تحریرپروفیسر حمید نسیم رفیع آبادی
چند روز پہلے شعبہ دینیات کے سابقہ ڈین پروفیسر علی محمد نقوی کی طرف سے علی گڑھ میں منعقد ہونے والی ایک مابین المذہبی کانفرنس میں شمولیت کی دعوت آئی ہوئی تھی ۔علی گڑھ کی طرف سے کوئی اطلاع آئیے اور ہم اس کی طرف متوجہ نہ ہو ں ممکن نہیں علی گڑھ ہماری یادوں اور خوابوں کا مظہر رہا ہے ہم نے اسی کی دہائی میں اپنی زندگی کے بہترین سال علی گڑھ میں گزارے ہیں اور تعلیم وتعلم کے سلسلے میں علی گڑھ میں قیام کیا ہے میرے بڑے اہم اساتذہ علی گڑھ کے تھے جن میں پروفیسر محمد تقی امینی مرحوم پروفیسر نور النبی مرحوم پروفیسر جمال خواجہ مرحوم ڈاکٹر انظار الحق مرحوم پروفیسر سید وحید اختر مرحوم پروفیسر عبد العلیم مرحوم اور بہت دوسرے اساتذہ بھی شامل ہیں جن سے میں نے اخذ واستفادہ کیا ہے یہ تمام نامور اساتذہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں میں نے علی گڑھ سے مسلم اور مغربی فلسفہ میں ماسٹرس کیا ہے اور اسی طرح دینیات میں بیچلر ز کے علاوہ ماسٹرس بھی کیا ہے وہاں لکھنے کی تربیت حاصل کرنے کے لئے اس زمانے میں ادارہ تصنیف کے قابل اساتذہ سے استفادہ کیا ہے علی گڑھ میں پہنچنے کے بعد میری زندگی کا الگ رخ متعین ہوا وہاں کے علمی ماحول میں میرا خود کا علمی سفر شروع ہوا
علی گڑھ میں سمینار کانفرنسز اور اس طرح کے پروگرام اکثر وبیشتر منعقد ہوتے رہتے ہیں اور میں بلابالغہ اکثر ان پروگراموں میں شمولیت کرتا رہا ہوں میرے قیام علی گڑھ کے دوران جب میں پان والی کوٹھی دودھ پور میں مقیم تھا تو صبح سویرے ممتاز مسجد میں مولانا محمد تقی امینی مرحوم کا درس سننے کا موقعہ ملتا تھا پان والی کوٹھی میں قیام کے دوران میں فجر کی نماز ممتاز مسجد میں ادا کرتا تھا وہاں مولانا تقی امینی صاحب بلا ناغہ روزانہ درس قرآن دیا کرتے تھے دس منٹ کے درس میں ایسے علمی مباحث سامنے آتے تھے جو کسی یونیورسٹی میں بھی مشکل سے زیر بحث آتے ہوں ایک بار دوران درس ایک فلمی گانے کی ان لائنوں کو پیش کرنے کے بعد فرمانے لگے
“یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے “تو کیا ہے ؟
ایک دوسرے درس کے دوران فرمایا کہ سگمنڈ فرائیڈ تو صرف اس “ران “ تک پہنچے ہیں جو گناہوں کی وجہ سے دلوں پر زنگ کی صورت میں چڑھ جاتا ہے اس کے بعد فر مایا کہ اگر فرائیڈ تھوڑا آگے بڑھے ہوتے تو اللہ تعالی کا تصور انسان کے دل میں جاگزین دیکھتا ۔اسی طرح تقی امینی صاحب جمعہ کے روز علی گڑھ یونیورسٹی کی جامعہ مسجد میں خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے ایک درس کے دوران فر مایا کہ اسلام کے ظہور کے ساتھ ایک نئے علمی اور سائنسی دور کا آغاز ہوا اسلام سے پہلے مذہب توہمات کا ایک مجموعہ ہوکر رہ گیا تھا مگر اسلام نے انسان کے دماغ اور دل دونوں سے خطاب کیا اور چونکہ ا انسان عقل کی بنیاد پر۔ یزوں کو سمجھنے کے قابل ہوگیا تھا اسلام نے انسانی عقل سے خطاب کیا اور اب انسان جس مقام پر پہونچ گیا تھا اس کے لحاظ سے انسان کو مخاطب کیا گیا اس لئے اسلام دور جدید کا خالق ہے اسی طرح کے سیکڑوں مواقع ملے جہاں علی گڑھ کے اس نامور عالم دین اور مفکر اسلام کی جاندار اور پر مغز علمی گفتگو سننے کا موقعہ ملتا رہا کبھی کبھی صبح کے وقت مولانا تقی امینی صاحب کے ساتھ چہل قدمی کا شرف بھی حاصل ہوا اور اس دوران بھی بڑی علمی گفتگو سے مستفید ہوتا رہا ہوں
