۔ ان میں ایک گیت ہے:
موری ڈوری لگی اجمیر خواجہ پیر کی
کارے اٹھالاؤں الاّ تیری مہجت
کارے اٹھالاؤں خواجہ ترا روجا
کنکر اٹھالاؤں الاّ تیری مہجت
پتھر اٹھالاؤں خواجہ تیرا روجا
عرس کی رسموں میں ایک گاگر کی رسم شامل ہے جس کے متعلق بہت سے گیت گائے جاتے ہیں۔ ایسے عوامی گیتوں میں ایک مشہور لوک گیت ہے۔ یہ گیت اترپردیش اور بہار کے علاقے میں زیادہ سنا گیا ہے۔
اوڑھو جی چدریا مورے ساجنا
میں تو لائی پھولوں کی چدریا
اوڑوھوجی مورے ساجنا
میں تو رنگ برنگی رنگ کر لائی
حضرت سید سالار مسعود غازی کی قبر بہرائچ میں ہے اور مشرقی اترپردیش میں ان کے بہت سے قصے مشہور ہیں،جن کی صداقت تحقیق طلب ہے،ان میں سے بعض قصوں کو لوگوں نے گیت کی شکل بھی دے دی ہے اور ان کی مدح میں بہت سے گیت ادھر گائے جاتے ہیں۔جیسے ایک گیت یوں ہے:
گاجی میاں بڑے مردانہ
رن بچ دیکھیں ان کو راجپوتانہ
رن چھوڑ بھاگ چلیں کفرانہ
حضرت مسعود غازی سے متعلق گیتوں کو پوربی یوپی میں سہلے کہا جاتا ہے ایک مشہور سہلہ جس میں ان کی پیدائش کا ذکر ہے،اس طرح ہے:
مامل میّا کی کوکھیا ہوئی گئی اجیار
جب ہِیں جنموا بھئے گاجی میاں تہار
چوترپھا ہوئی گئی ساری نگریا گلجار
مامل میا کی کوکھیا ہوئی گئی اجیار
ایک سہلے میں غازی میاں کے بیاہ کا ذکر ہے اور اس سلسلے میں پورا قصہ ہی بیان کیا گیا ہے، اس کی دو لائنیں اس طرح ہیں:
گاجی پیر بیاہن چلا رے
شہر ردولی بیاہن جیہیں پورے ملک ماں سور
ایک سہلہ یوں ہے:
سید سالار مسعود گاجی
چار کھونٹ میں نوبت باجی
سیوک داس کا رکھیں راجی
اسی قسم کے عوامی گیت مغربی اترپردیش میں حضرت علاء الدین صابرکے بارے میں رائج ہیں جن کی قبر کلیر میں ہے، ایک گیت ہے
میں صابر صاب کو سمریاں گاؤں
ولیوں کا سہارا لے کر فتح میں پاؤں
ہے دل میں مرے ارمان کہ کلیر جاؤں
قدموں میں ان کے جاکے سرکو جھکاؤں
بہاراور اترپردیش کے بھوجپوری علاقوں میں جو شادی کے گیت گائے جاتے ہیں،ان میں حمدیہ، نعتیہ اوراہل بیت اطہار وصوفیہ کی منقبت کے مضامین عام ہیں۔ ایسے گیتوں کو خواتین ، ٹونا اور سہانا کہتی ہیں۔مسلمانوں کی شادیوں کی تقریبات میں اب گانے بجانے کا رواج کم ہوگیا ہے اور کبھی ہوتا ہے تو عموماً فلمی گانے ہوتے ہیں مگر بزرگ خواتین کے ذہنوں میں آج بھی لوک گیت زندہ ہیں۔ پہے شادیوں میں گانوں کا آغاز ٹونا اور سہانا سے ہی ہوتا تھا، یونہی خواتین طاق بھرنے کو مسجد جاتے ہوئے ایسے ہی گیت گاتی تھیں۔
غرضیکہ صوفیہ اور اللہ والوں کے متعلق اس قسم کی باتیں بہت عام ہیں۔ ان میں ممکن ہے کچھ باتیں درست نہ ہوں اور کچھ ایسی ہوں جن میں سچ کے ساتھ ساتھ کچھ جھوٹ بھی شامل ہوگیا ہومگر ان کی عوامی شہرت ظاہر کرتی ہے کہ عام لوگوں میں ان بزرگوں کی مقبولیت رہی ہے اور ان کے اثرات ہمہ گیر تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان سے متاثر ہوکر لوگوں نے بچوں کے نام رکھے،گیتوں کی اختراع کرلی، مہینوں کے نام رکھ لئے اور ضر ب الامثال ایجاد کرلیں۔
