از:عرفان شبیر سلطانی
جموں و کشمیر کے علماء کرام کے نام عام طور پر اور خطہ پیر پنجال کے باوقار علماء کرام، مفتیانِ عظام، خطباءاسلام اور ائمہ مساجد کے نام خاص طور پر گزشتہ طویل عرصے سے پیر پنجال کے سیاسی و سماجی گلیاروں میں، بازاروں اور چوک چوراہوں میں، گلی محلوں میں، سوشل میڈیا سے لے کر پرینٹ میڈیا میں، ہوٹلوں سے لے کر گھروں میں ایک نہ تھمنے والی بحث زور وشور سے جاری و ساری ہے جس کا عنوان ST درجہ کو لے کر ہے۔
اس کے نتائج نہایت ہی سنگین نوعیت کے نظر آرہے ہیں۔ عوام آپسی اتفاق، اتحاد اور اَعتماد کو درکنار کر چُکی ہے۔ اس سے پہلے ذات دیکھ کر شادیاں ہوتی تھیں، ذات دیکھ کر ووٹ دیے جاتے تھے لیکن ST کی لڑائی نے حالات اس قدر سنجیدہ اور کشیدہ کر دیے ہیں کہ امام کی ذات دیکھ کر نمازیں پڑھی جا رہی ہیں۔ دُنیادار، مفاد پرست اور اسلام مُخالف عَناصر اس کا فایدہ اٹھا کر نفرتوں کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔
*یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
*تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو. (علامہ اقبالؒ )
پیر پنجال کے سرد اور خوشگوار موسم میں عوام کے چہروں کی ویرانی، حیرانی اور پریشانی کسی نا خوشگوار واقعہ کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ نفرتوں کا معیار کچھ یوں ہے کہ دوست اب انجان، اپنے پرائے اور محلے دار بیگانے لگنے لگے ہیں۔ ہاتھ ملاتے وقت خاموشی اور سوشل میڈیا پر تمام حدیں عبور کی جا رہی ہیں۔
*آج ہم گُجر بھی ہیں، پہاڑی بھی ہیں، خان بھی ہیں
*مگر افسوس بھول بھیٹے کہ مسلمان بھی ہیں۔
*( عرفان شبیر )
افسوس کا مقام ہے کہ ان سب حالات، واقعات اور معملات کے باوجود اُمت کے حقیقی رہبر و رہنُما جن کے زمہ شریعتِ اسلامیہ نے عوام الناس کی حقیقی رہنُمائی کی زمہ داری لگای ہے میری مُراد علماء کرام ہیں، جن کی مُسلسل خاموشی سوالیہ نشان کے دائرے میں ہے۔
علماء کرام اس معاشرہ میں جناب نبیِ مُکرم ﷺ کی نیابت اور نمائندگی کے منصب پر فائز ہیں کیونکہ علما ممبرِ رسولﷺ سے خطبہ دیتے ہیں۔ اسلیے علماء کرام کی بارگاہوں میں مؤدبانہ، سادگانہ اور عاجزانہ درخواست ہے کہ اپنے منصب کی زمہ داریوں کو سامنے رکھ کر خطہ پیر پنجال کی عوام کو متحرک کرنے اور اختلافات سے نکالنے میں اپنا قائدانہ رول ادا کریں۔ یہ ممبر و مینار کی خاموشی جاہلوں کو زہر اُگلنے کا موقع دے رہی ہے.
*لگی اس قوم کو کس کی نظر طالب
*جو دنیا کے لیے غیرت کو بھول بھیٹے