پہلی بار مولانا تقی امینی صاحب کو عید کے موقعہ پر جامع مسجد سر سید ہال میں سنا یہ ۱۹۷۹ کی بات ہے آپ کی تقریر کا یہ جملہ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے “اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس لئے پیدا نہیں کیا تھا کہ بھوکی ننگی قوموں میں ایک اور قوم کا اضافہ ہوجائے “۔یہ دراصل مولانا نے اس لئے فر مایا کہ عید کے موقعے پر چاروں طرف بھکاریوں کا ہجوم تھا اور اس پر مولانا نے یہ زبردست تبصرہ کیا ۔
مولانا تقی امینی صاحب کے ساتھ یہ غیر رسمی تعلق رسمی تعلق میں بدل گیا جب میں نے شعبہ دینیات میں بیچلر ز اور ماسٹرز کے کورس میں داخلہ لیا مولانا ہمیں تفسیر پڑھاتے تھے تفسیر جلالین اور تفسیر بیضاوی کے اجزاء جو داخل درس تھے وہ مولانا سے پڑھنے کا موقعہ ملا اس طرح اکثر وبیشتر آپ سے ملنے کا موقعہ ملتا تھا۔ گھر پر اکثر مولانا کے آنا جانا ہوتا تھا اور مولانا بڑے پیار اور محبت سے ملتے تھے ایک پدرانہ شفقت اور استادانہ مروت مولانا کے کیریکٹر کا حصہ تھے
جب مولانا تقی امینی صاحب پان والی کوٹھی آتے تو کہتے کہ اللہ تعالی تمہیں اطمینان عطا کرے پھر ساتھ ہی فرماتے اطمینان اور فلسفی ناممکن !کبھی فرماتے اللہ تمہارے سب مسائل حل کرے مگر ساتھ ہی فر ماتے کہ اگر تمہارے سب مسائل حل ہوگئے پھر تم تم نہیں رہو گے
کبھی فرماتے کہ ایک زمانے میں سیاست بقائے مفادات کے لئے ضروری تھی مگر اب بقائے حیات کے لئے ضروری بن گئی ہے
کبھی کبھی لوگوں کی مولویوں پر تنقید کے جواب میں کہتے تھے
ہمیں جب نہ ہو ں گے تو کیا رنگ محفل
کسے دیکھ کر آپ شرمائیے گا
یا کہتے
وہ بات کہاں جو مولوی مدن کی ہے !
جب میں علی گڑھ میں دینیات میں ماسٹرز کررہا تھا اس بیچ کئی بار کانفرنسز میں شمولیت کا موقعہ ملا جن میں مولانا محمد تقی امینی صاحب بھی شریک ہوا کرتے تھے اور یہ تمام مجالس علم اور معرفت کی ہزار گونہ جہات لئے ہوئے ہوتی تھیں کبھی کبھی علی گڑھ یونیورسٹی کی جامع مسجد میں مغرب کے بعد مولانا کے خطابات بھی ہوا کرتے تھے جن میں بھی علمی نکات کی بہتات ہوا کرتی تھی
ایک بار غالبا ۱۹۸۱میں دینیات کے شعبے میں ایک تقریب کے دوران میرا ایک مقالہ اسلام اور فطرت انسانی پیش ہونا طے پایا اور مولانا محمد تقی امینی صاحب نے اس جلسے کی صدارت کی اور مولانا سید جلال الدین انصر عمری صاحب مہمان خصوصی کی حثیت میں مدعو تھے شعبہ دینیات کے مین ہال میں یہ تقریب منعقد ہوئی اور اس موقعے پر مولانا تقی امینی صاحب نے ایک تاریخی تقریر فرمائی آپ نے فرمایا کہ علم خود راستہ بھی ہے اور منزل بھی ہے جب انسان علم کے میدان میں جدوجہد کرتا تھا ہے تو وہ صاحب الہام بن جاتا ہے اور اس الہام سے دنیا میں بڑے بڑے انقلابات بر پا ہوجاتے ہیں اور دنیا میں جتنے انقلابات آئے ہیں ان کے پیچھے یہی الہامات بحثیت محرکات ہوتے ہیں
جب میرا داخلہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی علی گڑھ میں ہوا یہ ۱۹۸۷ کی بات ہے تو میں مولانا تقی امینی صاحب سے مشورہ کرنے کے لئے گیا اور ان کو بتایا کہ اگرچہ میرا داخلہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ہورہا ہے مگر وہاں اس سال اسکالرشپ نہیں مل رہا ہے جبکہ شعبہ دینیات میں ریسرچ کے لئے اسکالرشپ بھی موجود ہے اور شاید ایک کمرہ بھی میسر ہے تو میں کہاں جاؤں تو مولانا تقی امینی صاحب نے فرمایا کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ہی ریسرچ کے لئے چلے جاؤ کیونکہ جو خرابیاں فلسفے کے راستے سے آرہی ہیں ان کو روکنے کی زیادہ ضرورت ہے یہاں ہم