تحریر:جی ایم بٹ
ایک مستند اہلحدیث عالم نے پچھلے دنوں معروف اولیا اللہ کے حوالے سے کئی ایسی باتیں کیں جن سے پورے کشمیر میں ہل چل پیدا ہوگئی ۔ کشمیر میں اولیا کے ساتھ ایک خاص عقیدت پائی جاتی ہے ۔ بلکہ کشمیر کی آبادی کا بیشتر حصہ اعتقاد والوں پر مشتمل ہے ۔ توحید کے ساتھ جو شدت پسند خیالات رکھتے ہیں انہیں بد اعتقادوںکے طور جانا جاتا ہے ۔ بلکہ ان کے ساتھ نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ اس درمیان اگرچہ توحید کے حامی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ تاہم وہ بھی اولیا اللہ کے بارے میں اپنے اصل اعتقاد کا اظہار کرنے سے احتراز کرتے ہیں ۔ پہلے اس قسم کے حلقے میں صرف اہلحدیث شامل تھے ۔ جنہوں نے ابتدائی زمانے میں دعاء صبح اور اوراد فتحیہ مسجد میں اجتماعی طور پڑھنے کی کھل کر مخالفت کی ۔ بعد میں جب کشمیر میں دیوبندی اسلام کی بڑے پیمانے پر اشاعت ہوئی اور دودراز علاقوں میں مدارس قائم کئے گئے تو ان کے مفتیوں اور مبلغوں کی طرف سے روایتی طرز عبادت کی مخالفت کی گئی ۔ یہاں تک انہوں نے مسجدوں پر قبضہ جماکر ان پیروں اور مجاوروں کی چھٹی کی جو اعتقاد کو بحال رکھے ہوئے تھے اور اس ذریعے سے اپنا روزی روٹی کماتے تھے ۔ایسے پیروں اور بزرگوں نے اپنی ساری زندگی غریب طبقوں سے وابستہ رکھی اور خود بھی انتہائی عسرت کی زندگی گزاری ۔ تاہم دیوبندی مولویوں نے ایک دم سے اپنا طرز زندگی تبدیل کرکے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ اختیار کئے ۔ بڑے پیمانے پر لوگوں کا استحصال کرکے اپنے لئے نوابوں اور وزیروں کی آمدنی کے وسائل تلاش کئے ۔ یہ لوگ اب کسی طور عام شہریوں کا سا طرز زندگی اختیار کرنے کو تیار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ کے ساتھ عام لوگوں کے اعتقاد کا متنازع مسئلہ جب سامنے آیا تو انہوں نے وقت ضایع کئے بغیر خود کو اس سے علاحدہ کیا یا اس مسئلے میں مداخلت سے انکار کیا ۔ اس طرح سے مسئلہ آیا اور گیا ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ کشمیر میں دیو بندیوں سمیت تمام توحید پسندوں کا اصل منبع سعودی شہنشاہیت ہے جس کا نظریہ وہابی نظریہ کہلاتا ہے ۔ اسی وہابی نظریے کی پرچار کی وجہ سے یہاں کا توحید پرست حلقہ آج تک قائم و دائم ہے ۔ بلکہ ان کے لئے جو عیش و عشرت پائی جاتی ہے اور ہرسال ان کے لئے حج اور عمرے کے جو سفر طے ہوتے ہیں وہ اسی کا نتیجہ ہیں ۔ اس کے باوجود انہوں نے اس’فتنے‘ کا حصہ بننے سے اجتناب کیا جو ان کے سارے مشن اور ذاتی اخراجات کی اصل بنیاد ہے ۔
