• Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper
ہفتہ, مئی ۱۰, ۲۰۲۵
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Chattan Daily Newspaper
No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار
Home کالم ادب نامہ

لیلیٰ اور مجنون۔۔۔۔۔۔۔عشق و ادب کے دو سچے کردار۔

Online Editor by Online Editor
2024-02-18
in ادب نامہ
A A
لیلیٰ اور مجنون۔۔۔۔۔۔۔عشق و ادب کے دو سچے کردار۔
FacebookTwitterWhatsappEmail

تحقیق و ترتیب
معراج زرگر
جامعہ ازہر شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم المصری لکھتے ہیں کہ لیلیٰ مجنوں کی شدید عشق و محبت کی کہانی کوئی فرضی داستان نہیں ہے جیسا کہ ڈاکٹر طحہٰ حسین نے خیال ظاہر کیا ہے۔ یہ پہلی صدی ہجری کا سچا واقعہ ہے جو عرب کے نجد کے علاقے میں رونما ہوا اور لازوال بن گیا۔

ڈاکٹر ابراہیم جو 2006سے 2011تک پانچ سال پنجاب یونیورسٹی کے فارن پروفیسر رہے ہیں اپنی کتاب ’’لیلیٰ مجنوں…عربی، فارسی اور اردو شاعری میں‘‘ لکھتے ہیں کہ مجنوں کا نام قیس تھا اور وہ ایک مالدار نجدی قبیلے بنو عامر کے سردار کا بیٹا تھا۔ وہ ایک گوراچٹا، خوب صورت اور خوش گفتار نوجوان تھا۔ شاعر تھا۔ لیلیٰ جس کی محبت میں وہ مجنوں کہلایا، قیس ہی کے قبیلے کی ایک لڑکی تھی۔ مہدی بن سعد اس کا باپ تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔
قیس نے اپنے اشعار میں اس کی یوں تعریف کی ہے۔

’’وہ ایک چاند ہے جو ایک سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے، وہ نہایت حسین ہے۔ اس کی آنکھیں اس قدر سیاہ ہیں کہ انھیں سرمے کی ضرورت نہیں۔‘‘

کتاب الاغانی کی ایک روایت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ابراہیم لکھتے ہیں۔ ’’ایک مرتبہ لیلیٰ نے اپنی پڑوسن کو قسم دے کر پوچھا، سچ بتا وہ جو مرے حسن کی اس قدر تعریف کرتا ہے، سچی تعریف ہے یا جھوٹی‘‘ پڑوسن نے جواب دیا کہ ’’وہ جھوٹی تعریف نہیں کرتا۔ تم ویسی ہی صاحب جمال ہو جیسا کہ قیس کہتا ہے۔‘‘

’’کتاب الاغانی‘‘ جس کے مصنف ابوالفرج اصفہانی ہیں، لیلیٰ مجنوں کے قصے میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس قصے کی زبان سے زیادہ تفصیلات اسی میں پہلی مرتبہ سامنے آئیں۔ امام جاحظ نے بھی قیس کا ذکر کیا ہے۔ عربی ادب میں لیلیٰ مجنوں کا قصہ یہ ہے کہ بچپن میں قیس اور لیلیٰ دونوں اپنے قبیلے کی بکریاں چراتے تھے۔ وہ ساتھ بیٹھتے اور آپس میں باتیں کرتے۔ اس دوران انھیں ایک دوسرے سے محبت ہو گئی۔ جب یہ دونوں بڑے ہوئے اور شباب کی حدود میں داخل ہوئے تو ان کی باہمی دلچسپی روز بہ روز بڑھنے لگی۔ پھر لیلیٰ پر پردہ کی پابندی لگ گئی۔ لیلیٰ کے پردے میں چلے جانے سے ملنا جلنا ختم ہوا۔ اس سے قیس کا اضطراب بڑھنے لگا اور محبت میں شدت آ گئی۔ قیس چوں کہ خوش بیان شاعر تھا اس لیے لیلیٰ کا ذکر اپنے اشعار میں کرنے لگا۔ اپنے ایک شعر میں وہ کہتا ہے۔
اے لیلیٰ! میں اس سچے عاشق کی طرح تجھ سے محبت کرتا ہوں جس کے لیے راہ محبت میں تمام دشواریاں جھیلنا آسان ہوتا ہے۔ میں تجھ سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ اگر تو بھی مجھ سے ایسی محبت کرنے لگے تو بھی جنون میں مبتلا ہو جائے گی۔ اس قسم کے جذباتی اشعار لیلیٰ کی رسوائی کا باعث ہوئے اور لیلیٰ سے قیس کی محبت کا قصہ مشہور ہو گیا اور قیس کی وارفتگی بھی بڑھنے لگی تو اس کے ماں باپ کو فکر ہوئی۔ وہ اپنے اہل خاندان کے ساتھ لیلیٰ کے والد کے پاس گئے اور لیلیٰ کا رشتہ مانگا۔ لیلیٰ کے ماں باپ کو داغ بدنامی گوارا نہ ہوا اور انھوں نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔

اس دوران قبیلہ ثقیف کے ایک نوجوان نے بھی جس کا نام ورد تھا، لیلیٰ کو شادی کا پیغام دیا۔ لیلیٰ کے والدین نے یہ رشتہ قبول کر لیا۔
اس صورت حال نے قیس کو اس قدر مضطرب کیا کہ وہ بیمار ہو گیا۔ اس کے والدین نے چاہا کہ وہ اپنے قبیلے کی کسی اور خوبصورت لڑکی سے شادی کر لے مگر اب قیس لیلیٰ کی محبت میں اتنی دور نگل گیا تھا کہ واپسی ممکن نہ تھی۔ رفتہ رفتہ قیس کی حالت ایسی ہو گئی کہ اسے اپنے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ لوگوں نے قیس کے باپ کو مشورہ دیا کہ وہ اسے مکہ لے جائے اور بیت اللہ کی پناہ میں دعا مانگے۔ قیس کا باپ الملوح اسے لے کر مکہ گیا اور حرم شریف میں اس سے کہا کہ غلاف کعبہ سے لپٹ کر لیلیٰ اور اس کی محبت سے نجات کی دعا مانگے۔ اس کے جواب میں جب قیس نے یہ دعا مانگی کہ اے اللہ! مجھے لیلیٰ اور اس کی قربت عطا فرما تو الملوح قیس کو واپس لے آئے۔

راستے میں اس نے ایک جگہ پہاڑی پر اپنے آپ کو گرانے کی بھی کوشش کی مگر لوگوں نے پکڑ لیا۔ اپنے قبیلے میں واپس پہنچ کر قیس کے باپ ایک بار پھر لیلیٰ کے باپ کے پاس گئے تا کہ انھیں لیلیٰ کی اپنے بیٹے سے شادی پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں، مگر کامیابی نہ ہوئی۔ پھر لیلیٰ کی شادی اس دوسرے لڑکے سے کر دی گئی جس کا پیام آیا تھا۔ لیلیٰ خود بھی قیس کی محبت میں گرفتار تھی مگر خاندان کی نیک نامی اور والدین کی اطاعت سے مجبور تھی۔

جب قیس کو یہ معلوم ہوا کہ لیلیٰ کی شادی ہو گئی ہے تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بے تابی اور بے قراری بڑھ گئی۔ اس کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ وہ اپنے وجود کو بھول گیا۔ نہ کھانے کی پرواہ نہ کپڑوں کی۔ گوشہ نشین ہو گیا اور پھر ایک دن صحرا میں نکل گیا۔ لیلیٰ کو آوازیں دیتا، پہاڑوں، درختوں، جنگلی جانوروں سے پوچھتا لیلیٰ کہاں ہے۔ اسی حال میں ایک دن اس کی نظر ایک ہرنی پر پڑی۔ وہ اس کے پیچھے ہو لیا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کے گھر والے صحرا میں اسے ڈھونڈتے رہے۔چوتھے دن وہ انھیں ایک پتھریلی وادی میں ریت پر مردہ پڑا ملا۔

ڈاکٹر ابراہیم المصری لکھتے ہیں ’’جہاں تک اس قصے کے ہیرو کا تعلق ہے تو وہ ایسے شاعر ہیں جن کو صحرا کے باسی ہونے کی وجہ سے انتہائی اعلیٰ درجے کی ذکاوت طبع اور وسعت خیال حاصل تھی۔ قیس ایک حساس اور رقیق القلب شاعر تھا اور بعض روایات کے مطابق لیلیٰ بھی شاعرہ تھی اور یہی چیز ہے جس نے اس محبت بھرے قصے کو ایک المیہ بنا دیا جس کے لیے دل اور آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں حالانکہ یہ ممکن تھا کہ یہ محبت شادی کے ذریعے ان کے اجتماع پر منتج ہوتی اور خوشیوں بھری زندگی انھیں حاصل ہوتی۔‘‘

اس کے باوجود قدیم عربی ادب میں لیلیٰ مجنوں کے قصے کی طرف وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا وہ مستحق تھا۔ کسی شاعر یا ادیب نے اس کو اپنے تخلیقی کام کا موضوع بنا کر اس کو ادبی جامہ نہیں پہنایا۔ اس پر صرف اتنا کام ہوا کہ اسے تاریخ ادب کی کتابوں میں درج کر دیا گیا۔

ڈاکٹر ابراہیم کہتے ہیں کہ ’’لیلیٰ مجنوں کا قصہ عربی سے فارسی میں منتقل ہوا، اور اس کو فارسی ادب کا جامہ پہنایا گیا تو یہ شعرا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ صوفیہ کے اس نظریے کے تحت کہ انسانی محبت بعض اوقات عاشق کی روح کو رفعتوں سے ہمکنار کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال کی یاد دلاتی ہے جس کے نتیجے میں عاشق انسانی محبت کی اعلیٰ منزل تک رسائی حاصل کر کے عاشق الٰہی بن جاتا ہے اور اس پر وجد اور وارفتگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، انسانی عشق کا یہ قصہ عشق الٰہی تک پہنچانے کا ذریعہ بن گیا۔ نظامی گنجوی، خسرو، جامی اور مکتبی شیرازی جیسے بڑے فارسی شعرا نے اس قصے کو منظوم کیا ہے۔‘‘