مولوی کافی ہیں پھر مزید فر مایا کہ جواہر لعل یونیورسٹی میں بھوکا رہنا یہاں پیٹ بھر کر کھانے سے بہتر ہے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ موجودہ زمانے میں فلسفہ اور سائنس کا گہرا مطالعہ حالات و زمانے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے اور ہمارے نوجوانوں کو فلسفہ اور سائنس کے علوم میں مہارت حاصل کرنی چاہئے تاکہ موجودہ زمانے کے چیلینجز کا ادراک حاصل کرسکیں اور اس راستے سے جو خرابیاں آرہی ہیں ان کا تدارک ہوسکے
پھر جواہر لعل یونیورسٹی میں جانے کے بعد وہاں سے میں مولانا تقی امینی صاحب کو خطوط لکھا کرتا تھا اور وہ مجھے کافی مفید مشوروں سے نوازتے تھے میں اپنی مشکلات کے بارے میں ان کو بتاتا تھا معاشی مسائل کی شکایت کرتا تھا اس پر مولانا کافی بہترین رہنمائی سے نوازتے رہتے تھے اکثر نصیحت کرتے تھے کہ رات کے آخری پہر میں نیند سے اٹھ کر اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے رہنا چاہئے اور اللہ تعالی سے اس وقت دعا مانگنی چاہئے روشنی بند کرنی چاہئے اور انتہائی عاجزی اور انکساری سے اپنے احوال کا بیان کرنا چاہئے اور اللہ تعالی سے کہنا چاہئے کہ میں اس وقت تک یہاں سے نہیں اٹھوں گا جب تک میرے مسائل حل نہ ہوں اسی قسم کی دعاؤں کا ذکر فرماتے تھے اور اللہ تعالی کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنے پر کافی زور دیتے تھے
کبھی کبھی فلسفے کے مطالعے کے دوران جو سوالات یا اشکا لات اٹھتے تھے ان کا ذکر بھی ہم مولانا کے سامنے کرتے تھے مثلاً کچھ باتیں جو فلسفے کے مضمون میں معقول دکھائی دیتی تھیں ان کو ماننے یا نہ ماننے کے بارے میں ایک خط میں میں نے مولانا تقی امینی صاحب کو لکھا تو آپ نے جوابی خط میں لکھا کہ ایسی باتوں کو قبول کرنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہئے پھر آپ نے وہ حدیث بیان کی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ہے
الحکمہ ضالة المؤمن فحیث وجدھا فھو احق بھا
یعنی حکمت کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے جہاں بھی حاصل ہو اس کو حاصل کرنا چاہئے کیونکہ مومن اس کا زیادہ مستحق ہے اسی طرح بہت ساری یادیں اس عظیم اسلامی اسکالر کے ساتھ وابستہ ہیں
آخری بار مولانا محمد تقی امینی سے اس وقت ملاقات ہوئی جب میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے علی گڑھ کے لئے جارہا تھا علی گڑھ کے ریلوے اسٹیشن پر پروفیسر ریاض الرحمان شروانی سے ملاقات ہوئی ۔انہوں نے مجھ سے میرا نام پوچھا اور معلوم ہونے پر بتا یا کہ میرا تقرر کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں ہوا ہے جہاں پر میں نے اس مقصد کے لئے انٹرویو دیا تھا ۔خیر میں رات کو حبیب ہال میں اپنے دوست قاضی عبد ا لماجد کے ساتھ ٹھرنے کے لئے گیا شام کو مولانا سے ملنے ان کے دولت خانے پر حاضر ہوا معلوم ہوا کہ مولانا بیمار ہیں اور اندر والے کمرے میں تشریف فرما ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے ملنے والوں کو ملنے سے منع کیا ہے جب میں نے اپنے آنے کی خبر کروائی تو مجھے اندر اپنے کمرے پر بلوایا اور بستر سے اٹھ کر سیدھے بیٹھے اور فرمایا کہ کیا تم میرے مرنے کا انتظار کررہے تھے ایک بار بھی ملنے کی کوشش نہیں کی میں نے اپنی پریشانیوں کا حال سنایا تو فرمانے لگے کیا کہیں پر درخواست دی ہے میں نے جب ان کو بتایا کہ پروفیسر ریاض الرحمان شروانی نے مجھے میرے تقرر کے بارے میان بتایا تو کہنے لگے اس خبر کی تصدیق کروانے کی ضرورت ہے چنانچہ مزید فرمایا چونکہ چند دن پہلے پروفیسر مشیرالحق علی گڑھ تشریف لائے تھے معلوم کرنا پڑے گا کہ وہ کہاں پر ٹھرے تھے اور جہاں وہ ٹھرے ہوں گے انہوں نے ضرور اس تقرری کے بارے میں بتایا ہوگا ۔