تحریر:جی ایم بٹ
مسلمانوں کی کل آبادی کو دیکھ کر نماز قائم کرنے والوں کی تعداد دیکھی جائے تو بڑی مایوسی ہوتی ہے ۔ بہت کم لوگ نماز ادا کرنے کے لئے مسجدوں میں آتے ہیں ۔ جمعہ کے روز مسجدیں بھر جاتی ہیں ۔ پھر مسجد سے باہر گلی کوچوں اور سڑکوں پر ٹارٹ بچھا کر لوگ نماز پڑھتے ہیں ۔ اس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ بہت زیادہ لوگ نمازوں کے پابند ہیں ۔ ایسا ہرگز نہیں ۔ جمعہ کی نماز کے دو تین گھنٹے بعد جب عصر کی نماز کے لئے مسجد میں پہنچتے ہیں تو چند نمازی ہی موجود ہوتے ہیں ۔ فجر کی نماز پر اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال ہوتی ہے ۔ مجموعی تاثر یہی ہے کہ مسلمانوں میں سے بہت کم افراد نمازوں کے پابند ہیں ۔ اس کے باوجود ہر گلی اور ہر محلے میں مسجد تعمیر کی جاتی ہے ۔ شہر و گام عظیم الشان مساجد ، امام باڑے اور خانقاہیں تعمیر کی جاتی ہیں ۔ مساجد کی تعمیر اور آرائش دیکھ کر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ اتنے پیسے کہاں سے آئے اور کن لوگوں نے خرچ کئے ۔ لیکن وہاں پنجہ وقتہ نماز پڑھنے کے لئے آنے والوں کی قلیل تعداد دیکھ کر بڑی مایوسی ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کے اندر یہ عجیب سوچ پیدا ہوگئی ہے کہ اسلام عبادت سے نہیں بلکہ عبادت گاہوں سے زندہ ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ مساجد اور دوسری عبادت گاہیں کسی بستی کے لئے اسلامی شناخت کی عکاسی کرتی ہیں ۔ لیکن اسلام اور مسلمانوں کی بقا کا دارومدار ان چیزوں پر نہیں ۔ اصل میں اسلام کی شناخت اسلامی کردار ہے ۔ مسلمانوں کی حیات اور ان کی بقا مسلم کردار پر منحصر ہے ۔ اب کئی سالوں سے ایک نئی رو چلی ہے کہ اسلام کو زندہ رکھنا ہے تو مدارس تعمیر کیجئے ۔ ان مدارس کی حالت مساجد سے بھی ابتر ہے ۔ شاندار عمارات ہونے کے باوجود اندر ویرانی اور وحشت پائی جاتی ہے ۔ بیشتر مدارس طلبہ سے خالی ہیں ۔ لیکن رنگ و روغن اور بلند وبالا مینار کھڑا کرکے یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ یہاں اسلام کی شد و مد سے خدمت ہورہی ہے ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ مدارس کی آڑ میں چند خاندانوں کے عیش و عشرت کے سامان مہیا تو ہوتے ہیں لیکن اسلامی عمارت کی بنیادیں کھودی جارہی ہیں ۔ وہ وقت دور نہیں جب ان مدارس کی وجہ سے مسلمانوں کو ایسا نقصان اٹھانا پڑے گا جس کی تلافی کسی طور ممکن نہیں ہوگی ۔ اسلام نے اقوام کی ترقی کے لئے تعلیم کو بنیادی سبب قرار دیا ہے ۔ لیکن مدارس سے نرے جاہل اور ان پڑھ لوگوں کی ایسی کھیپ تیار ہورہی ہے جو مسلمانوں کو واپس Stone Age میں لے جارہے ہیں ۔ جو سرمایہ مسلمانوں کی دانش گاہوں اور علمی اداروں پر خرچ ہونا چاہئے تھا وہ سرمایہ مسجدوں اور مدرسوں کی تعمیر پر ضایع ہورہاہے ۔ اس کے نتائج بڑے سنگین ہونگے ۔ ایسے میں عبادت سے زیادہ عبادت گاہوں کی تعمیرجس طرح سے اولیت حاصل کررہی ہے ۔ یہ برصغیر میں مسلمانوں کے زوال کا بڑا سبب بن جائے گی۔