فارسی ادب میں لیلیٰ مجنوں کی محبت کا اصل واقعہ وہی ہے جو عربی ادب میں ہے لیکن تفصیلات میں فرق ہے۔ ہر شاعر نے اپنے قصے کے لیے عربی ادب سے اپنی پسند کی روایت اخذ کی ہے۔ ڈاکٹر ابراہیم کہتے ہیں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ عربی ادب میں لیلیٰ مجنوں کے قصے کا ماحول صحرائی ہے اور فارسی میں شہری۔ عربی ادب میں قیس اور لیلیٰ کی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ اپنے قبیلے کی بکریاں چراتے تھے مگر فارسی ادب میں ان کا ایک دوسرے سے تعارف مدرسہ میں ہوتا ہے جہاں وہ پڑھنے آتے تھے۔فارسی ادب میں یہ قصہ بہت مقبول ہوا۔

اگرچہ فارسی میں منتقل ہونے سے پہلے اس پر کسی حد تک تصوف کا رنگ چڑھ گیا تھا لیکن فارسی ادب میں یہ غالب طور پر تصوف ہی کا قصہ بن گیا۔ صوفیائے کرام اپنی محرومی، دکھ درد اور فراق کی ترجمانی کے لیے مجنوں کے اشعار پڑھا کرتے اور بہ طور مثال بیان کرتے۔ شبلی کہتے ہیں ’’اے قوم! یہ مجنوں عامری ہے کہ جب بھی اس سے لیلیٰ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میں ہی لیلیٰ ہوں۔‘‘

فارسی ادب سے یہ قصہ اردو ادب میں منتقل ہوا اور کئی شعرا نے جن میں دکنی شعرا، سر فہرست ہیں اسے نظم کا جامہ پہنایا۔ بہرحال قصہ لیلیٰ و مجنوں چاہے عربی میں ہو یا فارسی یا اردو میں، خلاصہ اس کا یہ ہے کہ قیس نے لیلیٰ سے محبت کی اور ایسی محبت کہ مجنوں کہلایا مگر لیلیٰ کو وہ نہ پا سکا۔ اصل قصہ تو یہی ہے باقی مختلف ادبیات عربی، ترکی، فارسی، اور اردو میں اس کی تفصیلات میں فرق ہے کہیں کم کہیں زیادہ۔ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم المصری نے اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ ان کی کتاب ایک تقابلی مطالعے سے بڑھ کر ہے۔ اس کی تحقیقی اہمیت ہے جس میں عربی، فارسی اور اردو شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ہمارے اپنے کشمیری ادب میں لیلی اور مجنوں کی داستان کو کسی نہ کسی طرح نقل کیا گیا ہے۔ یہاں کی روایتی داستان گوئی میں بھی "لآلی تِہ مجنون” ایک نہ مٹنے والی داستان ہے۔ اور داستان سے بڑھ کر یہ دونوں کردار سچے ہیں اور صدیوں سے کشمیری قوم ان کرداروں سے جذباتی طور وابستہ ہیں۔ اور لیلی حسن و جمال کا ایک استعارہ ہ۔ جبکہ مجنوں ایک سچے عاشق اور عشق میں فنا کردار کا ایک استعارہ ہے۔ اکثر لوک کہانیوں اور عام شاعری میں بھی دونوں کا زکر خوب ہوا ہے۔ یہاں تک کہ شادیوں اور تقریبات کے گیتوں میں بھی لیلی اور مجنون کا زکر ملتا ہے۔

اس کے علاوہ جتنے بھی کشمیری شعراء ہیں, جن میں صوفی اور غیر صوفی دوسرے بڑے شاعر ہیں, سب نے اپنی شاعری میں لیلی اور مجنون, دونوں کرداروں کا زکر بہتات سے کیا ہے۔ ایک عجیب بات ہے کہ چودہ سو صدیاں گذرنے کے باوجود بھی دونوں کردار اردو, فارسی, عربی, ترک, پنجابی, سندھی, سرائیکی, بلتی, پشتو, گوجری, پہاڑی اور کشمیری ادب اور تہذیب پر چھائے ہوئے ہیں۔ اور کوئی بھی چوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا ادیب و شاعر بھی ان دو کرداروں کا زکر کرنے میں کوئی بھی دقیانوسیت یا عار محسوس نہیں کرتا۔ جس سے اس بات کا خوب اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں کردار کس قدر ٹھوس, جامع اور تاریخی اوراق پر کندہ ہیں۔