خیر میں رخصت لے کر حبیب ہال چلا گیا ۔رات کے تقریباً ایک بچے حسین احمد صدیقی صاحب جو اس زمانے میں علی گڑھ میں قانون کی تعلیم حاصل کررہے تھے اس کمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگے جہاں میرا قیام تھا چونکہ یہ سردی کا زمانہ تھا انہوں نے اپنے چہرے اور سر کو کپڑے سے ڈھک رکھا تھا
دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی کہا کہ مبارک ہو تمہارا کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات میں بحثیت لیکچرار تقرر ہوا ہے پھر انہوں نے بتایا کہ دراصل جب میں مولانا تقی امینی صاحب کے ہاں سے نکل گیا تھا وہ میرے بعد مولانا سے ملاقات کے لئے گئے ہوئے تھے اور مولانا نے ان کو حکم دیا تھا کہ وہ یہ معلوم کرلیں کہ پروفیسر مشیر الحق وائس چانسلر کشمیر یونیورسٹی جو علی گڑھ تشریف لائے تھے وہ کہاں اور کنب کے ہاں رکے تھے پھر مولانا نے فرمایا تھا کہ مشیر صاحب نے ضرور وہاں پر اس تقرری کا ذکر کیا ہوگا حسین صاحب نے بتایا کہ مولانا تقی امینی صاحب نے ان سے کہا کہ تھوڑی دیر پہلے حمید آئے تھے اور اس بارے میں پریشان تھے کہ آیا تقرری کی خبر صحیح ہے یا نہیں اس لئے اس بارے میں معلومات حاصل کرکے ان تک یہ خبر پہونچا دو ۔حسین صاحب نے مزید کہا کہ یہ تصدیق کرنے کے بعد میں پہلے دوبارہ مولانا تقی امینی کے پاس گیا اور انہوں نے رات کے اس وقت میرے پاس بھیجا۔اس قسم کا خیال اور ہمدردی آج کل مشکل سے کہیں نظر آتی ہے
چنانچہ دوسرے دن میں صبح کے وقت ہی مولانا تقی امینی کے دولت خانے پر شکریہ کے لئے حاضر ہوا ۔مولانا نے خواہش ظاہر کی کہ وہ میرے ساتھ شعبہ دینیات جانا چاہتے ہیں اگرچہ ان کے لئے چلنا بہت مشکل تھا مگر میرا سہارا لیکر وہ آہستہ آہستہ چل کر پہلے پروفیسر فضل الحق گنوری صاحب کی کوٹھی کے پاس کھڑے ہوئے اور زور سے ان کو پکارا پروفیسر فضل الرحمان گنوری صاحب جلدی ہی گھر سے باہر آگئے اور مولانا کو گھر کے اندر لے گئے اس کے بعد بہت دیر تک علمی گفتگو ہوتی رہی پھر وہاں سے سیدھے شعبہ دینیات چلے گئے اور مجھے فخر ہے کہ میرے ہاتھوں کا سہارا لیتے ہوئے آہستہ آہستہ مولانا تقی امینی صاحب چلتے رہے اور یہ مسافت بمشکل طے ہوئی اور میں نے دوبارہ ان کو اپنے دولت خانے تک واپس پہونچایا پھر کچھ مختصر عرصے کے بعد ان کی وفات حسرت آیات کئ خبر سنی اور میں اپنے مشفق اور ہمدرد استاد مرشد اور رہنما سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگیا جنہوں نے میری تربیت کی تھی اور مجھے کسی لائق بنایا تھا مجھے اکثر پروفیسر کنور محمد یوسف امین صاحب بتایا کرتے تھے کہ میری غیر موجودگی میں مولانا محمد تقی امینی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ان کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے یہ ناچیز سب سے بہتر آدمی ثابت ہوسکتا تھا مگر شو مئی قسمت کہ میں اپنے عظیم استاد کی اس توقع پر پورا اترنے سے قاصر رہا مگر میرے لئے ان کے یہ جزبات کسی سند اور اعزاز سے کم نہیں ۔
اللہ تعالی مولانا تقی امینی مرحوم کو اعلی علین میں جگہ دے اور ہمیں ان کی شاگردی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا کرے آمین