عبادت سے زیادہ عبادت گاہوں کو فوقیت دینے کا رجحان صرف مسلمانوں میں نہیں پایا جاتا ہے ۔ بلکہ دوسری قومیں بھی آہستہ آہستہ اسی سمت میں جارہی ہیں ۔ مسلمانوں کو مساجد تعمیر کرتے دیکھ کر سکھوں نے شاندار گردوارے تعمیر کرنے کا کام شروع کیا ۔ جہاں دس بیس سکھ گھرانے رہائش پذیر ہیں وہاں دو تین گردوارے تعمیر کئے ہوئے ہیں ۔ اس کا اثر ان کے خدمت خلق کے اصل کام پر پڑرہاہے ۔ سکھوں کی نئی نسل سکھ مت کے بنیادی اصولوں سے لاتعلق ہے ۔ اسے وحشت ہورہی ہے اپنے آبا و اجداد کے مشن سے ۔ بیشتر سکھ نوجوان آوارہ گردی اور کھیل کود میں مست نظر آتے ہیں ۔ موج مستیاں ان نوجوانوں کا مقصد زندگی بن گیا ہے ۔ کینڈا یا دوسرے یورپی ممالک کے سکھ ان کی امداد کرتے ہیں اور اس آمدنی پر یہ اپنی شان بڑھارہے ہیں ۔ کل اس سرمایہ سے وہ ہاتھ کھینچ لیں تو یہاں کے سکھوں کا کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا ۔ پھر سکھ مت ہر طرح کی سرپرستی سے عاری ہوگا ۔ ہندووں کی حالت اسے بھی بری ہے ۔ چالیس پچاس سال ہندو خاص کر کشمیر کی پنڈتانیاں جس طرح سے اپنی مذہبی روایات اور مذہبی رسوم کا خیال رکھتی تھیں نئی نسل کی خواتین میں اس کا عشر عشیر نہیں پایا جاتا ۔ ایسی بیشتر نوجوان پنڈت لڑکیاں مذہب سے دور، مغربی طرز بود وباش کی عادی اور اپنی روایات سے بالکل بے خبر ہیں ۔ نقل مکانی نے ان کے حرکات و سکنات کو ضرور متاثر کیا ۔ لیکن ان پر مذہب سے دوری کا رجحان پہلے ہی سرایت کرچکا تھا ۔ پنڈتوں کی روایات اور مذہبی آن بان شان ان کے مردوں سے نہیں بلکہ خواتین سے زندہ تھی ۔ نئی نسل نے اس کی پروا کئے بغیر سب کچھ چھوڑ دیا ۔ اس دوران انہیں مرکزی سرکار کی سرپرستی حاصل ہوئی ۔ اس وجہ سے ان کے اندر اعتماد تو پیدا ہوا ۔ نئے مندر تعمیر ہوئے ۔ ایسے کنکریٹ مندر بڑے مضبوط اور وسیع ضرور ہیں ۔ لیکن نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے سے قاصر ہیں ۔ ہمارے پنڈت نوجوان آج پورے ملک بلکہ ملک سے باہر دنیا بھر میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ وہاں جاکر یہ اپنی عبادات اور روایات کو پوری طرح سے بھول چکے ہیں ۔ ان کے اندر مذہب کا کوئی رنگ ڈھنگ نہیں پایا جاتا ہے ۔ معمر پنڈتوں نے کئی بار اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمارے نوجوان اپنی مالی حالت بہتر بنانے میں لگے ہیں ۔ لیکن اپنی روایات کو یکسر ترک کرچکے ہیں ۔ اس دوران رام مندر کی تعمیر اور رام للا کی ایودھیا آمد سے ہندووں میں بڑا جوش و خروش پیدا ہوا ۔ لیکن اس وجہ سے ہندو مت کی طرف نوجوانوں کی واپسی نہیں ہوئی ہے ۔ نوجوانوں میں ہندو عبادات کا رجحان نہیں بڑھ گیا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اس صورتحال کی طرف توجہ دے کر برملا کہا کہ مذہب سے دوری کی وجہ سے رام مندر کی تعمیر میں پانچ سو سال لگ گئے ۔ اس کے بعد تو ہندو عبادت گزاروں میں اضافہ ہونا چاہئے ۔ لیکن ایسا نظر نہیں آتا ۔ یہ لوگ رام مندر کی تعمیر کو کافی سمجھ کر رام کی تعلیمات کی فکر کرنے سے بہت دور نظر آتے ہیں ۔ عبادات سے بڑھ کر عبادت گاہوں کی تعمیر اور ان کی تزئین مذہب کو فروغ نہیں بلکہ اس سے لوگوں کو غافل بنادیتی ہے ۔