پروفیسر احمد جاوید صاحب ایک نشت میں ایک جگہ کہتے ہیں کہ کسی نے مجنون سے پوچھا کہ تم نے تو صحرا کا چپہ چپہ چھان مارا ہے۔ تم صحرا کو تو پہچانتے ہونگے۔ مجھےبیہ بتاؤ کہ صحرا کیسا ہے, ریت کیسی ہے, وہاں کی آب و ہوا کیسی ہے, نخلستان, سراب وغیرہ کیسےہیں۔؟

اس پر مجنون بڑے مغموم ہوئے اور سوال کرنے سے والے سے پوچھا کہ لیلی کا عاشق لیلی کے سواء کچھ نہیں جانتا۔ مجنوں بس لیلی کو جانتا ہے۔ مجنوں کے لئے دیکھا ہوا بھی لیلی ہے اور ان دیکھا ہوا بھی لیلی ہے۔ اور سمجھا ہوا بھی لیلا ہے اور نہ سمجھا ہوا بھی لیلی ہے۔ مزید کہتا ہے کہ مجنوں کے لئے قطعی بس لیلی ہے, باقی سب ظنی ہے۔

پنجابی شعراء, خاص طور پنجابی صوفی شعراء نے لیلی اور مجنوں پر اچھی خاصی شاعری کی ہے۔ خواجہ غلام فرید کے دو شعر پیش ہیں:

عشق لیلیٰ وچّ مجنوں کامل کھڑا لیلیٰ یاد کریندا
بارہ سال جنگل دے وِچ چَمّ بدن کھڑا سُوکیندا
سگ لیلیٰ دا جاں باہر آیا پَیا مجنوں پَیر چُمیندا
صادق عشق فرید جنہاں دا جِیندیں مُوئیں توڑ نِبھیندا۔

(لیلیٰ کے عشق میں مکمل طور پر فنا مجنوں (قیس) لیلیٰ کو یاد کرتا رہتا
بارہ سال اسی طرح جنگل میں کھڑے اس کے بدن کی کھال سوکھ گئی
جب لیلیٰ کا کتا باہر آتا تو مجنوں اس کے پیر چومتا
اے فرید ! جس کا عشق سچا ہوتا ہے وہ زندگی اور موت دونوں میں ساتھ نبھاتا ہے)

فارسی میں امیر خسروؔ نے اس عشقیہ داستان کو 1299 میں منظوم کتابی شکل دی۔ اسی طرح مولانا جامیؒ نے 1448 عیسوی میں ایک ضخیم منظوم 3860 صفحات پر مشتمل لکھا۔ اور حافظ شیرازی جیسے معتبر اور استاد شاعر نے 1520 میں اس قصے کو لکھا۔ تقریبا تمام بڑے بڑے عربی, فارسی اور اردو شعرا اور داستان گو نثر نگاروں نے قیس و لیلی یا مجنون و لیلی کے عشق اور اس صحیح واقعے کے پس منظر میں اشعار کہے یا کچھ نہ کچھ نثریہ لکھا۔

رُخِ لیلیٰ شُنیدستم که مجنون را کند مجنون
چه حُسن است این تعالی الله، که مجنون کرد لیلیٰ را۔

(سید عمادالدین نسیمی)

"میں نے سُنا ہے کہ لیلیٰ کا چہرہ مجنون کو مجنون کرتا ہے۔۔۔ [لیکن،] سُبحان اللہ! یہ کیسا حُسن ہے کہ جس نے لیلیٰ کو مجنون کر دیا!”

اب قیس ہے کوئی نہ کوئی آبلہ پا ہے
دل آٹھ پہر اپنی حدیں ڈھونڈ رہا ہے

اب نجد کے صحرا میں نہ کانٹے نہ صدائیں
اب قیس ہے کوئی نہ کوئی آبلہ پا ہے

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے
نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے۔

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خاں سیاح

آکے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد
نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد

اے شوق طلب بڑھ کر مجنون ادا ہو جا
اے ہمت مردانہ راضی بہ رضا ہو جا۔

میں نے لڑکپن میں مجنوں پہ اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا۔

یہ چند اردو اشعار ہیں جو اقبال, غالب اور دیگر بڑے شعراء کے ہیں۔ مگر اس کے علاوہ بھی ایک بہت بڑی تعداد ایسے اشعار کی ہے جن میں لیلی اور مجنون کا زکر آیا ہے۔ یا جن میں لیلی اور مجنون کے عشق پر شاعری کی گئی۔ مگر یہاں فارسی میں بہت ہی بڑے شعراء کے اشعار پیش ہیں جو لیلی اور مجنون پر کہے گئے اور جو اپنے معنی اور فلسفہ عشق پر ایک انمول خزینہ ہیں۔ ان لافانی اشعار کا کما حقہ ترجمہ بھی کیا گیا۔ مگر امید ہے کہ کوئی تشنہ علم طالب علم اس کام کو آگے بڑھاکر بہتر ترجمہ اور شرح پیش کرنے کا کار خیر اپنے ہاتھوں میں لے لے۔

