نئی دہلی: ساہتیہ اکاڈمی نے 2023 کے لیے مختلف ایوارڈز کا اعلان کیا جو 24 ہندوستانی زبانوں کے ادیبوں کو دئیے جائیں گے ۔ جن میں ہندی کے لیے سنجیو، انگریزی کے لیے نیلم شرن گوڑ اور اردو کے لیے صادقہ نواب سحر کو باوقار سالانہ ‘ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ 2023’ سے نوازا جائے گا۔اردو زبان کے لیے پُروقار ساہتیہ اکادمی ایوارڈ 2023 معروف افسانہ و ناول نگار صادقہ نواب سحر کو اُن کے ناول ’راج دیو کی امرائی‘ کے لیے دیا جائے گا قرة العین حیدر کے بعد ڈاکٹر صادقہ نواب سحر ساہتیہ اکادمی ایوارڈ حاصل کرنے والی دوسری خاتون ادیبہ ہیں
صادقہ نواب سحر اردو کی ممتاز افسانہ و ناول نگار ہیں۔ آپ کی پیدائش گُنٹور، آندھرا پردیش میں ہوئی لیکن ممبئی میں پلی بڑھیں۔انہوں نے ہندی میں پی ایچ ڈی اور اردو، ہندی، انگریزی تینوں زبانوں میں ایم اے کیا ہے۔ آپ افسانے اور ناول کے علاوہ شاعری، تنقید اور ناٹک بھی لکھتی ہیں۔ اردو میں آپ کے تین ناول ’کہانی کوئی سناو ¿ متاشا‘، ’جس دن سے‘ اور ’راجدیو کی امرائی‘؛ دو افسانوی مجموعے ’خلش بے نام سی‘ اور ’پیج ندی کا مچھیرا‘؛ ڈراموں کا مجموعہ ’مکھوٹوں کے درمیان‘؛ پانچ شعری مجموعے ’انگاروں کے پھول‘، ’ست رنگی‘، ’باوجود‘، ’چھوٹی سی یہ دھرتی‘ اور ’دریا کوئی سویا سا‘ کے علاوہ مضامین کا مجموعہ ’مضامینِ صادقہ‘ شائع ہوچکے ہیں۔ ہندی میں بھی ان کی متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ ان کی کتابوں کے ترجمے مختلف ہندستانی زبانوں میں ہوچکے ہیں؛ نیزان کی تخلیقات کو نصابی کتابوں میں بھی جگہ ملی ہے۔ان کی شخصیت اور فن پر تین کتابیں شائع ہوئی ہیں اور کئی ایم فل کے علاوہ پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوچکی ہے۔ ماہنامہ ’چہارسو‘، ’شاعر‘ اور ’اسباق‘ نے خصوصی نمبر بھی شائع کیے ہیں۔ صادقہ نواب سحر کو کئی انعامات حاصل ہیں جن میں مہاراشٹرا اردو ساہتیہ اکادمی کا ’ساحر ایوارڈ‘، بہار اردو اکادمی کا ’رشیدة النسا ایوارڈ‘ اور ’شکیلہ اختر ایوارڈ‘ کے علاوہ اترپردیش اردو اکادمی ایوارڈ، مغربی بنگال اردو اکادمی ایوارڈ کا ’مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ‘ ، بھارتیہ بھاشا پریشد کولکاتہ ایوارڈ، مہاراشٹرا ہندی ساہتیہ اکادمی کا ’منشی پریم چند ایوارڈ‘، ’جینندر کمار ایوارڈ‘ وغیرہ شامل ہیں
بقول ایک تبصرہ نگار___ وہ وقوع پذیر حالات و واقعات اور حادثات کے علاوہ کچھ ایسے مسائل و معاملات پر مکالمہ کرتی نظر آتی ہیں جو تشویشناک بھی ہیں اور توجہ طلب بھی ۔ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کا سرتال برقرار رکھنے کی تگ و دو کے ساتھ ساتھ صادقہ نواب سحر بڑی جانفشانی سے اردو ادب کے گیسو سنوارنے میں جٹی ہیں۔ کسل مند اور باتونی مردوں کے لیے صادقہ نواب سحر کا یہ فعال ادبی کردار تا زیا نہ ہوشربا کا درجہ رکھتا ہے۔ 1996 میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ” انگاروں کے پھول ” منظر عام پر آیا ؟ جس کی اشاعت کے لیے انھیں مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی کا مالی تعاون حاصل رہا۔ 2003 میں ان کا بچوں کی نظموں پر مشتمل مجموعہ ” پھول سے پیارے جگنو شائع ہوا۔ صادقہ نواب سحر کو جس تخلیقی فن پارے نے شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا وہ ان کا ناول کہانی کوئی سناؤ متاشا ہے۔ اس ناول کی پذیرائی اور کامیابی کے نتیجے میں کئی سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے مصنفہ کو انعامات و اعزازات سے نوازا۔
