از: عاشق حسّین وانی
میں نے زمانے کے بعض نامور اصحاب اورقوم کی بڑی بڑی شخصیات کے خاکے اور سوانحِ ِ حیات پڑ ھے ہیں لیکن کبھی کوئی ایسی سوانحِ حیات آنکھوں کے سامنے سے نہیں گزری ہے جو کسی عام دنیا دارنے اپنے یا کسی ایسے شخص کے بارے میں لکھا ہو جس کی زندگی کا معیارصلاحیت و لیاقت، تلاش و تجسس میں پُروقاراور بلند نہ رہا ہو۔ کیا سوانح حیات صرف عظیم شخصیتوں کے بارے میں ہی لکھی جاتی ہیں۔ دراصل کچھ ایسا ہی ہے کیونکہ دنیا میں ایک انسان کو سب سے زیادہ متاثر کر نے والی چیز دوسرے انسان کی شخصیت میں موجو د وہ نمایاں خوبیاںو اعلی صفات ہیں جن سے انسان واقعی اپنے خیالات و افکار ، سیرت و کردار اور عادت و اطوار میں دوسرے عام لوگوں سے فوقیت حاصل کر کے ملک میں آباد لو گوں کے دلوں میں فکر و خیال اور تجسس کی ایک خوش نما ں تاثیر پیدا کر تا ہے اور جب کوئی فرد کسی شخصیت کے حالات و وا قعات کی مکمل واقفیت کے بعد بے حد متاثر ہوتا ہے تو وہ اس کی تصویر کشی اس کی زندگی کے حالات و واقعات کے پسِ منظر میں بے تکلفی سے اس کے بارے میں حقایق کی بنیاد پر سوانحِ حیات لکھ کر اس کی زندگی کے مختلف پہلوں کو اجاگر کر کے جیسا کوئی حق ادا کر تا ہے۔
شَخصِیت کیا ہے ؟ شخصیت دراصل کسی شخص کا وہ ذاتی انسانی وجود ہے جو اس کی زندگی کے ظاہری و باطنی پہلووں میں موجود خوبیوں و خامیوں کو نمایاں کر کے اس کی شناخت کر تا ہے اور ایک شخص جس طرح کا نظریہ یا طرزِ فکر رکھتا ہے وہ شخص سما ج میں اسی حثیت سے متعارف ہوتا ہے اور جس کام کو وہ اپناتا ہے وہی کام اس کی شخصیت کی پہچان بن جاتی ہے ۔ اس طرح جب سماج میں کو ئی فرد اپنی شخصیت کی تصویر کچھ اس طرح پیش کر تا ہے جس میں دوسرے لوگوں کی خدمت و بھلائی میل و محبت یا ایثار کا جذبہ نمایاں ہو اور مرعوبیت، اپنایت، اہانت یا عناد و تحقیر کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں اِس فرد کے لئے جگہ پید ا ہوتی ہے او ر اس کی ان نمایاں خصوصیات و صفات کی بدولت لوگ ان کی تعلیم کو مشعلِ راہ بناتے ہیں ۔
شخصیت وہ ا علی قدر چیز ہے جس کے بتائے ہوے راستے پر ایک مہذب انسانی سماج کی تعمیر و ترقی ممکن ہے اس مہذ ب انسانی سماج کی جہاں کے لوگ خوش اخلاقی و شائیستگی کی عظیم روایات کو اپنا کر باہمی محبت و رو ا داری اور سوجھ بوجھ کے سا تھ آپس میں ایک خاندان کی طرح مل جل کر رہتے ہیں؎۔ ایک عظیم شخصیت سماج کے ماحول کو عادلانہ او ر منصفانہ طور طریقوں پر استوار کرتا ہے اور ایسا منظم نظام مروجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں تعصب، رنگ و نسل اور ذات پات کے تفرقات موجود نہیں ہوں اور جہاں سماج کا ہر کمزو ر ترین انسان مساوات میں یکسان اور اپنے حقوق کو محفوظ پاتا ہے۔ایک عظیم سکالر یا فلسفی منفرد شخصیت کا مالک ہوتا ہے ۔ وہ اپنی شخصیت کے وجو د کو پہچانتا ہے اور اس لئے اس میں اعتماد اور دوسروں کی بہتری و بھلائی کا جذبہ ہر ہمیشہ موجود رہتا ہے ۔ اسکی صحبت و رفاقت دوسرے عام لوگوں کے لئے تعلیم ہو تی ہے اور اس لئے اس کا وجود اس کرہِ ارض پر ایک رہبر کی طرح ہوتا ہے جس کے راستے کو پکڑ کر نہ صرف ایک مخصوص قوم بلکہ عالمی سطح پر تمام لوگوں کو اپنا مستقبل رُوشن اور صحیح و سالم بنانے کا موقع ملتا ہے وہ اپنے علم کے نور سے کرہِ ارض کے تمام لوگوں کو مستفید کرتا ہے اور اس طرح یہ شخصیت کسی ملک کی نجی جایداد نہیں ہو تی ہے بلکہ عالمِ انسانیت کی مشترکہ میرا ث ہوتی ہے اور ایسے شخصیات اپنے صالح اعمال ، پاکیزہ افکار اور دیگر خوبیوں کی سبب دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد بھی رُوشن ، زندہ اور مشعلِ ہدایت بن کر ہر ہمیشہ ہمارے آس پاس موجود ہو تے ہیں اور ہماری امداد اپنی تعلمیات و ہدایات سے کرتے رہتے ہیں ۔
شخصیت کی صحبت و رفاقت دوسروں لوگوں کو کس حد تک متاثر کرتی ہے اس کا جائزہ بہت سارے لوگوں نے اپنی اپنی جگہ پر لیا ہے اس حوالے سے ایک مشہور محقیق نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ایک سائنس دان بننے کے لئے اعلی ساز و سامان رکھنے والی لیبارٹریوں او ر جدید لڑیچر پر مشتمل لائبریوں سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ کسی وقت کے لئے انسان کو کسی اہم شخصیت کی صحبت و رفاقت میسر ملنی چاہے اور یہ صحبت و رفاقت جو امتیازی فرق پیدا کرتا ہے وہ دراصل سائنسی حقائیق یا سائنسی طو ر طریقوں و معا ملات کے بارے میں واقف کرانا نہیں ہے بلکہ جو بات حقیقی فرق پید ا کرتا ہے وہ در اصل فیضانِ نظر کہلاتا ہے جس کی رُو سے وہ ایک قسم کا ذہنی رؤیہ دوسرے میں منتقل کر کے اس کو حقیقت میں ایک سچا محقیق یا سائنس دان بنا دیتا ہے ۔ اس طرح یہ بات واضح طور اس بات کی دلیل پیش کرتا ہے کہ انسان کو اعلی منزل و مقصود تک پہنچنے کے لئے بہترین شخص کی رہنمائی ضروری ہے ۔ اس لحاظ سے جب ہم افلا طون جیسے عظیم فلسفی کو دیکھتے ہیں اس کو جس شخصیت کی صحبت و رفاقت میسر آئی وہ ممتاز شخصیت سقراط کی تھی اور ارسطور بہترین مفکر و سیاست دان افلاطون کی قائم کی ہوئی اکادمی کا طالب علم تھا جس کے علم اور فلسفانہ تصنیفات کو آج بھی دنیا میں سرا ہا جاتا ہے۔
کسی شخص کے افکار کو سمجھنے کے لئے اس کے ذہنی ارتقا اور عصری میلانات کو جاننا ضروری ہے یہ جاننے کے لئے ہمیں متعلقہ شخص کے اس عہد میں جانا ضروری ہے جس میں ا س کا وجود قائم رہا ہو اور آزادانہ نظریہ ٔسے اس شخصیت کی تعلیم ، اس کے فعل، اس کی تحریر، خطبات و بیانات، اس کے مشاہدات و تحقیقات اور وہ تمام تر خدمات جو اس نے لوگوں کی فلاح و بہود کے لئے عمل میں لائے ہوں کو سمجھنا ہے او ر یقینا اگر اس نے ملک کی ترقی و خوش حالی اور لوگوں کی بھلائی کے کام کئے ہوں تو پھر ہمیں اس فرد کی محنت اور اس کی کاوشوں کو ماننا چاہے اور اس کے وقار و اعلی عظمت کا احترام کرنا چاہے اور اس کی تعلیمات پر عمل کر کے روز مرہ زندگی کے معاملات میں اپنا نا چا ہے۔
وہ شخص جو قوم یا ملک کا ہمدرد غم خوار ہوتا ہے اس کی شخصیت قابلِ احترام ہو تی ہے۔ وہ ملک کو د ر ِ پیش مسائل و مشکلات دیکھ کر خاموش تماشائی نہیں بیٹھتا ہے بلکہ کمر بستہ ہو کر ان مسائل و مشکلات سے نبر د آزما ہو کر ملک کو ترقی و خوش حالی کے راستے پر گامزن کرنے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ۔
(مصنف مضمون نگار اور شاعرہے )