مولانا رومی کے چند اشعار۔۔۔۔

گفت مجنون تو همه نقشی و تن
اندر آ و بنگرش از چشم من
(مجنون نے جواب دیا کہ تو بس جسم اور چہرے کا فریفتہ ہے۔ میرے اندر آ۔۔۔اور میرے آنکھوں سے لیلی کو دیکھ)

کین طلسم بسته مولیست این
پاسبان کوچه لیلیست این
(یہ ایک چھپا راز ہے جو لیلی کے کوچے کا نگہبان ہے, دربان ہے )

همنشین بین و دل و جان و شناخت
کو کجا بگزید و مسکن‌گاه ساخت
(مجنوں اس احمق سے کہتا ہے کہ آ اور میرا ہمنشین بن اور میرے دل و جان کی شناخت کر۔ اور دیکھ کہ مجنوں نے اسی کوچہ کو اپنا مسکن بنایا ہے اور اس کو کہیں نہیں جانا اس کے سواء۔)

او سگ فرخ‌رخ کهف منست
بلک او هم‌درد و هم‌لهف منست
(مجنوں احمق سے کہتا ہے کہ وہ کشادہ چہرے والا کتا میرا ساتھی ہے۔ وہ میرا ہمدرد ہے اور میرا ہم لہف ہے)

آن سگی که باشد اندر کوی او
من به شیران کی دهم یک موی او
(یہ جو میری لیلی کی گلی میں کتا ہے۔ اس لا ایک بال بھی میں کسی شیر کے حوالے نہیں کرسکتا)

هر کس که مرا جوید در کوی تو باید جست
گر لیلی و مجنون است باری من و باری تو
(جو بھی مجھے ڈھونڈھتا ہے میں اسے لیلی کی گلی میں ہی ملوں گا۔ کبھی لیلی کے روپ میں اور کبھی مجنوں کے روپ میں)

میان ابروی او خشم‌های دیرینه‌ست
گره در ابروی لیلی هلاک مجنونست
(میری لیلی کے ابرؤں میں وہی ازلی شرارت ہے۔ اگر لیلی کے ابرو میں کبھی بل آیا تو مجنوں تو ہلاک ہی ہوگیا)

هر کسی اندر جهان مجنون لیلی شدند
عارفان لیلی خویش و دم به دم مجنون خویش
(اس جہاں میں کوئی نہ کوئی لیلی اور مجنوں ہے۔ کبھی وہ لیلی کے روپ میں ہونگے تو کبھی وہ مجنوں کے روپ میں۔ یعنی اللہ کے عارف۔)

هرگز ندیدست آسمان هرگز نبوده در جهان
مانند تو لیلی جان مانند من مجنون خوش
(تم کبھی بھی آسمان کو نہ دیکھتے اور نہ دنیا کو دیکھو گے۔ اسی طرح جہاں تم لیلی دیکھو گے وہیں مجنوں کو بھی پاؤ گے۔)

هر آن نقشی که پیش آید در او نقاش می بینم
برای عشق لیلی دان که مجنون وار می گردم
(میں جب بھی کسی نقش کو دیکھتا ہوں تو اس میں نقاش کی صورت نظر آتی ہے۔ اسی طرح لیلی کے عشق یں میں مجنوں پر ہی فریفتہ ہوں۔)

توبه نکنم هرگز زین جرم که من دارم
زان کس که کند توبه زین واقعه بیزارم
(میں عشق کے جرم کی کبھی توبہ نہیں کروں گا۔ میں ہر اس شخص سے بے زار ہوں جو اس راہ میں پڑ کر کبھی توبہ کرے۔ )

مجنون ز غم لیلی چون توبه نکرد ای جان
صد لیلی و صد مجنون درجست در اسرارم
(اے میری جان۔۔۔۔مجنوم اور لیلی نے عشق کی راہ میں توبہ نہیں کی۔ اور کیا آپ کو معلوم ہے کہ یزاروں لیلائیں اور مجنون میرے اسرار عشق سے ناواقف ہیں۔)

نباشد مرغ خودبین را به باغ بیخودان پروا
نشد مجنون آن لیلی به جز لیلی صد مجنون
(خود پہ یقین رکھنے والا مرغ ناواقفوں کے باغ میں رہ کر کسی کی پروا نہیں کرتا۔ نہ مجنون لیلی کے بغیر رہ سکتا ہے اور نہ لیلی مجنوں کے بغیر۔)

بنواز سر لیلی و مجنون ز عشق خویش
دل را چه لذتی تو و جان را چه مفرشی
(لیلی اور مجنون کے عشق کو تو اپنی ترازو سے نہ تول۔ تو دل کی لذت اور جان کو قدموں میں پیش کرنے کا کیا اندازہ کرسکتا ہے۔)

از لیلی خود مجنون شده‌ام
وز صد مجنون افزون شده‌ام
(لیلی خود ہی مجنوں سے وجود میں آئی۔ اور پھر اس سے سینکڑوں مجنوں پیدا ہوئے۔