ڈراما بینی اور ڈراما نگاری سے اپنی دلچسپی کا اظہار انھوں نے مکھوٹوں کے درمیان طبع زاد ڈرامائی مجموعے کی صورت میں کیا جو 2012 میں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر ڈرامے کے شائقین کی توجہ کا مرکز بنا۔ 2013 میں صادقہ نواب سحر کے افسانوں کا مجموعہ خلش بے نام سی کے نام سے شائع ہوا اور 2015 میں ان کا 356 صفحات پر مشتمل ناول ” جس دن سے چھپا۔ صادقہ نواب سحر کے مذکورہ ناولوں اور شاعری کے بارے میں ہم آگے اظہار خیال کریں گے۔ اس سے پہلے یہاں مصنفہ کی ایک اور حیران کن ادبی جہت کو سامنے لانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے وہ یہ کہ صادقہ نواب سحر بنیادی طور پر ہندی کی پروفیسر ہیں۔ کے ایم سی کالج ، کھولی (ممبئی) ضلع را میگڑھ مہاراشٹر میں ہندی درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں ۔ ہندی میں ان کی جو کتا بیں چھپ چکی ہیں ان میں پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ ( مجروح سلطان پوری کی کلیات کا ہندی میں ترجمہ ہے ) 2000 میں شائع ہوئی ۔
لوک پر یہ کوئی مجروح سلطان پوری ( یہ مجروح کی غزلوں پشتمل مجموعے کا ہندی میں ترجمہ ہے ) ، ہندی غزل ۔ فکر وفن ایک طرح کا تحقیقی مقالہ ہے جو 2007 میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ منت (2012) افسانی مجموعہ ہے۔ ساہتیہ میں آلو چنا کی چنتا ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو 2012 میں شائع ہوا۔ صادقہ نواب کی تحقیقی تنقیدی اور تخلیقی نگارشات کی اہمیت وافادیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ان کا ترجمہ پنجابی، تیلگو، انگریزی، مارواڑی اور مراٹھی میں کیا گیا۔ یہ بات ان کی ادبی خدمات کا نہ صرف اعترافیہ ہے بلکہ بہت بڑا اعزاز یہ بھی ہے۔
اکاڈمی کے سکریٹری کے سرینواس راؤ نے کہا کہ اکاڈمی نے ایوارڈ کے لیے نو شعری مجموعوں، چھ ناولوں، پانچ کہانیوں کے مجموعوں، تین مضامین اور تنقید کی ایک کتاب کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ان ایوارڈز کی سفارش 24 ہندوستانی زبانوں کی جیوری کمیٹیوں نے کی ہے اور آج ساہتیہ اکاڈمی کے صدر مادھو کوشک کی صدارت میں منعقدہ اکاڈمی کے ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگ میں اس کی منظوری دی گئی۔انہوں نے بتایا کہ اگلے سال 12 مارچ کو منعقد ہونے والی تقریب میں جیتنے والے مصنفین کو ایک کندہ شدہ تانبے کی پلیٹ، شال اور ایک ایک لاکھ روپے بطور انعام دیا جائے گا۔ اردو، ہندی اور انگریزی کے علاوہ اس ایوارڈ میں علاقائی زبانیں جیسے آسامی، بنگالی، ڈوگری، کنڑ، مراٹھی اور ملیالم شامل ہیں۔