کشمیر میں اولیاء اللہ کے حوالے سے منفی سوچ کا اظہار کسی کے لئے ممکن نہیں ۔ بلکہ پورے برصغیر میں کہیں بھی اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے ۔ ماضی میں بہت سے لوگوں نے اس طرح کی بیان بازی ضرور کی ۔ لیکن یہ زیادہ موثر ثابت نہ ہوئی ۔ کشمیر میں مائسمہ اور شوپیان کے علاوہ کہیں بھی کوئی مضبوط حلقہ قائم نہ ہوسکا جو توحید کو لے کر اولیاء اللہ کے ساتھ اعتقاد کی مخالفت کرکے کوئی جگہ بناسکا ہو ۔ یہاں کے توحید پرست بھی اہم موقعوں پر دستگیر صاحب اور شیخ نورالدین کی شاعری کا حوالہ دیتے ہیں ۔ شیخ کے اشعار بڑے مزے سے سنائے جاتے ہیں ۔ اس دوران یہ بات سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ حضرت امیر کبیر کا اوراد فتحیہ اسلامی توحید کا ٹھوس مجلہ ہے جس میں کلمہ توحید کی عظمت بیان کی گئی ہے ۔ ان اولیا کے ساتھ ہمارا عقیدہ جو بھی ہو تاہم یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہے کہ انتہائی مشکل حالات اور اپنے مخالف ماحول میں انہوں نے حق کی ترویج کی اور اس کے نتائج سے بے خطر ہوکر اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کیا ۔ آج جو لوگ یہاں سیٹھ اور شیر بن کر مسجدوں کے محرابوں میں کھڑے ہوکر اسلام کی بات کرتے ہیں ۔ انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے لئے ماحول سازگار بنانے والے یہی اولیا اللہ ہیں جن کے بارے میں آج ہم ہرزہ سرائی کرتے ہیں ۔ پھر معمولی مخالفت کے سامنے ہم اپنے اندر کھڑا رکھنے کی ہمت نہیں رکھتے ہیں اور اصل اسلام سے بھی انکار کرتے ہیں ۔ اس کے بجائے ان اولیا اللہ نے امتحان کے موقعوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ اپنی بات پر ڈٹ گئے ۔ انہوں نے جو استقامت دکھائی اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تک یہاں اسلام قائم و دائم ہے ۔ یہ ان کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے کہ کفر و شرک کے سب سے مضبوط گڑھ کے اندر انہوں نے توحید و رسالت کا نعرہ بلند کیا اور لوگ جوق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہوئے ۔ اس کے بجائے ہماری حالت یہ ہے کہ جب تک ہمارا ذریعہ آمدنی متاثر نہیں ہوتا اسلام کی بات کرتے ہیں ۔ آمدنی میں رتی برابر بھی فرق آیا تو ہمیں اسلام یاد ہے نہ توحید سے کوئی غرض ہے ۔ پھر ہم اپنے ایمان کو Slip of tongue قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ حقیقت نہیں ۔ بلکہ عوامی اجتماعات میں جو باتیں کی جاتی ہیں سوچ سمجھ کر کی جاتی ہیں ۔ ایسے اجتماعات کے لئے موضوع عوام نہیں بلکہ ہم خود منتخب کرتے ہیں ۔ پھر اس کے لئے کئی دن تیاری کرکے کتابوں سے حوالے اخذ کئے جاتے ہیں ۔ قران و حدیث کے حوالے اچانک ہمارے ذہن میں نہیں آتے بلکہ پہلے سے مطالعہ کرکے ایسی باتیں کی جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود ایسی باتیں کرنے والے اپنی لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں ۔ دوسرے علما ایسے خیالات سے خود کو الگ کرتے ہیں ۔ علما کا اس طرح کا فرار ان کے اصل اعتقاد سے فرار ہے اور یہی سب سے بڑی منافقت ہے ۔ رہا سوال اولیا اللہ سے اعتقاد رکھنے والوں کا تو وہ کسی طور اپنے اعتقاد سے الگ ہونے اور ایسے خیالات کو ترک کرنے کو تیار نہیں ۔ وہ سخت مخالفانہ ماحول میں اپنے اعتقاد کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان کی یہ استقامت واقعی قابل داد ہے ۔