لیلی ما ساقی جان مجنون او شخص جهان
جز لیلی و مجنون بود پژمرده و بی‌فایده
(لیلی ساقی ہے اور مجنوں اس لیلی کی جان ہے۔ اور اے شخص یہ دنیا لیلی اور مجنوں کے بغیر افسردہ اور بے فائدہ ہے۔)

شیخ سعدی شیرازی کے چند اشعار۔۔۔

عشق لیلی نه به اندازه هر مجنونیست
مگر آنان که سر ناز و دلالش دارند
(لیلی کے عشق کا اندازہ ہر مجنون کے بس کی بات نہیں۔ سوائے اس کے کہ جو راز سے واقف ہو اور دل والا ہو۔)

ای خوبتر از لیلی بیم است که چون مجنون
عشق تو بگرداند در کوه و بیابانم
(اے لیلی سے اچھے معشوق۔۔۔مجھے ڈر ہے کہ تمہارا عشق تمہیں کوہ و بیابان کےبسپرد نہ کردے۔)

حدیث حسن تو و داستان عشق مرا
هزار لیلی و مجنون بر آن نیفزایند
(تمہارے حسن کی تعریف اور میرے عشق کی داستان۔ ہزار لیلی اور مجنوں کے قصے سے زیادہ مجھے جچتا ہے۔)

ترسم نکند لیلی هرگز به وفا میلی
تا خون دل مجنون از دیده نپالاید
(مجھے اس بات کا غم ہے کہ لیلی اپنے مجنوں سے تب تک وفا نہ کرے گی۔ جب تک کہ نہ مجنوں کے دل سے ٹپکے ہوئے خون کا خود سے مشاہدہ نہ کرے۔)

اگر عاقل بود داند که مجنون صبر نتواند
شتر جایی بخواباند که لیلی را بود منزل
(اگر عاقل ہےتو جاننا چاہیے کہ مجنوں اگر صبر نہ کرے تو خواب میں لیلی کے اونٹوں کو دیکھ کر کہے کہ یہ لیلی کی منزل ہے۔)

ای کاش برفتادی برقع ز روی لیلی
تا مدعی نماندی مجنون مبتلا را
(اے کاش تو نے لیلی کے چہرے سے پردہ نہ ہٹایا ہوتا, تو اے مجنوں تو اس کے عشق میں مبتلاء نہ ہوا ہوتا۔)

عاقلان خوشه چین از سر لیلی غافلند
این کرامت نیست جز مجنون خرمن سوز را
(عاقل لوگ نکتہ چینی کر رہے ہیں اور لیلی کے راز سے غافل ہیں۔ مجنوں کے بغیر اس کھلیان کو کوئی آگ نہیں لگا سکتا۔)

طاقت مجنون برفت خیمه لیلی کجاست
غفلت از ایام عشق پیش محقق خطاست
(لیلی کی منزل کا پتا کرتے کرتے مجنون نے اپنی طاقت زائل کی۔ ایک محقق کے سامنے اپنے ایام عشق بیان کرنے کی خطا کی۔ )

مجنون ز جام طلعت لیلی چو مست شد
فارغ ز مادر و پدر و سیم و زر فتاد
(مجنوں نے لیلی کا جام طلعت نوش کرکے خود کو مست کردیا۔ اوت خود کو ماں باپ اور سیم و زر سے فارغ کردیا۔)

چشم مجنون چو بخفتی همه لیلی دیدی
مدعی بود اگرش خواب میسر می‌شد
(جب مجنوں کی آنکھ سوجاتی تو وہ بس لیلی کو دیکھتی۔ اور اگر خواب دیکھتا تو لیلی کا ہی دعوی کرتا۔)

مگر لیلی نمی‌داند که بی دیدار میمونش
فراخای جهان تنگ است بر مجنون چو زندانی
(لیلی نہیں جانتی تھی کہ اس کا عاشق بےدار ہے۔ دنیا کی وسعت مجنوں کے لئے قید خانے سے بھی تنگ ہوچکی۔)

علاج درد مشتاقان طبیب عام نشناسد
مگر لیلی کند درمان غم مجنون شیدا را
(عاشقوں کے درد کا علاج عام طبیب نہیں کرسکتے۔ مگر لیلی ہی فقط مجنوں کے غم کا درماں کرسکتی ہے۔)

الا مگر آنکه روی لیلی دیدست
داند که چه درد می‌کشد مجنون را
(فقط لیلی کا چہرہ جس نے دیکھا ہو۔ وہ ہی کہہ سکتا ہے کہ مجنوں کے درد کا علاج لیلی کا دیدار ہے۔)

سعدیا شرط وفاداری لیلی آن است
که اگر مجنون گویند به سودا نرویم
(اے سعدی۔۔۔لیلی سے وفاداری کی شرط یہ ہے کہ مجنوں اس عشق کے سودے سے باز آجائے۔)

عیبی نباشد از تو که بر ما جفا رود
مجنون از آستانه لیلی کجا رود؟
(اس میں کوئی عیب نہیں کہ اگر تو مجھ سے جفا کرے, مگر مجنوں لیلیمکے آستانے کے بغیر کہاں جائے۔)

