تحریر:جی ایم بٹ
سرینگر میں ایک نجی کمپنی کی طرف سے سرمایہ لگانے والوں کے ساتھ دھوکہ دہی ان دنوں بڑا موضوع بنا ہوا ہے ۔ اس موضوع پر زور وشور سے بحث ہورہی ہے ۔ پولیس کی بڑے پیمانے پر کاروائی اور چھاپہ ماری جاری ہے ۔ پولیس کی سائبر کرائم برانچ نے کئی افراد کو طلب کرکے پوچھ گچھ شروع کی ہے ۔ یقین دلایا جارہاہے کہ انصاف فراہم کیا جائے گا ۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے جس کے انجام کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ انتظامیہ اپنے طور ملزموں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے ۔ تحقیقات ابتدائی مرحلے میں ہے ۔ وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ کئی ادارے اس حوالے سے اپنی آرا پیش کررہے ہیں ۔ اس درمیان بعض میڈیا کارکنوں پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں ۔ دھوکہ دہی کا شکار ہونے والے بیشتر افراد کا کہنا ہے کہ میڈیا کی طرف سے راغب کئے جانے کے بعد ہی انہوں نے مذکورہ نجی کمپنی کے ساتھ شراکت کا فیصلہ کیا ۔ اس سے اندازہ ہورہاہے کہ عام لوگ اب بھی میڈیا پر بے حد بھروسہ کرتے ہیں اور اسے اپنے لئے ایک بھروسہ مند ادارہ خیال کرتے ہیں ۔ اس وجہ سے لوگ اپنے کل سرمایہ سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ بڑے افسوس کی بات ہے ۔ سڑک چھاپ میڈیا نمائندوں کی حرکات پوری میڈیا برادری کے لئے بدنامی کا باعث بن رہی ہیں ۔ اس کا نوٹس لینا ضروری ہے ۔
اسلام میں تجارت ایک پسندیدہ عمل مانا جاتا ہے ۔ تجارت کے دوران مبارضت کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ اس سے مراد کسی شخص کے سرمایہ کو لے کر دوسرے شخص کا نفع کمانا ہے ۔ کوئی مال دار اپنے مال کا استعمال کرکے نفع کمانے سے قاصر ہوتو دوسرا شخص اس مال کو لے کر تجارت کرکے منافع حاصل کرسکتا ہے ۔ پھر یہی نفع دونوں شخص باہم بانٹ کر اس سے اپنی ضروریات پورا کرسکتے ہیں ۔ اس طرح کا تصور عرب میں اسلام سے ]پہلے عام تھا ۔ بلکہ وہاں بیشتر تجارت اسی طریقے سے ہوتی تھی ۔ بلکہ خود رسول اللہ ﷺ حضرت خدیجہ سے مال لے کر بیرون ملک اس کو فروخت کیا ۔ اس طرح سے آپ ؐ نے کمائی کی اور خدیجہ کا مال بھی فروخت ہوا ۔ اس دوران خدیجہ رسول ؐ کی دیانت اور امانت سے متاثر ہوکر ان سے نکاح پر آمادہ ہوئیں اور دونوں رشتہ ازواج میں جڑ گئے ۔ عرب کے انتہائی بگڑے اور خستہ حال سماج میں بھی تجارت کے معاملے میں اصول وضوابط کا احترام کیا جاتا تھا ۔ لوگ باہم اشتراک کرکے قافلوں کی صورت میں ملک سے باہر جاکر تجارت کرتے تھے ۔ اس دوران کسی طرح کی بدگمانی کو نزدیک آنے نہیں دیا جاتا تھا ۔ وہ لوگ جو ساری عمر باہم برسر پیکار رہتے اور ایک دوسرے کو مرنے مارنے کی تاک میں رہتے تھے ۔ تجارت کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ اور اصول و ضوابط کے پابند تھے ۔ اس وجہ سے ان کی معاشرتی زندگی برقرار تھی ۔ بصورت دیگر ان کا نام و نشان باقی نہ ہوتا ۔ اس کے بجائے ہمارے معاشرے کے اندر تجارت کے معاملے میں از بے ایمانی اور دھوکہ دہی پائی جاتی ہے ۔ اسلام کے دعویدار ہونے کے باوجود ہم تجارت اسلامی اصولوں پر نہیں بلکہ خودغرضی کے اصولوں پر انجام دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تجارت پھل پھول سکی نہ زندگی میں اس سے کوئی بہار آئی ۔ یہ صرف تاجروں کا قصور نہیں ۔ بلکہ ہمارا پورا نظام ہی دھوکہ دہی کا شکار ہے ۔ حلال و حرام میں تمیز مٹ چکی ہے ۔ کوئی اس معاملے میں دین کے معیار کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ نجی تعلیمی اور طبی ادارے لوگوں کا خون نچوڑ رہے ہیں ۔ انصاف فراہم کرنے والے ظالم بن گئے ہیں ۔ کھانے پینے کی اشیا مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں ۔ یہ سوچے بغیر کہ اس سے غریبوں کی زندگی اجیرن بن سکتی ہے کسی کو دینی احکامات کا سرے سے کوئی خیال ہی نہیں ہے ۔ سرکاری ملازموں کی اپنی الگ دنیا ہے جہاں وہ اپنی مرضی سے کماتے اور لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہیں ۔ پولیس والوں کے ساتھ اس حوالے سے بات کرنا ممکن ہی نہیں ۔ وہ ہر مرضی کے مالک آپ ہیں ۔ ظالم اور مظلوم دونوں سے رشوت لینا یہاں کا دستور ہے ۔ ڈاکٹر ، آفیسر ، چپراسی ، کلرک یہاں تک کہ مذہبی پیشوا پوری آزادی سے لوگوں خاص کر پسماندہ طبقوں کو بڑی چالاکی سے لوٹ رہے ہیں ۔ اس طرح کی صورتحال کے اندر کسی ایک شخص یا ادارے سے یہ توقع کرنا کہ دیانت اور صفائی سے معاملات انجام دے گا ممکن نہیں ۔ جہاں باپ سے جوان سال بیٹے اور بیوی سے اس کی خاوند کی موت پر ڈیتھ سرٹفکیٹ اجرا کرنے یا نوکری کا فائل آگے بڑھانے کے عوض رشوت لیا جاتا ہو ۔ وہاں سچائی اور صفائی کی بات کرنا سراسر خود فریبی ہے ۔ یقینی طور معاشرے میں کچھ لوگ موجود ہیں جو پوری دیانت داری سے کام کررہے ہیں ۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے آس پاس موجود لوگ کیا کچھ افعال انجام دیتے ہیں ۔ وہ اپنے معاملے میں بڑے حساس ہیں اور پوری ذمہ داری سے اپنا کام انجام دیتے ہیں ۔ یہ ان ہی کے کام کی وجہ سے ہے کہ ہمارا نظام بحال ہے ۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ ہر کسی پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ خاص طور سے تجارت کے لئے شراکت داری کوئی بچوں کا کھیل نہیں کہ آپ پوری تحقیق کے بغیر سرمایہ لگانے کا قدم اٹھائیں ۔ یقینی طور سرمایہ کاری بہتر مستقبل کی ضمانت ہے ۔ لیکن اس معاملے میں سب سے زیادہ ہوشیاری کی ضرورت ہے ۔ یہ آج کی بات نہیں بلکہ سالوں پرانی نصیحت ہے ۔ لیکن لوگ اوتاولے ثابت ہوئے ہیں جو اپنے سرمایہ پر راتوں رات محل کھڑا کرنے کا خواب دیکھتے ہیں ۔ ایسے خوب ظاہر ہے ریت کے محل کی سی وقعت رکھتے ہیں ۔ ادھر کھڑا ہوئے تو ادھر دھڑام سے نیچے آگئے ۔ ایسے اقدام کا انجام سرمایہ ڈھوب جانے کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ شریعت سے منہ موڑ کر اٹھائے گئے قدم سے متعلق یہ سوچنا کہ نتیجہ شریعت کے عین مطابق ہوگا ممکن نہیں ۔ غیر شرعی اقدام چاہئے کتنا بھی حسین اور خوبصورت ہوں آخر کار بے ثمر ثابت ہوتے ہیں ۔ چھان بین اور پرکھ کے بعد ہی کوئی قدم فائدہ بخش ثابت ہوگا ۔