دیگر زبانوں کے انعام یافتگان میں پرنو جیوتی ڈیکا (آسامی)، سوپن مَی چکربرتی (بنگالی)، نندیشور ویماری (بوڈو)، وجے ورما (ڈوگری)، نیلم شرن گور (انگریزی)، وِنود جوشی (گجراتی)، سنجیو (ہندی)، لکشمی شا تولپڈی (کنڑ)، منشور بانہالی (کشمیری)، پرکاش ایس پرینکار (کونکنی)، باسوکی ناتھ جھا (میتھلی)، ای وی رام کرشنن (ملیالم)، سوروکھ کھیبم گمبھینی (منی پوری)، کرشنات کھوت (مراٹھی)، یدھ ویر رانا (نیپالی)، آشوتوش پریڈا (اڑیہ)، سورن جیت سوی (پنجابی)، گجے سنگھ راج پوروہت (راجستھانی)، ارون رنجن مشر (سنسکرت)، تاراسین باسکی (سنتھالی)،
اردو ایوارڈ کا فیصلہ جیوری کی میٹنگ میں ہوا جس کی صدارت اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر اور معروف شاعر چندربھان خیال نے کی اور جیوری ممبران میں کرشن کمار طور، طیب علی (طیب خرادی) اور مہتاب عالم شامل تھے۔ ساہتےہ اکادمی ایوارڈ امتیازی نشان اور ایک لاکھ روپے پر مشتمل ہے۔ یہ ایوارڈ 12 مارچ، 2024 کو کمانی آڈیٹوریم، نئی دہلی میں منعقد ہونے والی ایک پروقار تقریب میں پیش کیے جائیں گے۔ یہ ایوارڈز ایوارڈ یکم جنوری، 2017 سے 31 دسمبر 2021 تک پانچ برس کے دوران پہلی مرتبہ شائع ہونے والی کتابوں کو دیئے جاتے ہیں۔ یواین آئی۔ ع ا۔
ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ 1958 سے ہر سال ہندوستانی زبانوں میں بہترین کاموں کو دیا جاتا ہے۔ ایوارڈ کے آغاز کے وقت انعامی رقم 5 ہزار روپے تھی جو 1983 میں بڑھا کر 10 ہزار روپے اور 1988 میں بڑھا کر 25 ہزار روپے کر دی گئی۔ اس کے بعد سال 2001 سے یہ رقم بڑھا کر 40 ہزار روپے کر دی گئی اور اس کے بعد 2003 میں یہ رقم بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دی گئی۔ پھر سال 2009 میں حکومت نے اس ایوارڈ کی رقم 50 ہزار روپے سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کر دی۔
مشہور مفکر، مصنف، اور خطیب لکشمیشا تولپاڈی کو سال 2023 کے کیندریہ ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ کے لیے چنا گیا ہے-ہندوستان کی نیشنل اکاڈ می آف لیٹرز، ساہتیہ اکاڈمی، نے ایک سرکاری ریلیز میں کہا کہ لکشمیشا تولپاڈی نے کنڑ میں اپنے غیر معمولی کام، ‘مہابھارت انوسندھناد: بھارتایاترے’ کے لیے مائشٹھیت ایوارڈ جیتا ہے
ساہتیہ اکاڈمی اعزاز ملک میں دیا جانے والا ایک ادبی اعزاز ہے جسے ساہتیہ اکاڈمی اور قومی اکاڈمی ادبیات بھارت کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ یہ اعزاز آئین ہند کی آٹھویں فہرست بند میں مذکور 22 سرکاری زبانوں کے علاوہ ہندوستانی انگریزی اور راجستھانی زبان میں شائع ہونےوالے ادبی فن پاروں میں منتخب فن پارے کے خالق کو دیا جاتا ہے ساہتیہ اکاڈمی اعزاز کا آغاز 1954ء میں ہوا تھا۔ اس اعزاز میں ایک شیلڈ اور ₹ 1,00,000 روپے نقد دیے جاتے ہیں-اس اعزاز کا مقصد ملک میں اچھے لکھاریوں کی پہچان کرنا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا اور نئے رجحانات کی شناخت کرنا ہے۔ اعزاز میں دی جانے والی شیلڈ کو مشہور فلم ساز ستیہ جیت رائے نے ڈیزائن کیا ہے۔ اس سے قبل ماربل سے بنی شیلڈ دی جاتی تھی مگر وزن کی وجہ سے اسے ترک کرنا پڑا تھا