ما هیچ ندیدیم و همه شهر بگفتند
افسانه مجنونِ به لیلی نرسیده
(ہمیں اس میں کوئی شک نہیں مگر سارا شہر کہتا ہے کہ لیلی اور مجنوں کا قصہ ان تک نہیں پہنچا۔)

در عهد لیلی این همه مجنون نبوده‌اند
وین فتنه برنخاست که در روزگار اوست
(فقط لیلی کے زمانے میں ہی مجنوں پیدا نہیں ہوئے۔ یہ فتنہ تو ہر زمانے میں ہوکر رہے گا۔)

حافظ شیرازی کے شند اشعار۔۔۔

در ره منزل لیلی که خطرهاست در آن
شرط اول قدم آن است که مجنون باشی
(لیلی کی منزل کے رستے میں فقط کٹھنائیاں ہیں۔ اس راستے کی پہلی شرط یہ ہے کہ پہلے خود مجنوں بن جائے۔)

برقی از منزل لیلی بدرخشید سحر
وه که با خرمن مجنون دل افگار چه کرد
(صبح اول عشق کی چنگاری نے لیلی کی منزل کی کھوج میں دلِ مجنوں کو جلا ڈالا۔ مجموں کے دل۔میں سب کچھ جل گیا سوائے لیلی کے تصور کے۔)

حکایت لب شیرین کلام فرهاد است
شکنج طره لیلی مقام مجنون است
(کہتے ہیں کہ شیریں کے ہونٹوں پر فرہاد کا کلام ہے۔ اور لیلی کے شکنجے میں مجنوں کا مقام ہے۔)

عماری دار لیلی را که مهد ماه در حکم است
خدا را در دل اندازش که بر مجنون گذار آرد
(لیلی کا ہودج عروج پر ہے اور چاند کے جھولتے پنگوڑے میں لیلی آرام سے ہے۔ اللہ کے واسطے کوئی تو اپنے دل میں یہ اندازہ کرے کہ مجنوں پر کیا بیت رہی ہے۔)

وحشی بافقی کے چند اشعار۔۔۔۔۔

به مجنون گفت روزی عیب جویی
که پیدا کن به از لیلی نکویی
(ایک دن مجنوں سے کہا گیا کہ لیلی میں کوئی عیب ظاہر کرو تاکہ لیلی کے دل میں تمہارے لئے عار پیدا ہو۔)

که لیلی گر چه در چشم تو حوریست
به هر جزوی ز حسن او قصوریست
(لیلی اگر چہ تمہاری نظروں میں حور ہے۔ اور اس کے حسن کا ہر پہلو بغیر نقص ہے۔)

ز حرف عیب‌جو مجنون برآشفت
در آن آشفتگی خندان شد و گفت
(ان باتوں سے مجنوں غصہ ہوا اور پھر چہرے پر مسکراہٹ لاکر بول اٹھا۔)

اگر در دیده مجنون نشینی
به غیر از خوبی لیلی نبینی
(اگر مجنوں کی نگاہوں سے اس لو دیکھو تو بلاشبہ لیلی میں کوئی عیب نہیں پاؤ گے۔)

تو کی دانی که لیلی چون نکویی است
کزو چشمت همین بر زلف و روی است
(تم کو کیا معلوم کہ لیلی کتنی بے عیب ہے۔ اور اسکی آنکھوں سے ہی اسکے چہرے اور زلفوں کی خوبصورتی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔)

تو قد بینی و مجنون جلوه ناز
تو چشم و او نگاه ناوک انداز
(تم اس کا قد دیکھتے ہو اور مجنون اس کے جلوے کا دیوانہ ہے۔ تم اس کی چشم دیکھتے ہو اور مجنوں اس کی پلکوں کی حرکت بھی دیکھتا ہے۔)

تو مو بینی و مجنون پیچش مو
تو ابرو، او اشارت‌های ابرو
(تم اس کی زلف دیکھتے ہو اور مجنوں اس کی زلف کی گرہ دیکھتا ہے۔ تم اس کی ابرو دیکھتے ہو اور مجنوں اس کی ابرو کا اشارہ بھی سمجھتا ہے۔)

دل مجنون ز شکر خنده خونست
تو لب می‌بینی و دندان که چونست
(مجنوں کا دل لیلی کی مسکراہٹ سے چھلنی ہے۔ تم لیلینکے ہونٹ دیکھتے ہو اور مجنوں لیلی کے دانت تک دیکھ لیتا ہے۔)

کسی کاو را تو لیلی کرده‌ای نام
نه آن لیلی‌ست کز من برده آرام
(کسی نے مجنوں کی اس محبوبہ کا نام لیلی رکھا ہے مگر یہ وہ لیلی نہیں ہے جس نے میرا آرام چھینا ہے۔ )

اگر می‌بود لیلی بد نمی‌بود
تو را رد کردن او حد نمی‌بود
(اگر تم کہتے ہو کہ لیلی بری ہے میں مگر نہیں مانتا۔ اگر تم میرے عشق کو رد کرتے ہو تو میں نہیں مانتا۔)

