زیبا نسیم
یاایّھاالذ ین اٰمنوانفقومما رزقنٰکم من قبل ان یأتی یوم لا بیع فیہ ولا خلّۃ ولا شفاعۃ ! البقرہ۔254
ایمان والوجوہم نےتمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہواس سے پہلے کہ وہ دن آجائےجس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور نہ شفاعت۔
قرآن کریم میں یہ ہے فلاحی کاموں کے لیے اللہ تعالی کی ترغیب۔فلاحی کاموں سے مراد وہ کام ہیں جو انسانی بھلائی اور معاشرتی ترقی کے لئے کئے جاتے ہیں۔ فلاحی کاموں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، بیماروں اور دوسرے محتاج افراد کو مالی ، معنوی اور دیگر امداد فراہم کرنا۔۔۔ تعلیم ، صحت ، روزگار ، مسکن ، نقل و حمل ، تفریح اور دیگر سہولیات کا انصاف اور برابری سے تقسیم کرنا – علم ، فن ، تاریخ ، ثقافت اور دین کو فروغ دینا اور محفوظ رکھنا۔۔۔ قدرتی وسائل اور ماحول کو بچانا اور صاف ستھرا رکھنا۔۔۔ انصاف ، امن ، برادری اور محبت کا پروپگنڈا کرنا اور تشدد ، نفرت اور تعصب کا مقابلہ کرنا۔۔۔ یہ سب خدمت خلق کے کام ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ خدمت انسانیت میں مسلم اور غیر مسلم میں فرق نہیں ۔ اگر کوئی غیر مسلم بھی ہمدردی اور مدد کا مستحق ہو تو اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بھی اللہ کابندہ ہے ۔ مذہب کی روشنی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ ہمیں چاہئے کہ ضرورت مند انسانوں سے محبت اور ہمدردی کریں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد دیں تا کہ اللہ کی رضا حاصل ہو ۔
انسانیت کا جنم مذہب کی کوکھ سے ہوا ،دنیا کے ہر مذہب نے انسانیت کا سبق دیا ۔ دنیا کو انسانیت کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ ۔۔۔۔ترمذی شریف کی روایت کے مطابق ۔۔۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آ سمان والا تم پررحم فرمائے گا ۔اسی طرح بخاری اور مسلم کی روایت ہے جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اسے اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔
تقریبا بائیس آیتیں قرآن میں ایسی ہیں جن میں یتیم سے متعلق خصوصی تعلیمات دی گئی ہیں اسلام نے کھانا کھلانے کی جہاں بھی ترغیب دی ہے اس میں یتیم کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اسے ایک بڑا کار خیر قرار دیا گیا ہے۔اس پر زبردست اجرو ثواب کا وعدہ کیا ہے، اس کے علاوہ ان کے تحفظ، بہتر نشوونما ، اچھی تعلیم وتربیت اور ان پر خصوصی شفقت کا حکم دیا ہے۔ تاکہ باغ انسانیت کے یہ پھول مرجھانے نہ پائیں۔ اگر وہ ایک مالی سے محروم ہوتے ہیں تو اس کی جگہ سیکڑوں مالی حرکت میں آئٗیں۔اس طرح سے دیکھ بھال کریں کہ اس کی خوشبوساری امت کے مشام جاں کو معطر کردے۔
پیغمبر اسلام کی نظر میں پیغمبر اسلام کے شب و روز اسی فکر وعمل میں بسر ہوتے کہ کس طرح خلق خدا کی خدمت کی جائے اور ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔ اس میں امیرو غریب، بچے بوڑھے اور مردو عورت کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ نہ ہی ان کے درمیان کوئی تفریق برتی جاتی تھی۔ پیغمبر اسلام نے خدمت کے معاملہ میں مکمل عالم انسانیت کو ایک خاندان کا درجہ دیا ۔
بہتر طریقہ کیا ہے ضرورت مند اور مستحق کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے مستقل روزگار فراہم کرنے میں مدد دی جائے ۔ بھیگ مانگنے اور سوال کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے اور اس عمل کو نبی کریم نے نا پسند کیا ہے ۔ بد قسمتی سے آج مسلمان معا شروں میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس کو پیشے کے طور پر اختیار کر لیا ہے جس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چا ہئے اور حقیقی مستحقین کو ان کا حق بغیرطلب کئے ملنا چاہئے
امام احمد اور امام ترمذی نے روایت بیان کی ہے رحم اور ہمدردی تو اس شخص کے دل سے نکال دی جاتی ہے جو بد بخت ہو ۔ ہمیں چاہئے کہ ضرورت مند انسانوں سے محبت اور ہمدردی کریں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد دیں تا کہ اللہ کی رضا حاصل ہو ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عہد حاضر میں سماجی خدمات کی جانب کافی توجہ دی گئی ہے۔ اس کے لیے سوشیالوجی کے نام سے مستقل مضمون اسکول کالج میں متعارف کرایا گیا ہے، اوراس میں پی ایچ، ڈی کی سطح تک تعلیم دی جاتی ہے، اس کام کے لیے دنیا میں ہر جگہ ہزاروں این جی اوز قائم ہیں۔ جنہوں نے سماجی خدمات کو ہی اپنا مشن بنایا ہوا ہے۔مگر آج مسلمان مختلف مصائب کے امراض میں مبتلاء ہیں جن کا علاج صرف او رصرف نیک اعمال ہیں۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کے ہم نے جس دینِ اسلام کو قبول کیا ہے اس دین کے تمام ارکان پر عمل کریں اورزندگی کے ہر شعبہء میں سدھار پیدا کریں۔