عیب مجنون مکن ای منکر لیلی که ز دور
حالتی هست که آن بر همه کس ظاهر
(مجنوں کی عیب جوئی مت کرو کہ لیلی سے دور رہ کر بھی سب کو اس کا حال معلوم ہے۔ یعنی وہ اپنے عاشق پر فریفتہ ہو چکی ہے۔)

عشق لیلی سخت زنجیریست مجنون آزما
این کسی داند که زنجیری بود در گردنش
(لیلی کا عشق سخت زنجیر کی طرح ہے اور مجنوں کی آزمائش ہے۔ یہ زنجیر مجنوں کی گردن جکڑے ہوئے ہے اور اس سے خلاصی ناممکن ہے۔)

لیلی که شد مجنون ازو، دور از خرد صد مرحله
کو تا ز عشق رویِ تو، صد ره ز مجنون بگذرد
(لیلی جو مجنوں پر فدا ہوئی تو عقل سے دور چلی گئی۔ مجنوں پر عشق کا تماشا شروع ہوا اور اسے سینکڑوں راستوں سے گذرنا پڑا۔)

باباطاهر کے چند اشعار۔۔۔

من عاشق ز عشقت بی‌قرارم
تو چون لیلی و من مجنونم ای گل
(میں عاشق ہوں اور عشق نے مجھے بے قرار کیا ہے۔ تو لیلینہے اور میں مجنوں ہوں اے گل۔)

ز بهر لیلی سیمین عذاری
چو مجنونی چو مجنونی چو مجنون
(لیلی کے لئے تو نے سونا اور زر ترک کیا۔ تو مجنونی ہے مجنونی ہے مجنوں ہے۔)

بکوه و دشت و صحرا همچو مجنون
پی لیلی دوان با چشم تر بی
(پہاڑ, دشت و صحرا مجنوں پھرا۔ اور لیلی کے لئے چشم تر لئے پھرتا رہا۔)

اگر مجنون دل شوریده‌ای داشت
دل لیلی از آن شوریده تر بی
(اگر مجنوں کا دل لیلی کا عاشق تھا تو لیلی کا دل مجنوں پر زیادہ فدا تھا۔)

عطار نیشابوری کے چند اشعار۔

رفیقی گفت با مجنون گمراه
که لیلی مُرد گفت الحمدلله
(ایک دوست نے مجنوں کو گمراہ کرتے ہوئے کہا کہ لیلی مرگئی ہے تو اس نے واپس کہا۔ الحمد للہ۔)

چنین گفت او که ای شوریده دین تو
چو می‌سوزی چرا گوئی چنین تو
(مجنوں نے کہا کہ تو نے یہ کیا بات کی اے عاشق۔ جس آگ میں میں جل رہا ہوں تو بھی تو اسی آگ میں جل رہا ہے۔)

اس کے علاوہ دسیوں فارسی شعراء نے لیلی اور مجنون کے عشق پر پر مغز شاعری کی ہے, جن میں عراقی, صائب تبریزی, خواجہ کرمانی, شیخ بھائی, ہلالی چغتائی, ہاتف اسفہانی, خاقانی, بیدل دہلوی, فیض کاشانی, فروغی بسطامی, عرفی شیرازی, طبیب اسفہانی, نزاری قہستانی, غلام طباطبائی, غنی کشمیری, جامی, مرتضی عبد الحئی, وغیرہ وغیرہ قابل زکر ہیں۔

Online Editor
Online Editor
ShareTweetSendSend
Previous Post

بی ایس ایف نے سوچیت گڑھ میں سرحدی تقریبات کو بڑھانے کے منصوبے کا اعلان کیا

Next Post

قرض

Online Editor

Online Editor

Related Posts

خالد

آخری ملاقات

2024-12-22
پروین شاکر کا رثائی شعور

پروین شاکر۔۔۔نسائی احساسات کی ترجمان

2024-12-22
’’میر تقی میر‘‘ لہجے کے رنگ

میر تقی میر کی سوانح حیات ”ذکر میر“ کا فکری اور تاریخی جائزہ

2024-11-17
ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

ونود کھنہ: پشاور سے بمبئی تک

2024-11-17
کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

کتاب کا جائزہ: شہلا رشید کی -رول ماڈلز

2024-11-13
روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

روشنیوں کا تہوار، اردو شاعری کی نظر میں

2024-11-03
ادبی چوریاں اور ادبی جعل سازیاں

ادب ، نقاد اور عہدِجنگ میں ادبی نقاد کا رول

2024-11-03
موبائل فون کا غلط استعمال !

موبائل فون!

2024-10-20
Next Post
خالد

قرض

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • Home
  • About Us
  • Contact Us
  • ePaper

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل
  • اداریہ
  • کالم
    • رائے
    • ادب نامہ
    • تلخ وشیرین
    • جمعہ ایڈیشن
    • گوشہ خواتین
    • مضامین
  • شوبز
  • صحت و سائنس
  • آج کا اخبار

© Designed Gabfire.in - Daily Chattan